Thursday, May 31, 2018

پانی کا بحران

پاکستان میں پانی کے موجودہ بحران کو دیکھتے ہوئے میرے ذہن میں ایک تجویز آتی ہے کہ پاکستان کے پاس پانی کا عظیم ذخیرہ سمندر کی صورت میں موجود ہے جس سے ہم فائدہ نہیں اٹھا رہے۔ دنیا کے کئی ممالک نے سمندر کے پانی کو پینے کے قابل بنانے کے کارخانے لگا رکھے ہیں اور پانی کے بحران کا مسئلہ حل کیا ہوا ہے۔

مگر اس کے ساتھ ہی میرے ذہن نے یہ بھی سوچا کہ ایسے کارخانے پاکستان میں لگائے گا کون؟ پاکستانی قوم کا تو یہ حال ہے کہ جنہوں نے خالصتان پروجیکٹ کو سبوتاژ کرکے پاکستان کو بجلی اور پانی کے بحران میں مبتلا کیا، انہیں پسند کرتی ہے اور دوبارہ ان کے اقتدار میں آنے کی خواہش کرتی ہے۔ اس کے برعکس جنہوں نے بجلی کی پیداوار کے متبادل منصوبوں پہ کام کرکے پاکستان کو اس بحران سے نکالنے کی کوشش کی اور اس کے لئے کارخانے لگائے، انہیں غدار قرار دیتے یہ قوم نہیں تھکتی۔

اگر پاکستان میں سمندری پانی کو قابل استعمال بنانے کے کارخانے کوئی لگا سکتا ہے تو صرف اور صرف میاں محمد نوازشریف اور میاں محمد شہبازشریف ہیں کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ ان کے علاوہ کسی حکمران نے پاکستان میں کارخانے، انڈسٹری اور معیشت کے فروغ کے لئے کام نہیں کیا۔ لیکن اس کام کے لئے ان کا اقتدار میں ہونا اور "بااختیار اقتدار" میں ہونا بہت ضروری ہے۔

اگر ہم اسی طرح اپنے محسنوں کو کرپٹ اور غدار قرار دیتے رہے تو ہم اپنی نسلوں کو اس انجام سے ہرگز نہیں بچا سکیں گے جو آج ایتھوپیا کے بچوں کا نظر آتا ہے۔ ذرا تصور تو کیجئے کہ آپ کا بچہ بھوکا پیاسا ننگ دھڑنگ سوکھی روٹی کے ایک لقمے کی تلاش میں زمین پہ گھسٹ رہا ہو اور کوئی گدھ چند فیٹ کے فاصلے پہ بیٹھا اس کے مرنے کا انتظار کررہا ہو۔ کیا یہ تصویر قابل برداشت ہے؟ سنا ہے کہ جس شخص نے یہ تصویر بنائی تھی اس نے بعد میں خودکشی کرلی تھی۔ کیا ہمارا ضمیر بھی اس فوٹوگرافر کے ساتھ ہی مرگیا تھا؟

(پاکستانی شیر)

Wednesday, May 30, 2018

بجلی اور پانی کی کمی

مشرف کے دور میں انڈس واٹر کمیشن میں خلائی مخلوق کا ایک بندہ بیٹھا تھا جس نے مشرف کی رضامندی سے انڈیا کو 52 ڈیموں کا این او سی جاری کر دیا، اپنا بریف کیس لیا اپنے بیوی بچوں کو ساتھ لیا اور آج امریکہ میں بیٹھا کروڑوں ڈالروں میں کھیل رہا ہے عیش کر رہا ہے بیوقوف پاکستانی قوم کا منھ چڑا رہا ہے۔ انڈیا جب بھی نیا ڈیم شروع کرتا ہے پاکستان انڈس واٹر ٹریٹی کے گارنٹر ورلڈ بینک کے پاس جاتا ہے تب انڈیا پاکستان کا جاری کیا گیا NOC دکھاتا ہے, بس پھر پاکستان اپنا سا منھ لے کر واپس آجاتا ہے۔

آج دنیا کی ہر خرابی کی طرح پاکستان میں پانی کی کمی کا ذمہ دار بھی نواز شریف کو ہی ٹھرا کر لمبی لمبی تحریریں گھڑی جارہی ہیں مگر معاملے کی بنیاد کی طرف کوئی بھی نہیں جانا چاہتا۔ سب کو پتہ ہے کہ جب اصل حقائق سامنے ائیں گے تو بےنظیر بھٹو، اعتزاز احسن اور مشرف ذمہ دار بنتے ہیں۔ کہاں تھے وہ محب وطن افراد جب بےنظیر اور اعتزاز احسن پشاور میں خالصتان تحریک سے متعلق دستاویزات راجیو گاندھی کے حوالے کررہے تھے؟ کیا انہیں اس وقت یہ غداری نظر نہیں آئی؟ ان کی حب الوطنی اس وقت کہاں مرگئی تھی؟ کہاں تھی ان کی حب الوطنی جب ایک چھوٹے محب وطن نے بڑے محب وطن کی منظوری سے بھارت کو این او سی جاری کیا تھا۔ اب نوازشریف کیا کرے۔ وہ جب بھی پاکستان کا مقدمہ عالمی عدالت میں لےجاتا ہے تو اسے ایک عظیم محب وطن کا جاری کیا ہوا این او سی دکھا دیا جاتا ہے۔

جب آپ کے دریاوں میں پانی نہیں آئے گا تو بجلی کیسے بنے گی۔ بجلی بنانے کے متبادل ذرائع پہ نوازشریف سے پہلے کس نے کام کیا؟ کوئی ایک نام تو بتائیں میرا منہ بند کرنے کے لئے۔ نوازشریف پہلا حکمران ہے جس نے بجلی کی پیداوار کے متبادل منصوبوں پہ کام کا آغاز کیا اور لوڈشیڈنگ کو 20 گھنٹے سے گھٹا کن 4/5 گھنٹے پہ لایا مگر یہ ناشکری قوم پھر بھی گھنٹے گن گن کر اسے گالیاں دینے کو جواز ڈھونڈ رہی ہے۔ شاید ایسے لوگوں کی نظر میں اس کام کا ثواب روزے سے بھی زیادہ ہوگا۔