Wednesday, June 13, 2018

صاف چلی شفاف چلی

‏السلام علیکم۔۔
آج کل ملک عزیز کی سیاست میں عمران خان نے سیاست میں ایک ایسی تبدیلی لا دی ہے کہ الزام اور جھوٹ کا بول بالا ہے۔ جس میں سچ بہت دب کر رہ گیا عمرانی سوشل میڈیا نے اس قدر طاقتور کمپین کی ہے کہ ان کی اس طاقت سے سچ لکھنے والے میڈیا کے لوگ بھی بہت دب کر لکھتے ہیں کیونکہ کون ایسا ہوگا جس کو اپنی عزت عزیز نہ ہوگی؟

ایک طرف عمرانی سوشل میڈیا اپنے جھوٹ کو انتہائی مکاری کے ساتھ اتنا زیادہ پھیلاتا ہے کہ عام انسان کو جھوٹ بھی سچ لگنے لگتا ہے۔ دوسری طرف اگر کوئی ان کے جھوٹ کو بےنقاب کرتا ہے تو اس کی ماں بہن ایک کر دی جاتی ہے۔ الغرض ان کے جھوٹ اور سینہ زوری نے معاشرے میں ایک ایسا طبقہ پیدا کردیا ہے جو صرف جھوٹ ہی سننا چاہتا ہے۔

کل زرداری کا نیب سے آخری ریفرنس بھی ختم ہو گیا اور زرداری مکمل طور پر مسٹر کلین بن چکے ہیں۔ یہ بات پاکستانیوں کو کیسے ہضم ہو سکتی ہے مگر یہ سچ کر دکھایا گیا ہے جس پر سوائے ایک مسکراہٹ کے کچھ بھی نہ کہا جاسکتا ہے کیونکہ زرداری کی کرپشن وہ مقام حاصل کر چکی تھی کہ بھٹو کا جیالا PPP کا دفاع کرنے میں ناکام تھا اور PPP چھوڑ کر PTI میں شامل ہو رہا تھا۔ عمرانی سوشل میڈیا اور اس کے ہمنوا الیکٹرانک میڈیا نے اپنی توپوں کا رخ نوازشریف کی طرف صرف اس لئے کئے رکھا کہ کسی طرح عمران نیازی کو وزیراعظم بنا دیا جائے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اصل کرپشن کے بانی اور ذمہ داری آج بری ہو رہے ہیں باقی ماندہ عمران نیازی کے ساتھ مل کر چور مچائے شور کی پالیسی پر گامزن ہیں۔

صوبہ پختونخواہ جس کا سربراہ عمران نیازی نے پرویزخٹک کو مقرر کرکے وزارت اعلیٰ کی مسند پر بٹھایا وہ شخص PTI میں آنے سے پہلے کرپشن اور اقربا پروری میں بےمثال تھا۔ خیبرپختونخواہ میں اس وقت سب سے بڑی جو کرپشن ہو رہی ہے وہ خیبرپختونخواہ کی معدنیات ہیں۔ اس کرپشن پر روشنی ڈالنے سے پہلے آپ کے علم میں یہ بات لانا ضروری ہے کہ معدنیات کی تھوڑی سی اہمیت آپ کو بتا سکوں۔ سوئٹزرلینڈ اور جنوبی افریقہ انہی معدنیات کی وجہ سے اپنا %75 بجٹ بناتے ہیں۔ جی ہاں کرومائیٹ وغیرہ۔ خیبرپختوخواہ میں جو کرومائیٹ نکالی جا رہی ہے اس کرومائیٹ سے کئی گناہ بہترین ہے اور اوپر سے کرومائیٹ کے دنیا کے سب سے بڑے خریدار چائینہ آپ کے دروازے پر موجود ہے۔ سابق دور حکومت میں پرویزخٹک نے بطور آبپاشی وزیر سابقہ حکومت میں اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے کرومائیٹ کی سب سے بڑی کان تنگی مائنز کا ٹھیکہ ایک شخص کو دلوایا اور اس سے یہ ٹھیکہ اپنے بھائی جلال خان کو لے دیا جو بدستور اب بھی جلال خان کے پاس ہے۔ جلال خان دبئی میں شہنشاہوں کی زندگی گذار رہا ہے جبکہ عملاً جہانگیرترین کی کمپنی کرومائیٹ نکال کر چین اور دوسرے ممالک میں بیچ رہی ہے اور یوں جس کرومائیٹ سے خیبرPK کے عوام کی قسمت تبدیل ہو سکتی ہے اس کرومائیٹ سے جہانگیرترین پرویزخٹک اور اس کے خاندان کی عیاشی ہو رہی ہے۔

خیبرPK میں پرویز خٹک نے مل بانٹ کر کھانے کا بہت خوبصورت نظام بنا رکھا ہے۔ اسدقیصر جو کہ اسپیکر صوبائی اسمبلی ہے جب سیاست میں آیا تو اس کا کل اثاثہ 14 مرلے کا گھر تھا۔ مگر آج اسد قیصر کا گھر پانچ کروڑ سے زیادہ قیمتی ہے اور اسلام آباد میں بنیگالا عمران نیازی کی رہائش کے قریب اس کا ایکڑوں میں پھیلا کروڑوں روپے کا بنگلہ ہے۔ اسد قیصر کا ذریعہ لوگوں کو من پسند نوکریاں بیچنا ہے۔

اب ترقیاتی کاموں کی طرف آئیے۔ جہاں %30 تک کمیشن خیبر PK کے وزیروں اور مشیروں کی جیب میں جارہا ہے۔ عمران نیازی کا سب سے بڑا کام بلین ٹری سونامی کیا ہے؟ آئیے اس کی حقیقت بھی جان لیجئے۔۔۔

معدنیات کی طرح لکڑی جسے ٹمبر بھی کہا جاتا ہے۔ اس سے KPK مالا مال ہے ٹمبرمافیا KPK میں بہت مضبوط مافیا ہے جو درخت کاٹتا ہے اور فروخت کرتا۔ یہ درخت جن کی لکڑی عمارتوں میں استعمال ہوتی ہے کم وبیش 70 سے لے کر 80سال کا درخت قابل استعمال ہوتا ہے۔ جبکہ بلین ٹری سونامی 4سال بعد سوشل میڈیا پر KPK کو امیر بنانے کے خواب دکھاتا ہے جس کا حقیقت کے ساتھ دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ صرف عوام کی نظروں میں دھول جھونک کر ٹمبر مافیا پر پردہ ڈالنے کی ایک تشہیری مہم ہے۔ KPK میں قیمتی ٹمبر چوری کرنے کو قانونی حفاظت دی گئی ہے۔ ذرا غور فرمائیے۔۔۔۔

آپ 100 روپے کی لکڑی چوری کریں اگر یہ چوری پکڑی جاتی ہے تو 40 روپے کی لکڑی KPK حکومت کو دیں۔ باقی 60 روپے کی لکڑی پر ٹیکس جمع کروائیں اور دھڑلے سے یہ لکڑی بیچیں آپ کو کوئی لکڑی چور نہ کہے گا۔ جی ہاں یہ KPK میں قانون ہے جسے انڈس پالیسی کہا جاتا ہے۔ ہو کچھ یوں رہا ہے کہ 100 کی چوری ظاہر کی جاتی ہے اور اس کی رسید پر 100 بار لکڑی بیچی جاتی ہے۔ جس کی مالیت اربوں روپے ماہانہ بنتی ہے۔ کوئی الیکٹرانک میڈیا آپ کو یہ نہیں بتائے گا۔ اور اس پر بلین ٹری سونامی کا شوشہ پردہ داری کا بہترین انتظام ہے۔

کرک کی طرف آئیے جہاں آئل فیلڈ سے کروڈ آئل نکالا جاتا ہے۔ جس کی رائلٹی وہاں کی مقامی آبادی کو دی جاتی ہے۔ مگر کرک کی مقامی آبادی کی بدحالی اس رائیلٹی کو طاقتوروں کے ہڑپ کرنے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کرک میں پانی کا ایک ٹیوب ویل 17 سے اٹھارہ لاکھ میں لگتا ہے۔ جبکہ کاغذوں میں اس کی لاگت پچاس 50لاکھ لکھ کر باقی ہڑپ کیا جاتا ہے۔ پچھلے دنوں کرک کے MPA گل صاحب کے نوعمر بھائی کی فوٹو سوشل میڈیا کی زینت بنی تھی۔ جس میں وہ بیڈ پر نوٹ بچھا کر بیٹھا ہے۔ کرک PK40 کے ایم پی اے حاجی گل صاحب کی الیکشن کمپین جس شخص نے چلائی تھی اس کو ایک قیمتی گاڑی دے کر غیرسیاسی پولیس کا SHO لگایا ہوا ہے۔ کرک میں مول کمپنی کے ساتھ مل کر اربوں روپے کا کروڈ آئل چوری کا معاملہ سامنے آیا مگر اس پر کچھ بھی نہ ہوا۔ کیونکہ قانون FIR پر ہی آگے بڑھتا ہے۔ ذرا لطف اندوز ہوں کہ ان کا یہ SHO اربوں روپے کے کروڈ آئل کے معاملے کو دبا سکتا ہے جبکہ ان کے سرپرست وزیراعظم پاکستان کو 10 ہزار درھم تنخواہ نہ لینے پر ہٹا سکتے ہیں۔

دوستو۔۔۔
سرکاری ٹھیکوں سے کمیشن کی چوری پر انتہائی احمقانہ طریقے سے KPK حکومت کا اقرار اس وقت سامنے آیا جب عائشہ گلالئی پر خود انھوں نے کمشن لینے کا الزام لگایا۔ خیبرPK کے احتساب کمیشن کے سربراہ کی حقیقت آپ کو اگلی قسط میں بتائی جائے گی۔ فی الحال آپ کو اس سربراہ جنرل حامد کا بیان یاد کروایا جا رہا ہے۔
"خیبرپختونخوا میں 100 روپے ترقیاتی فنڈ سے 60 روپے کرپشن ہو رہی ہے۔ جنرل ریٹائرڈ حامد خان"

اب سنئیے کہ اس جنرل ریٹائرڈ حامد خان نے کیا کیا اور اس کے ساتھ کیا ہوا۔ تبدیلی کے نام پر عمران نیازی نے سب سے خوبصورت نعرہ جو لگایا تھا وہ تھا "میں نوے دن میں کرپشن کا خاتمہ کروں گا"۔ طالبان کی مہربانی سے عمران نیازی کی پارٹی کو خیبرPK میں اکثریت مل گئی تو اس نعرے کو عملی جامہ پہنانے کا معاملہ درپیش آیا۔ 90 دن کی بجائے کافی وقت کے بعد کرپشن کے خاتمے کے لئے عمران نیازی نے خیبرPK میں احتساب کمیشن کے نام سے ایک ادارہ بنا دیا۔ جیسا کہ سب کو پتہ ہے کہ عمران نیازی اپنے پرائیویٹ اداروں اور پارٹی تک میں اعلیٰ عہدوں پر صرف اپنے دوست ہی رکھتا ہے۔ اسی طرح "خٰیبرPKاحتساب کمیشن" کے سربراہ کے لئے بھی عمران نیازی نے اپنے دیرینہ دوست ریٹائرڈ جنرل حامد خان کا انتخاب کیا۔ عمران نیازی کی بدقسمتی یہ ہوئی کہ عمران نیازی کا یہ دوست جنرل حامد خاں اسکے باقی دوستوں جیسا بےایمان نہ نکلا۔

جنرل حامد خان نے جب "احتساب کمیشن"کا انتظام سنبھالا تو وہ ششدر رہ گیا۔ اور اس کا پہلا شہرہ آفاق بیان آیا کہ خیبر پختونخوا میں تو کرپشن کی انتہا ہی نہیں ہے یہاں تو 100 روپے کے کام میں 60 روپے کمیشن لیا جا رہا ہے۔ اور بہت بڑے پیمانے پر ہرکوئی کرپشن کی گنگا میں نہا رہا ہے۔
جنرل حامد خان نے دن رات ایک کرکے تفتیش شروع کر دئیے اس کی تفتیش نے اسے ظاہر کر دیا کہ KPK میں وزیراعلیٰ اسکی کابینہ حتیٰ کہ صوبائی اسپیکر اور اعلیٰ بیورکریسی اس میں ملوث ہے۔ جنرل حامد خان نے تقریباً پرویزخٹک کی پوری کی پوری کابینہ اور بیوروکریسی جو اسدعمر اور جہانگیر کی نگرانی میں کرپشن کر رہی ہے کے خلاف ثبوت اکٹھے کر لئے جب ابھی ایک ہی مچھلی پر ہاتھ ڈالا تو جہانگیر ترین پرویزخٹک اور اس کی پوری کابینہ بمعہ ٹاپ بیوروکریسی کے عمران نیازی کے پاس بنی گالا آگئی۔ اور اسے کہا کہ تم نے یہ کیا مصیبت ہم پر نازل کی ہے۔ سب کی بپتا سن کر عمران نیازی نے جنرل حامدخان کو سمجھانے اور ہتھ ہولا رکھنے کا کہا مگر جنرل حامد نے جنٹلمین سوری کہہ کر جواب دے دیا اور اپنے فرض پر قائم رہنے کا فیصلہ سنا دیا جس کے بعد ان کے قانونی مشیروں نے مشورہ دیا کہ آئینی ترمیم کرکے جنرل حامد خان کے اختیار کم کئے جائیں۔ ان کے پاس آئنی ترمیم کے لئے مطلوبہ تعداد نہ تھی۔ جس کو پورا کرنے کے لئے شیرپاو گروپ سے رابطہ کیا گیا۔ مگر شیرپاو نے عمران خان کے سب سے بڑا چور کہنے کے الفاظ یاد کروائے۔ عمران خان نے اپنے کنٹینر پر کہے الفاظ کی معافی مانگ لی جسے شیرپاو نے تسلیم نہ کیا اور کہا کہ جرگہ بنا کر معافی مانگی جائے تاکہ سب کو پتہ چلا کہ نیازی نے معافی مانگی ہے۔ تھوک کر چاٹنے کے عادی عمران نیازی نے جرگے کے سامنے معافی مانگی تب جاکر یہ KPK اسمبلی میں ترمیم کرنے کے قابل ہوئے۔ اس ترمیم کے بعد ""خیبرPKاحتساب کمیشن"" غیرموثر ہو کر رہ گیا بلکہ کرپشن کو KPK میں قانونی شیلٹر میسر آگیا۔ 90 دن کے لئے KPK میں کرپشن چھپا لو۔ اس کے بعد سرعام پھرو کیونکہ 90 دن کے بعد اس کرپشن پر احتساب کمیشن کو کارروائی کرنے کا اختیار نہیں ہوگا۔ یاد رکھیں اگر نیازی کا یہی فارمولہ سارے ملک پر اپلائی کیاجائے تو پھر ملک میں کرپشن کا ایک بھی کیس نہ رہے۔

مزید نئی کرپشن پر کارروائی پر لگام ڈالنے کے لئے احتساب کمیشن کو پابند کردیا کہ وہ کسی بھی حکومتی عہدیدار یا بیوروکریسی کے افسر کے خلاف کارروائی کرنے سے پہلے وزیراعلیٰ KPK یا اسپیکر اسدقیصر سے اجازت لیں۔ یہ دیکھ کر جنرل حامد خان نے گورنر KPK کو اپنا استعفیٰ دے دیا اور ایک کاپی عمران نیازی کی سنڈ کردی۔ احتساب کمیشن پر تالے لگے ہیں اور یوں پھر سے دھڑلے کے ساتھ KPK میں کرپشن کا کاروبار بغیرخوف و خطر جاری ہے۔

میڈیا تو ان کے ساتھ ہے ہی لہزا جب کوئی ان کی کرپشن پر آواز اٹھائے تو اس پر الزام اور گالی گلوچ کا سلسلہ شروع کردیا جاتا ہے۔

No comments: