Sunday, September 24, 2017

نصر من اللہ والفتح القریب

نصر من اللہ والفتح القریب

میاں نواز شریف کے خلاف ہونے والی ہر سازش، ہر فیصلہ اور ہر منفی پراپوگینڈے پہ مجھے ان کے والد محترم میاں محمد شریف کی وہ پیشگوئی یاد آتی ہے جس کے الفاظ خود بھی وطن دشمنوں کے خلاف اعلان جنگ ہیں اور مجھے بھی وہی حوصلہ دیتے ہیں جو بولنے والے میں نظر آتا تھا:

*ایسٹیبلشمنٹ کے خلاف آخری لڑائی میرا بیٹا لڑے گا۔*

‏یہ جملہ میرا حوصلہ بحال کردیتا ہے کہ اس وقت یہ جنگ جاری ہے اور میں اس جنگ میں نواز شریف کا ساتھ دے رہا ہوں، جس حد تک بھی دے سکتا ہوں۔

‏آج جو شخص بھی اس جنگ میں نواز شریف کا ہمرکاب ہے وہ خود پہ فخر کرسکتا ہے کہ ‏اس جنگ کی جیت ہماری زندگی میں ہوتی ہے یا ہمارے بعد، ہم اپنی آئیندہ نسلوں کے سامنے شرمندہ نہیں ہونگے۔

Monday, September 11, 2017

کیا ہم قوم ہیں

والد نے ان کا نام محمد لطیف رکھا۔ وہ بڑے ہو کر چودھری محمد لطیف ہو گئے لیکن دنیا انہیں ”سی ایم لطیف“ کے نام سے جانتی تھی۔ وہ پاکستان کے پہلے وژنری انڈسٹریلسٹ تھے، اور انڈسٹریلسٹ بھی ایسے کہ چین کے وزیراعظم چو این لائی، شام کے بادشاہ حافظ الاسد اور تھائی لینڈ کے بادشاہ ان کی فیکٹری دیکھنے کیلئے لاہور آتے تھے۔ چو این لائی ان کی فیکٹری، ان کے بزنس ماڈل اور ان کے انتظامی اصولوں کے باقاعدہ نقشے بنوا کر چین لے کر گئے اور وہاں اس ماڈل پر فیکٹریاں لگوائیں۔

سی ایم لطیف کی مہارت سے شام، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور جرمنی تک نے فائدہ اٹھایا۔ وہ حقیقتاً ایک وژنری بزنس مین تھے۔ وہ مشرقی پنجاب کی تحصیل بٹالہ میں پیدا ہوئے۔ والد مہر میران بخش اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتے تھے لیکن وہ لطیف صاحب کے بچپن میں فوت ہو گئے۔ لطیف صاحب نے والد کی خواہش کے مطابق اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ یہ 1930ء میں مکینیکل انجینئر بنے اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے دو کمروں اور ایک ورانڈے میں اپنی پہلی مل لگائی۔ یہ صابن بناتے تھے۔ ان کے چھوٹے بھائی محمد صدیق چودھری بھی ان کے ساتھ تھے۔ صدیق صاحب نے بعد ازاں نیوی جوائن کی اور یہ قیام پاکستان کے بعد 1953ء سے 1959ء تک پاکستان نیوی کے پہلے مسلمان اور مقامی کمانڈر انچیف رہے۔ لطیف اور صدیق دونوں نے دن رات کام کیا اور ان کی فیکٹری چل پڑی۔ یہ ہندو اکثریتی علاقے میں مسلمانوں کی پہلی انڈسٹری تھی۔ یہ صابن فیکٹری کے بعد لوہے کے کاروبار میں داخل ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے علاقے میں چھا گئے اور لاکھوں میں کھیلنے لگے۔

پاکستان بنا تو ان کے پاس دو آپشن تھے۔ یہ اپنے کاروبار کے ساتھ ہندوستان میں رہ جاتے یا یہ کاروبار، زمین جائیداد اور بینک بیلنس کی قربانی دے کر پاکستان آ جاتے۔ سی ایم لطیف نے دوسرا آپشن پسند کیا۔ یہ بٹالہ سے لاہور آ گئے۔ لاہور اور بٹالہ کے درمیان 53 کلو میٹر کا فاصلہ ہے لیکن اگر حقیقی طور پر دیکھا جائے تو یہ دونوں شہر دو دنیاؤں کے فاصلے پر آباد ہیں۔

آزادی نے سی ایم لطیف کا سب کچھ لے لیا۔ یہ بٹالہ سے خالی ہاتھ نکلے اور خالی ہاتھ لاہور پہنچے۔ بٹالہ میں ان کی فیکٹریوں کا کیا سٹیٹس تھا؟ آپ اس کا اندازہ صرف اس حقیقت سے لگا لیجئے کہ ہندوؤں اور سکھوں نے ان کی ملوں پر قبضہ کیا، کاروبار کو آگے بڑھایا اور آج بٹالہ لوہے میں بھارتی پنجاب کا سب سے بڑا صنعتی زون ہے۔ سی ایم لطیف بہرحال پاکستان آئے اور 1947ء میں نئے سرے سے کاروبار شروع کر دیا۔ انہوں نے لاہور میں بٹالہ انجینئرنگ کمپنی کے نام سے ادارہ بنایا۔ یہ ادارہ آنے والے دنوں میں ”بیکو“ کے نام سے مشہور ہوا۔

بیکو نے پاکستان میں صنعت کاری کی بنیاد رکھی۔ لوگ زراعت سے صنعت کی طرف منتقل ہوئے اور ملک میں دھڑا دھڑ فیکٹریاں لگنے لگیں۔ ملک کے نئے صنعت کاروں میں میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے والد میاں شریف بھی شامل تھے۔ میاں شریف سات بھائی تھے۔ یہ لوگ امرتسر کے مضافات میں ایک چھوٹے سے گاؤں ”جاتی امرا“ کے رہنے والے تھے۔ میاں شریف کے والد میاں رمضان حکیم تھے۔ یہ سکھوں کے گاؤں میں اکیلا مسلمان گھرانہ تھا۔ میاں برکت خاندان کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔

یہ میاں رمضان کی پہلی بیگم کی اولاد تھے۔ یہ بیگم فوت ہو گئی۔ میاں رمضان نے دوسری شادی کی۔ دوسری بیگم سے چھ بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئی‘ میاں برکت اور میاں شفیع سے گھر کی غربت دیکھی نہ گئی۔ یہ دونوں جاتی امرا سے نکلے۔ لاہور آئے اور ریلوے روڈ پر لوہے کی ایک بھٹی پر نوکری کر لی۔ یہ دونوں بھائی سارا دن لوہا کوٹتے تھے۔ شام کو انہیں ایک روپیہ ملتا تھا۔ یہ اس میں سے دو وقت کی روٹی کے پیسے رکھ کر باقی رقم گاؤں بھجوا دیتے تھے۔

خاندان نے میاں شریف کو سکول داخل کرا دیا۔ میاں شریف نے جاتی امرا سے چار کلو میٹر دور ”نیویں سرلی“ سے پرائمری تک تعلیم حاصل کی۔ لاہور آئے اور بھائیوں کے ساتھ مزدوری شروع کر دی۔ یہ صبح مسلم ہائی سکول رام گلی جاتے تھے اور شام کو لوہا کوٹتے تھے۔ یہ میٹرک کے بعد اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں داخل ہو گئے۔ غربت اور تعلیم کا شوق دونوں اتنے زیادہ تھے کہ یہ کالج میں ”فیس معافی“ کی درخواست دینے پر مجبور ہو گئے اور اساتذہ نے ان کے سخت ہاتھ دیکھ کر انہیں ”ہوم ورک“ سے معافی دے دی۔

میاں شریف نے مزدوری کر کے پیسے جمع کئے۔ حاجی فیروز دین سے 310 روپے میں بھٹی خریدی۔ چچا سے پانچ سو روپے ادھار لئے اور اپنا کام شروع کر دیا۔ کام چل پڑا تو بھائی بھی ساتھ شامل ہو گئے۔ 1945ء میں ایک انگریز گاہک نے کراچی کے ایک ایسے انگریز کا ذکر کیا جو لوہے کے سکریپ سے کاسٹ آئرن (دیگی لوہا) بنانے کا ماہر تھا۔ میاں شریف کراچی پہنچے، انگریز سے ملے اور اسے اس کے منہ مانگے معاوضے پر ملازم رکھ لیا۔

وہ انگریز لاہور آیا اور ہاتھوں سے لوہا کوٹنے والے بھائی ملک کے بڑے صنعت کار اور لوہا پگھلانے والی بھٹی ”اتفاق گروپ“ بن گئی۔ 1960ء تک لوہے کے کاروبار میں دو بڑے گروپ تھے۔ بیکو اور اتفاق۔ سی ایم لطیف زیادہ پڑھے لکھے اور زیادہ منظم تھے چنانچہ ان کا گروپ پہلے نمبر پر تھا جبکہ اتفاق گروپ دوسرے نمبر پر آتا تھا۔ سی ایم لطیف نے ملک میں بے شمار نئی چیزیں متعارف کرائیں۔ یہ سائیکل سے لے کر جہازوں کے پرزے تک بناتے تھے۔ بیکو گروپ یورپ سے لے کر چین اور جاپان تک مشہور تھا۔ جاپان اور چین کی حکومتیں اپنے لوگوں کو ٹریننگ کیلئے بیکو بھیجتی تھیں لیکن پھر یہ دونوں گروپ سیاسی شب خون کا شکار ہو گئے۔

ذوالفقار علی بھٹو نے 1970ء میں الیکشن لڑا۔ علامہ اقبال کے صاحبزادے جاوید اقبال ان کے مد مقابل تھے۔ میاں شریف جاوید اقبال کے مدد گار تھے۔ سی ایم لطیف نے بھی ذوالفقار علی بھٹو کو فنڈ دینے سے انکار کر دیا۔ 1971ء میں پاکستان ٹوٹ گیا اور ذوالفقار علی بھٹو موجودہ پاکستان کے صدر بن گئے۔ بھٹو نے 1972ء میں ملک کے تما م صنعتی گروپ قومیا لئے یوں صدر کے ایک حکم سے ملک بھر کے تمام بڑے صنعت کار فٹ پاتھ پر آ گئے۔

ان میں میاں شریف بھی شامل تھے اور سی ایم لطیف بھی۔ میاں شریف کے پاس اردو بازار کے ایک بند برف خانے اور ایک کار کے سوا کچھ نہیں تھا۔ سات بھائیوں کے گھروں سے پیسے اور زیورات جمع کئے گئے۔ بیچے گئے تو صرف نوے ہزار روپے اکٹھے ہوئے۔ سی ایم لطیف کی صورت حال زیادہ ابتر تھی۔

آپ تصور کیجئے۔ ایک شخص جس نے 1932ء میں بٹالہ میں کام شروع کیا اور وہ جب وہاں سیٹھ بنا تو اس کا سارا اثاثہ آزادی نے لوٹ لیا۔ وہ لٹا پٹا پاکستان آیا۔ اس نے دوبارہ کام شروع کیا۔ ایک ایک اینٹ رکھ کر ایسی عمارت کھڑی کی جسے دیکھنے کیلئے دنیا کے ان ملکوں کے حکمران آتے تھے، جنہوں نے مستقبل میں ”اکنامک پاورز“ بننا تھا لیکن پھر ایک رات اس کا سارا اثاثہ اس ملک نے چھین لیا جس کیلئے اس نے 1947ء میں اپنا سب کچھ قربان کر دیا تھا۔

آپ تصور کیجئے‘ اس شخص کی ذہنی صورتحال کیا ہو گی؟ میاں شریف اور سی ایم لطیف دونوں اس صورتحال کا شکار ہو گئے۔ میاں شریف نے ہار نہ مانی۔ انہوں نے اردو بازار کے برف خانے سے دوبارہ کاروبار شروع کیا۔ گرنڈلیز بینک کے منیجر نے ان پر اعتبار کیا۔ انہیں قرضہ دے دیا اور یوں یہ دوبارہ قدموں پر کھڑے ہو گئے لیکن سی ایم لطیف حوصلہ ہار گئے۔ وہ پاکستان سے نقل مکانی کر گئے۔ وہ جرمنی گئے اور جرمنی کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں زندگی گزار دی۔ انہوں نے دوبارہ کوئی کمپنی بنائی۔ کوئی کاروبار کیا اور نہ ہی کوئی فیکٹری لگائی۔ وہ طویل العمر تھے، ان کا انتقال 2004ء میں 97 سال کی عمر میں ہوا۔ وہ باقی زندگی صرف باغبانی کرتے رہے‘ ان کا کہنا تھا کہ "دنیا کا کوئی شخص مجھ سے پودے اور پھول نہیں چھین سکتا"۔

جنرل ضیاء الحق نے 1977ء میں انہیں بیکو واپس لینے کی درخواست کی لیکن سی ایم لطیف نے معذرت کر لی۔ 1972ء میں جب بھٹو نے سی ایم لطیف سے بیکو چھینی تھی۔ اس وقت اس فیکٹری میں چھ ہزار ملازمین تھے اور یہ اربوں روپے سالانہ کا کاروبار کرتی تھی لیکن یہ فیکٹری بعد ازاں زوال کا قبرستان بن گئی۔ حکومت نے اس کا نام بیکو سے پیکو کر دیا تھا۔ پیکو نے 1998ء تک اربوں روپے کا نقصان کیا۔
یہ ہر سال حکومت کا جی بھر کر خون چوستی تھی۔

بیکو بادامی باغ کے پاس واقع تھی۔ اسکی وجہ سے یہ علاقہ کبھی پاکستانی صنعت کا لالہ زار ہوتا تھا اور دنیا بھر سے آنے والے سربراہان مملکت کو پاکستان کی ترقی دکھانے کیلئے خصوصی طور پر بادامی باغ لایا جاتا تھا لیکن حکومت کی ایک غلط پالیسی اور ہماری سماجی نفسیات میں موجود حسد اور خودکشی کے جذبے نے اس لالہ زار کو صنعت کا قبرستان بنا دیا اور لوگ نہ صرف بیکو کی اینٹیں تک اکھاڑ کر لے گئے بلکہ انہوں نے بنیادوں اور چھتوں کا سریا تک نکال کر بیچ دیا اور یوں پاکستان کا سب سے بڑا وژنری صنعت کار اور ملک کی وہ صنعت جس نے جاپان اور چین کو صنعت کاری کا درس دیا تھا، وہ تاریخ کا سیاہ باب بن کر رہ گئی۔ آج حالت یہ ہے کہ وہ لوگ جن کے لیڈر پاکستان سے صنعت کاری کے نقشے حاصل کرتے تھے، وہ لوگ سی ایم لطیف کے ملک کو بلڈوزر سے لے کر ٹریکٹر اور ٹونٹی سے لے کر ہتھوڑی تک بیچتے ہیں اور سی ایم لطیف کی قوم یہ ساراسامان خرید کر پاک چین دوستی زندہ باد کے نعرے لگاتی ہے۔

ہم کیا لوگ ہیں۔ ہم 1972ء میں ملک کو کاروبار اور صنعت کاقبرستان بنانے والوں کی برسیاں مناتے ہیں لیکن ہمیں سی ایم لطیف اور میاں محمد شریف جیسے لوگوں کی قبروں کا نشان معلوم ہے اور نہ ہی یہ معلوم ہے یہ زندگی کی آخری سانس تک پاکستان کو کس نظر سے دیکھتے رہے۔ یہ المیہ اگر صرف یہاں تک رہتا تو شاید ہم سنبھل جاتے، شاید ہمارا ڈھلوان پر سفر رک جاتا لیکن ہم نے اب ڈھلوان پر گریس بھی لگانا شروع کر دی ہے۔ ہم بیس کروڑ لوگوں کی قوم ہیں لیکن ہماری سوچ بےہنگم ہجوم کے جیسی ہے۔ کیا کام کرنا، ترقی کرنا جرم ہے؟ کیا سرمایہ دار ہمارا اور ہمارے ملک کا دشمن ہے؟ اگر سرمایہ دار کا پیسہ اور کاروبار اسی طرح بار بار تباہ و برباد ہوتا رہے گا تو کیا اسے پاگل کتے نے کاٹا ہے جو وہ اپنا پیسہ اس ملک میں رکھے گا؟

ہم اس ملک میں کام کرنے والے لوگوں کو سی ایم لطیف اور میاں محمد شریف کی طرح دوسرے ملکوں میں کیوں دیکھنا چاہتے ہیں؟ اگر یہ لوگ اپنی فیکٹریاں اور کاروبار اس ملک سے سمیٹ کر باہر لےجائیں گے تو اس ملک کے غریب کو روزگار کہاں سے ملے گا۔ اس ملک کی معیشت کیسے مستحکم رہ سکے گی؟

مجھے اکثر اوقات محسوس ہوتا ہے‘ ہم اس ملک میں کام کرنے والوں اور ترقی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔ وہ لوگ جو ریاست کے داماد بن کر پوری زندگی گزار دیتے ہیں۔ وہ ہمارے ہیرو ہوتے ہیں اور جو لوگ ملک بھر کے پیاسوں کے لیے کنوئیں کھودتے ہیں، ہم جب تک سی ایم لطیف اور میاں شریف کی طرح انہیں کنوئیں میں نہ پھینک دیں، ہمیں اس وقت تک تسلی نہیں ہوتی، ہم محسنوں کو ذلیل کرنے والے لوگ ہیں۔ ہم نے اس ملک میں ملک بنانے والوں کو بخشا، ملک بچانے والوں کو بخشا اور نہ ہی ملک سنوارنے والوں کو بخشا۔ ہم نے صرف ملک توڑنے والوں کو سلام کیا۔

سازش پاکستان کے خلاف ہے


اتنا تو میں جانتا ہوں کہ میں جو لکھنے جا رہا ہوں اس کے بعد شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاؤں گا۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کی شاید اس کی بعد میری ذات اور سوچ پر کسی ایک سیاسی پارٹی کی طرفداری کی مہر لگا کے میری خوب درگت بنائی جائے۔ لفافے والا لکھاری تو ضرور ہی کہا جائے گا۔ کافی سوچ و بچار کے بعد میں‌ اس نتیجہ پر پہنچا کہ نتیجہ کچھ بھی ہو میں یہ سب لکھوں گا ۔

جے آئی ٹی کی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش ہوئی دونوں طرف کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا جو کہ کل سنایا جائے گا۔ پاکستانی میڈیا کو اگر دیکھا جائے اور اس کی مان لی جائے تو شاید نواز حکومت کا جانا اور ہار کے جانا اب نوشتہ دیوار ہے۔

کسی بھی معاملے کی حقیقت جاننے کے دو طریقے ہوتے ہیں۔ ایک شہادت اور دوسرا حالات و واقعات کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنا۔ میں جو لکھنے جا رہا ہوں اس کا میرے پاس کوئی ثبوت تو نہیں مگر میں حالات اور واقعات کو دیکھ کر یہ ضرور بتا سکتا ہوں کہ وزیر اعظم نااہل نہیں ہو رہے۔

عدالت میں پانامہ کے علاوہ جو کیسسز پارلیمنٹرینز کی نااہلی کے چل رہے ہیں اگر ان کی سماعت اور معزز ججز کے ریمارکس کو سنا جائے اور پھر ان ریمارکس کو نیوٹرل ذہن کے ساتھ سوچا جائے تو تو ایسا لگتا ہے کہ عدالت کسی بھی پارلیمنٹیرین کو نااہل قرار نہیں دینا چاہتی۔ بلکہ کچھ قانون دان جن میں ملک کے پائے کے قانون دان بھی شامل ہیں ان کا تو بڑا سیدھا سیدھا اور واضح موقف ہے کہ سپریم کورٹ ایسا کر ہی نہیں سکتی۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے دور میں کچھ ارکان قومی اسمبلی کو عدالتی فیصلوں کے تحت نااہل کیا گیا، مگر آج قانون کو سمجھنے والے معزز حضرات ان فیصلوں پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں۔

پانامہ کیا ہے اور یہ سکینڈل کیوں منظر عام پر آیا یہ تو میں بہت بار لکھ چکا اور پھر بھی لکھتا رہوں گا مگر آج کی بڑی خبر بلکہ خوشخبری یہ ہے کہ سازش فیل ہو گئی۔ اور اس سے بھی بڑی خوشخبری یہ ہے کہ کثیر سرمائے سے کی گئی بین اقوامی سازش ایسے فیل ہوئی کہ اب اگلے کچھ سال سازشیوں کو پھر سے سازش کرنے سے پہلے بہت بار سوچنا ہو گا۔

پاکستان کا قائم ہونا اور پھر قائم رہنا کسی معجزہ سے کم نہ تھا یہ ملک اللہ کی رحمت ہے اور اس ملک کی عوام پر اللہ کی خاص کرم نوازی ہے کہ ہر آزمائش میں رب کائنات نے اس ملک کی حفاظت کی۔ سازش کیوں ہوئی اس کے لیے ہمیں عرب کے حالات اور پاکستان کا اس میں رول دیکھنا ہو گا۔ پانامہ کیس تو 2016 کے اپریل میں سامنے آیا۔ یہ بھی ایک سازش تھی مگر آج اس سازش کو ایک طرف رکھ کے صرف ملک خداد کے خلاف کی گئی سازش کا ذکر کرتے ہیں۔

دنیا میں اور خاص طور پر عرب میں جو حالات ہونے جا رہے ہیں ان میں ایک کامیاب اور مضبوط پاکستان کسی کو قبول نہیں۔ ہمارے دشمن صرف غیر مسلم ہی نہیں بلکہ کئی بظاہر اسلامی نظر آنے والے ملک بھی ہمارے دشمن ہیں۔ ایک مضبوط اور طاقتور پاکستان اس گروہ کی پلاننگ میں شامل نہیں جو عرب میں ایک وسیع جنگ چاہتے ہیں اسرائیل کو پاور بنانے کے لیے ۔ایک چھوٹا سا ملک اسرائیل اسی وقت پاور میں آ سکتا ہے جب عرب کے اندر انتشار اور جنگ ہو گی۔ عرب کی جنگ تب تک اسلامی دنیا اور عرب میں اثر انداز نہیں ہو سکتی جب تک پاکستان کھل کر اس میں حصہ نہ لے۔

داعش (یہودیوں کے اپنے بنائے ہوئے ایجنٹوں) کے خاتمے اور یمن میں باغیوں کی سرکوبی کے لیے پاکستان پہلے اس الائنس میں شامل ہوگیا جس کو سعودی عرب نے ڈیزائن کیا اور جس کا مقصد عرب سے دہشتگردی کو ختم کرنا ہے، عام لفظوں میں عرب کی سرزمین پر وسیع پیمانے پر جنگ و جدل۔ مگر یہاں صورتحال تبدیل ہو گئی پاکستان کی ایک مضبوط حکومت اور آرمی سے کام ویسے نہیں لیا جاسکا جیسے وہ چاہتے تھے یا شاید اس حکومت اور آرمی نے ان کی وہ بات مانی نہیں ہاں پاکستان نے مشروط حد تک سعودی الائنس میں جانے کی حامی ضرور بھری مگر سمٹ کے آخر عالمی رہنمائوں کی تصویر میں نواز شریف کی دوری نے ان کو یہ باور کرا دیا کہ دال نہیں گلی بلکہ اب تو ہم میڈیا پر اکثر جنرل راحیل شریف کی پاکستان واپسی کی خبریں بھی سنتے ہیں۔ اسرائیل کو پاور بنانے کے لیے پلاننگ کرنے والوں کو اس بات کا خدشہ پہلے سے ہی تھا۔

جمہوری حکومت سے اور اتنی مقبول پارٹی کی حکومت سے ہزیمت وہ 1998 میں ایٹمی دھماکوں کی صورت میں پہلے ہی اٹھا چکے تھے۔ کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ نواز حکومت یہاں مضبوط اور سب سے اچھی ہے بلکہ مضبوط حکومت سے مراد ہے ایک ایسی پارلیمنٹ ہے جو خود مختار ہو یا ایک ایسی سیاسی پارٹی کی حکومت جو عوام میں مضبوط ہو اور جس کی آواز ہو۔ یمن والے معاملے پر بھی پاریلیمنٹ سے ہی قرارداد آئی۔

یہاں ایک مشرف اور ق لیگ والی تانگہ پارٹی حکومت چاہیے ہے جس سے جیسے مرضی آئے کروا لیا جائے۔ میں جانتا ہوں آجکل پاکستان کی ہر مسجد میں مولوی صاحب سعودی الائنس کی کامیابی کے لیے دعائیں کرتے پائے جاتے ہیں اور اس الائنس کو مسلم امًہ کے اتحاد کا مظہر سمجھتے اور بیان کرتے ہیں۔ میں ایسے لوگوں کے لیے صرف یہی دعا کرسکتا ہوں کہ اللّہ ان کو اتنی ہدایت اور روشنی دے کہ وہ امت کے مسائل اور ان کے حل کو سمجھ سکیں۔

یمن کی جنگ سے انکار اور پھر چائنہ کے ساتھ مل کر پاک چائنہ کاریڈور جیسےمنصوبے سے پاکستان کی اکانومی آسمان کی بلندیوں کو چھوئے گی۔ گوادر کی بندرگاہ UAE کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے کافی ہے۔
گویا اس حکومت کو ختم کرنے کے لیے دھرنا 1 ہوا (نوٹ میں بالکل یہ نہیں کہہ رہا اور نہ یہ سمجھتا ہوں کہ عمران خان کی تحریک انصاف کسی بھی طور پر کسی عالمی سازش کا حصہ ہے۔ ان کی کوشش صرف سیاسی کوشش تھی مگر طاہرالقادری کچھ صحافی اور میڈیا کا ایک چینل کنفرم اس سازش کا حصہ تھے جس کا پلان UAE میں تیار ہوا)۔ آج سب یہ جانتے ہیں کہ اس دھرنا 1 میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ شامل نہیں تھی ہاں ہو سکتا ہے اسٹیبلشمنٹ کے کچھ لوگ ضرور ہوں جنھوں نے خان صاحب کو کوئی گارنٹی دی ہو مگر یہ تاثر دینا کہ صرف جنرل پاشا یا پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ہی اس کے پیچھے تھی یہ غلط ہے۔ میڈیا کا ایک بڑا چینل پچھلے چار سال سے UAE سے تیار کردہ سازش کے تحت پاکستانی حکومت کے پیچھے پڑا ہے پہلے دھاندلی اور اب کرپشن کے نام پر مگر کیا کرپشن صرف نواز فیلملی نے ہی کی کیا جہانگیر ترین یا ذرداری صاحب کی کرپشن پر ہم نے کبھی اس چینل کو بولتے یا رپورٹ کرتے سنا۔ کیا ہم وہ باتیں بھول گئے جب 2014 دھرنے کی ایک رات ایک ٹی وی کے اینکرز نے اسلام آباد دھرنے کے دوران ہر 15 منٹ کے وقفہ سے لاشوں کا ذکر کیا گولی کا ذکر کیا اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ لاشوں کی تعداد بڑھاتے رہے۔ کہاں ہیں وہ سب لاشیں ان ٹراسمیشنز کی ویڈیوز آج بھی یو ٹیوب پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ اسی چینل پر بیٹھے اینکرز لوگوں کو اسلام آباد جا کے فورسز سے بھڑ جانے کی ترغیب دیتے رہے تا کہ خون ہو لاشیں گریں اور پاکستان میں بدامنی پھیلے۔ اس وقت کون سا پانامہ اور کرپشن کی بات تھی۔ تب تو دھاندلی کے ایسے ایشو کو وجہ بنایا گیا تھا جو بعد میں سپریم کورٹ میں جھوٹا ثابت ہو گیا۔ اگرمیڈیا کا ایک حلقہ اور ایک مخصوص چینل کے صحافی سچ میں کرپشن کے خلاف ہیں تو انھیں سندھ کی کرپشن کیوں نظر نہیں آتی۔ آج یہی حکومت یا پارٹی ہی کیوں کرپشن کی سمبل بن گئی کیا ہم پچھلی حکومت یعنی پیپلز پارٹی جو آج کرپشن پر وزیراعظم کے استعفی کا مطالبہ کر رہی ہے اس کا حج سکینڈل رینٹل پاور سکینڈل ایفیڈرین کیس سندھ میں کرپشن سوئس بنکوں کو خط نہ لکھنے والی کہانیاں سب بھول گئے یا وہ سچ نہیں تھیں۔ آج میڈیا پر بیٹھے UAE کہ ان ایجنٹوں نے سب کچھ ان کے دامن سے ایسے دھو دیا جیسے انہوں نے کبھی ایسا کچھ کیا ہی نہیں۔ سب وہی اینکرز ہیں‌ جو 2014 کے دھرنے میں عوام کو باہر نکل کر لڑ اور مر جانے پر اکسا رہے تھے ۔ آج بس ان میں سے بعض نے چینل بدل لیے مگر ان کے کام اور انداز آج بھی وہی ہیں۔ آج ان کے منہ سے جھاگ نکلتی ہےاس حکومت اور شریف خاندان کے خلاف ذہر اگلتے ہوئے اور ہماری معصوم عوام خوشی میں جھومتی ہے کہ یہ حق اور سچ کے داعی ہیں مگر ان کی حقیقت کچھ اور ہے۔ کچھ چینل اور اسی طرح کے نام نہاد صحافی تو اب باقاعدہ پاک چائنہ کاریڈور کے خلاف بولنا بھی سٹارٹ ہو گئے اور قوم کو ایسے گمراہ کیا جا رہا ہے جیسے چائنہ پاکستان پر قبضہ کرنے کے لیے یہ انویسٹمنٹ کر رہا ہے۔ ایک صاحب جو ایک سال پہلے تک سیاست دان بن کے الطاف حسین کو ڈیفینڈ کر رہے تھے، ایک رات رینجرز کی مہمان نوازی کر کے اتنے محب وطن صحافی ہو گئے کہ دن رات حکومت کی کرپشن ان کو سکون نہیں لینے دیتی۔

شریف خاندان کا اتنا تو ہم جانتے ہیں کہ 1932 سے کاروبار میں ہیں مگر ذرداری صاحب! ان کی دولت اور لیونگ سٹائل کی کیا جسٹیفیکیشن ہے۔ اس حکومت نے پاکستان کے لیے کیا کیا کام کیا یہ بتانا میری ضرورت نہیں نہ یہ میرا کام ہے ۔ یہاں بات کرنے کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس سارے معاملے کا مقصد کرپشن سے نہیں بلکہ کہانی کچھ اور ہے۔ پاکستان پہ افغانستان حملہ کر کے ہمارے جوانوں کو شہید کر دے، ان کے لیے ٹاپ سٹوری پانامہ ہی ہے۔ انڈیا کشمیر میں 10 کشمیری ایک دن میں شہید کر دے، ان کی ٹاپ سٹوری پانامہ ہی ہے۔ ہندوستانی فوج لائن آف کنٹرول پر بلا اشتعال فائرنگ کرے، ان کی ٹاپ سٹوری شریف خاندان ہی ہے۔

کیا ہم نہیں جانتے کہ 2014 میں UAE نےطاہرالقادری کو لانچ کیا۔ آج میرے دوست کہتے ہیں طاہرالقادری ماڈل ٹاون کی وجہ سے آیا کیا آج میڈیا میں رہنے والے میرے دوست نہیں جانتے ماڈل ٹاون میں کس پارٹی کے لوگ تھے کس نے پہلے اندر سے فائرنگ کی اور پھر اسی پارٹی نے دھرنے کئ شرکاء کو GT روڈ پر ناشتے اور کھانے پیش کیے، کیا ہم نہیں جانتے لندن پلان کیا تھا، کیا ہم نہیں جانتے UAE کے ایک منسٹر نے کھلم کھلا پاکستان کو یمن کی جنگ میں جانے سے انکار پر سنگین نتائج کی دھمکی دی تھی، کیا ہم نہیں جانتے جنرل پاشا جب اس وقت کے DGMO تھے تو انھوں نے ان کیمرہ بریفنگ میں پاکستان اور بالخصوص بلوچستان کے اندر UAE کی منفی سرگرمیوں کی نشاندہی کی تھی، کیا آج ہم بھول گئے شمسی ائیر بیس جہاں سے امریکی ڈرون اڑا کرتے تھے۔ پاکستان میں وہ بیس UAE کے کنٹرول میں تھا۔ کیا ہم بھول گئے کہ پاک چائنہ راہداری کے اعلان کہ بعد UAE نے انڈین پرائم منسٹر کو تاریخ میں پہلی بار UAE بلا کر تاریخی پروٹوکول دیا اور 75 بلین ڈالر کے منصوبوں پر سائن کیے۔

جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ پیش کی۔ یو اے ای کے فری زون میں پرائم منسٹر آف پاکستان کی آف شور کمپنی نکل آئی سب جانتے ہیں کہ یو اے ای کے فری زون میں کمپنی کسی بھی طرح سے برٹش ورجن آئی لینڈ جیسی کمپنیوں کی طرح نہیں نہ ہی اس کو آف شور کہا جا سکتا ہے صرف آف شور کا نام استعمال کر کے سنسنی پھیلائی گئی۔ UAE فری زون کے قانون کے مطابق کمپنی کے چئیرمین کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ پھر جب اس کمپنی کی چئیرمین شپ کو الیکشن میں ڈیکلئیر کر دیا گیا تھا تو آج اس کو منفی انداز میں حقائق کو تور مڑوڑ کر پیش کرنے کی کیا ضرورت جب کہ یہ معاملہ JIT کو سپریم کورٹ کی طرف سے دیے گئے ان چودہ سوالوں میں بھی نہیں تھا۔ وزیر اعظم اور وزراء کے اقاموں کا بہت زکر ہو رہا ہے آجک کل میڈیا کا ایک خاص حلقہ اس ایشو کو بہت اچھال رہا ہے مگر کوئی یہ نہیں بتاتا کہ پاکستان کے تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈران نے ایسے اقامے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔ وجہ صرف سفری دستاویز ہے اگر ایشو کو کھولا جائے تو سب لیڈران کی ایسی ملازمتیں نکل آئیں گی۔

گلف سٹیل مل سے متعلق JIT نے UAE حکومت کا ایک خط پیش کیا جس نے حکومت بلکہ شریف خاندان کے تمام بیان کو جھوٹا ثابت کر دیا مگر کیا صرفUAE سے خط لے آنا کافی تھا؟ پانامہ انکوائری پاکستانی تاریخ کا دوسرا بڑا کیس تھا (پہلا بھٹو صاحب کی پھانسی والا کیس تھا) کیا یہ ضروری نہیں تھا کے سعودی حکام سے بھی پوچھ لیا جاتا۔ قطر کی الثانی کمپنی سے بھی پوچھ لیا جاتا۔ معاہدے کی دوسری فریق تو وہ کمپنی تھی جو آج بھی ہے۔ UAE کسٹمز حکام کے مطابق 1980 میں وہاں سے کوئی مشینری شریف خاندان کے کسی نمائندے کے نام سے نہیں گئی مگر جب شریف خاندان کا یہ اصرار ہے کہ مشینری گئی تو کیا یہ ضروری نہیں تھا کہ اس ملک کے حکام سے بھی پوچھ لیا جاتا جہاں کا شریف خاندان اصرار کر رہا تھا کہ مشینری بیھیجی گئی۔ صرف UAE کے خط پر ہی کیوں انحصار کر لیا گیا۔
اگر مریم نواز کی ٹرسٹ ڈیڈ کی برطانیہ کے ایک پرائیویٹ ادارے سے ویریفیکیشن کروائی جا سکتی ہے تو 1980 کے گلف سٹیل مل والے معاہدے کی ویریفیکیشن کیوں نہیں۔ کیلیبری فونٹ سے متعلق بھی بہت ساری کہانیاں باہر آئی ۔ فری مین باکس کے اس لیٹر کو رپورٹ کا حصہ کیوں نہیں بنایا گیا جس میں اس فرم نے 2006 میں اس ٹرسٹ ڈیڈ کی رجسٹریشن کی تصدیق کی ہے ۔ مریم نواز کی کمپنیوں کی آنر شپ سے متعلق برٹش FIA کے موزیک فرانسس کو لکھے گئے دو خط رپورٹ کا حصہ بنا دیے گئے جن میں سے ایک خط وہ ہے جس کے آخر میں خود اس لاء فرم نے لکھا کہ اگر ان کمپنیوں سے منسوب کوئی ٹرسٹ ہے تو اس کی معلومات ہمارے پاس نہیں کیوں رپورٹ میں اس جملے کو ایسے بنا دیا گیا کہ ان کمپنیوں سے منسوب کوئی ٹرسٹ ہے ہی نہیں۔ ان خطوط سے مریم نواز کی آنر شپ کہیں ثابت نہیں ہوتی۔ پھر کیوں میڈیا میں شوشہ چھوڑ دیا گیا کہ آنر شپ مریم نواز کی ہے۔ پوری رپورٹ میں مخصوص گواہ چنے گئے اور ان سے مخصوص جواب مانگے گئے اور پھر ان جوابوں کو توڑ مڑوڑ کر ایسے پیش کیا گیا کہ عوام کو گمراہ کیا جا سکے۔ میں یہ سب آج اس لیے بول رہا ہوں کہ سپریم کورٹ نے بھی انھی سوالون کا جواب نہ پا کر جے آئی ٹی رپورٹ کو ایک سائیڈ پر رکھ کے کیس کے دلائل سنے۔ کیس عدالت میں ہے اور فیصلہ کل آنا ہے مگر عدالت میں میڈیا کے کچھ نام نہاد صحافیوں اورعوام کے حقوق کے علمبردار چینل نے پہلے ہی شریف خاندان کو مجرم اور چور ثابت کرکے پوری قوم کو مینٹلی ریڈی کر دیا ہے۔ اب اگر عدالت شریف فیملی کے حق میں فیصلہ دیتی ہے تو کیا قوم اس کو ایکسیپٹ کرے گی اور اگر فیصلہ نوز حکومت کے خلاف آتا ہے تو پھر ایک اور پارٹی اس کو برا کہے گی۔ جن حالات اور مجبوری کے تحت سپریم کورٹ نے یہ کیس لیا وہ بھی سب کے سامنے ہے اسلام اباد کی سڑکوں پر آگ اور خون کی مشق کی جا رہی تھی ملک کی اکانومی مسلسل گر رہی تھی ۔ سپریم کورٹ کو کیس لینا پڑا مگر کورٹ کے ساتھ کیا کیا گیا معزز ججز کے ریمارکس کو میڈیا میں ایسے توڑ مڑوڑ کر پیش کیا گیا اور پھر ان ریمارکس کی ایسے تشہیر کی گئی کہ جیسے عدالت حکومت کے خلاف کسی سازش کا حصہ ہے۔ عدالتیں پمیشہ سے ایسے ریمارکس دیتی آئی ہیں۔ ڈان لیکس جیسے معاملے میں فوج اور حکومت کو آمنے سامنے لا کر کھڑا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ اب مشکل یہ آن پڑی کہ عوام مائینڈ بنا چکی ہے۔ کوئی بھی فیصلہ جو حکومت کے حق میں ہو گا اس میں عدالت پہ حرف آئے گا اور اگر فیصلہ خلاف آ گیا تو حکومت بھی ایک بڑی سیاسی پارٹی کی ہے اس کے ووٹرز کی طرف سے کورٹ پر حرف آئے گا۔ فوج جو پہلے ہی ملکی سالمیت کی جنگ لڑ رہی ہے اور چاروں طرف سے پاکستان کے دشمنوں کے ساتھ نبردآزما ہے اس پر بھی پریشر بنا دیا گیا ۔ فوج کو اس معاملے میں بدنام کیا جا رہا ہے پاکستانی عوام کے دلوں میں فوج کی عزت کم کرنے کی ایک باقاعدہ منظم سازش کی جا رہی ہے اور اس سب کا مقصد ایک ہی ہے، افراتفری۔ سازشیں اپنے عروج پر تھیں پچھلے دنوں سینیٹر جان مکین کی پاکستان آمد اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے یہ وہ شخص ہے جو دنیا میں جہاں بھی گیا وہاں افراتفری ہوئی اور پھر تباہی۔ 2004 میں عراق کا دورہ اور پھر عراق جنگ ، لیبیا کا دورہ اور پھر لیبیا میں قذافی کا تختہ الٹنا، 2011 میں شام کا دورہ اور پھر شام کی تباہی، 2013 میں مصر کا دورہ اور پھر صدر مرسی کا تختہ الٹ جانا۔ ہمارے عوام تو اس شخص کے بارے میں کچھ جانتے نہیں اور میڈیا نے ان کو کچھ بتایا نہیں مگر انٹرنیشنل میڈیا کے اندر اس شخص کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ دنیا میں وہاں بھیجا جاتا ہے جہاں امریکہ نے اپنے ایجنڈے کے لیے افراتفری پھیلانی ہو۔

میں یہ سب فیکٹس اس لیے منشن نہیں کر رہا کہ مجھے اس حکومت سے کوئی ہمدردی ہے بلکہ میں یہ اس سازش کو ثابت کرنے کے لیے لکھ رہا ہوں جو اس قوم کے ساتھ کھیلی جا رہی تھی۔ بات سیدھی سی ہے معاملہ نواز خاندان کی کرپشن کا نہیں ہے بلکہ ہدف پاکستان ہے۔