پاکستان میں پانی کے موجودہ بحران کو دیکھتے ہوئے میرے ذہن میں ایک تجویز آتی ہے کہ پاکستان کے پاس پانی کا عظیم ذخیرہ سمندر کی صورت میں موجود ہے جس سے ہم فائدہ نہیں اٹھا رہے۔ دنیا کے کئی ممالک نے سمندر کے پانی کو پینے کے قابل بنانے کے کارخانے لگا رکھے ہیں اور پانی کے بحران کا مسئلہ حل کیا ہوا ہے۔
مگر اس کے ساتھ ہی میرے ذہن نے یہ بھی سوچا کہ ایسے کارخانے پاکستان میں لگائے گا کون؟ پاکستانی قوم کا تو یہ حال ہے کہ جنہوں نے خالصتان پروجیکٹ کو سبوتاژ کرکے پاکستان کو بجلی اور پانی کے بحران میں مبتلا کیا، انہیں پسند کرتی ہے اور دوبارہ ان کے اقتدار میں آنے کی خواہش کرتی ہے۔ اس کے برعکس جنہوں نے بجلی کی پیداوار کے متبادل منصوبوں پہ کام کرکے پاکستان کو اس بحران سے نکالنے کی کوشش کی اور اس کے لئے کارخانے لگائے، انہیں غدار قرار دیتے یہ قوم نہیں تھکتی۔
اگر پاکستان میں سمندری پانی کو قابل استعمال بنانے کے کارخانے کوئی لگا سکتا ہے تو صرف اور صرف میاں محمد نوازشریف اور میاں محمد شہبازشریف ہیں کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ ان کے علاوہ کسی حکمران نے پاکستان میں کارخانے، انڈسٹری اور معیشت کے فروغ کے لئے کام نہیں کیا۔ لیکن اس کام کے لئے ان کا اقتدار میں ہونا اور "بااختیار اقتدار" میں ہونا بہت ضروری ہے۔
اگر ہم اسی طرح اپنے محسنوں کو کرپٹ اور غدار قرار دیتے رہے تو ہم اپنی نسلوں کو اس انجام سے ہرگز نہیں بچا سکیں گے جو آج ایتھوپیا کے بچوں کا نظر آتا ہے۔ ذرا تصور تو کیجئے کہ آپ کا بچہ بھوکا پیاسا ننگ دھڑنگ سوکھی روٹی کے ایک لقمے کی تلاش میں زمین پہ گھسٹ رہا ہو اور کوئی گدھ چند فیٹ کے فاصلے پہ بیٹھا اس کے مرنے کا انتظار کررہا ہو۔ کیا یہ تصویر قابل برداشت ہے؟ سنا ہے کہ جس شخص نے یہ تصویر بنائی تھی اس نے بعد میں خودکشی کرلی تھی۔ کیا ہمارا ضمیر بھی اس فوٹوگرافر کے ساتھ ہی مرگیا تھا؟
(پاکستانی شیر)