Wednesday, August 22, 2018

احتساب - ٹرک کی بتی

ہم پاکستانی وہ بےوقوف لوگ ہیں جنہیں ٹرک کی بتی بہت خوبصورت لگتی ہے۔ اپنے خلاف ہونے والی سازش کو نہ صرف سمجھتے نہیں ہیں بلکہ اس کے ساتھ ہمقدم کھڑے ہوتے ہیں۔ جب ہم اس سازش کے نتیجے میں اپنی نسلیں تباہ کر بیٹھتے ہیں، تب بھی اصل مجرم کو مسیحا ہی سمجھتے رہتے ہیں۔

ہمارے پرائمری تعلیم کے دور میں فیصلہ ہوا تھا کہ سرکاری سکولوں میں انگریزی کی تعلیم دینے کا آغاز چھٹی جماعت سے کیا جائے گا۔ اساتذہ چاہے کلاسیں لیں یا نہ لیں، ان کی تنخواہ کبھی نہیں رکے گی۔ تعلیمی اداروں میں سیاسی تنظیمیں بنادی گئیں۔ سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے اگر تعلیم میں کوئی رکاوٹ آتی ہو تو بغیر امتحان کے بھی بچوں کو پروموٹ کیا جاسکتا تھا۔ میں خود بھی اس وقت آٹھویں سے نویں جماعت میں پروموٹ ہوا تھا۔

اس دور کے سرکاری سکولوں کے پڑھے ہوئے بچے جو آج ادھیڑ عمری کے دور سے گزر ہیں، کیا وہ قابل اساتذہ میں شمار کیے جاسکتے ہیں؟ کیا ان کے پڑھائے ہوئے بچوں میں حب الوطنی کا کوئی جزبہ نظر آتا ہے؟ کیا ان اساتذہ کے پڑھائے ہوئے بچوں میں معاشرتی روایات کا فقدان نظر نہیں آتا؟ کیا اس دور کے طلبا آج لائق افسر بن سکے ہیں؟ کیا اس دور کے طلبا آج قابلیت کے اس میعار پہ نظر آتے ہیں کہ غیرملکی وفود کے ساتھ بحث و مباحثے میں حصہ لے سکیں؟

ایسی تمام ذمےداریاں وہی لوگ پوری کررہے ہیں جو اس زمانے میں مہنگے پرائویٹ سکولوں میں پڑھتے رہے یا پھر بیرون ملک تعلیم حاصل کرتے رہے۔ گویا اس زمانے میں ایسے اقدامات کردیے گئے تھے کہ افسر کا بچہ ہی افسر بنے، غریب کا بچہ نہ تو افسری کے قابل ہوپائے اور نہ ایسے خواب دیکھنے کی جرات کرے۔ اس دور کے طلبا جو آج مختلف درجات میں سرکاری ملازمتیں کررہے ہے، وہ سب سے زیادہ خوفزدہ اس پالیسی سے ہوتے ہیں کہ کہیں ترقی کے لئے امتحان کی شرط نہ رکھ دی جائے۔

اسی دور کے دیگر امور کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں نظر آتا ہے کہ "سرمایہ دار" کا لفظ ایک گالی کے طور پہ متعارف کرایا گیا۔ یہ لفظ آج تک قابل نفرت ہی چلا آرہا ہے۔ کیا ہم میں سے کسی نے یہ سوچنے کی ضرورت محسوس کی کہ سرمایہ دار اگر انڈسٹری نہیں لگائے گا تو ہمارے جو بچے میکینیکل، الیکٹریکل، الیکٹرانک، اور دیگر شعبوں میں انجینیرنگ کی ڈگریاں اور ڈپلومے حاصل کررہے ہیں، ان کے لئے ملازمتوں کے مواقع کہاں سے پیدا ہوں گے؟

جب پاکستان بنا تھا تو 22 سرمایہ دار خاندان تھے۔ سرمایہ دار کے لفظ کو گالی قرار دیتے ہوئے ہم نے ان 22 کے ساتھ جو سلوک کیا اس کے نتیجے میں سارے کے سارے اپنا سرمایہ سمیٹ کر ملک سے باہر نکل گئے۔ ہم آج بھی ان ہی لوگوں کو اپنا نجات دہندہ مانتے ہیں جنہوں نے سرمایہ دار کو ذلیل و خوار کیا لیکن ہمیں مسلسل ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے کہ ہم لٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے۔

کبھی ہم سرمایہ دار کی دولت کو نیشنلائزیشن کے ذریعے ضبط کرلیتے ہیں، کبھی مارشل لاء لگا کر اور کبھی احتساب کے رگڑے میں۔ ایسی صورت میں کسی کو پاگل کتے نے کاٹا ہے کہ وہ اپنی دولت پاکستان میں رکھے؟ کسی کو یاد ہے کہ نیشنلائزیشن کے نتیجے میں آپ کی کتنی انڈسٹری بنگلہ دیش منتقل ہوئی تھی؟ نتیجہ اپ کے سامنے ہے۔ بنگلہ دیش اور پاکستان کا بےروزگاری کے حوالے سے موازنہ کرلیں، تعلیم کے حوالے سے کرلیں، انڈسٹری کے حوالے سے کرلیں، زراعت کے حوالے سے کرلیں، آپ کو ہر جگہ اس حقیقت کے باوجود وہی بہتر نظر آئیں گے کہ وہاں سال میں دو بار سیلاب کی تباہ کاریاں بھی ہوتی ہیں۔

سیپیک CPEC کے ساتھ ملک میں بہت سے انڈسٹریل زون بنانے کا منصوبہ بننے کا اعلان ہوتے ہی پاکستان میں احتساب کا جو عمل شروع ہوا ہے اس نے پاکستان کی تباہی کے عمل میں آخری کیل ٹھوک دی ہے۔ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔ میرے اور اپ جیسے لوگوں کے انجینیر بچے کال سینٹرز میں پانچ سے دس ہزار کی نوکریاں کرتے پائے جائیں گے۔

ڈاکٹر سعید اختر کو ہم نے کیسے ذلیل و خوار کیا؟ کیا اس کے بعد کوئی قابل شخص ملک کی خدمت کے لئے پاکستان آنے کی جرات کرے گا؟

سیاحت کا شعبہ پہلے ہی دہشتگردی کے نتیجے میں تباہ ہوچکا ہے۔ ایسے حالات میں ایک غیر ملکی خاتون نے ہمارے یوم آزادی پہ ہمارے ساتھ اظہار یکجہتی کیا تو ہم نے اس پہ وہ گل افشانی کہ کہ اسے معافی مانگنا پڑی۔ کیا یہ سلوک پاکستان کی سیاحت کی انڈسٹری کے تابوت میں آخری کیل نہیں تھا؟

بہرحال ہم کیا اور ہماری اوقات کیا۔ ہم تو بس اب احتساب کا تماشہ دیکھتے دیکھتے آخری منزل کو سدھاریں گے۔ اپنے بچوں کے لئے ہم جیسا پاکستان چھوڑ کر جائیں گے اس کے نتیجے میں ان میں سے شاید ہی کوئی بچہ ہماری قبر پہ محبت کے ساتھ فاتحہ پڑھنے آئے گا۔ کیسے آئے؟ آخر ہم اسے دے کر ہی کیا جارہے ہیں؟

No comments: