Monday, May 13, 2019

تبدیلی

پاکستانی عوام کو تبدیلی کا جو جھانسا دیا گیا اس کی حقیقت کیا تھی؟ اس جھانسے پہ اعتبار کرنے والے لوگوں نے کبھی سوچنے کی زحمت گوارہ کی کہ آخر یہ تبدیلی ہوگی کیسی؟ 126 روپے لیٹر پیٹرول 65 روپے فی لیٹر خریدنے کے بعد بھی مزید کسی تبدیلی کی گنجائش باقی تھی؟ روزانہ سو روپے سے زائد رقم کرائے کی مد میں خرچ کرکے اپنے کام پہ جانے والے لوگ بیس روپے میں ایرکنڈیشنڈ میٹرو کا سفر کرنے کے باوجود تبدیلی کے خواہاں تھے! اٹھارہ گھنٹے لوڈشیڈنگ سہنے والے زیرو لوڈشیڈنگ پہ آنے کے باوجود مزید تبدیلی کی آس لگائے بیٹھے تھے۔ انہیں اس بات کی سمجھ کیوں نہیں آرہی تھی کہ ایک مقروض ملک میں اگر ایک حکمران نے اتنی سہولت دےدی ہے تو مزید سہولت بھی اسی کا ساتھ دینے سے حاصل ہوگی۔ آخر کیسی تبدیلی چاہتی تھی اس ملک کی عوام؟ ہر شخص کو نقد پیسہ دے دیا جائے؟ کیا ایسا ممکن ہے؟ جن کے خیال میں غربت کے خاتمے کا یہ حل قابل عمل تھا، ان کی خدمت میں ایک چھوٹی سی کہانی پیش ہے۔ آئیے پڑھتے ہیں۔
۔۔ْ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرض کریں کہ آپ صبح اٹھے اور گاڑی خراب تھی، اب آپ نے ٹیکسی والے کو ڈھونڈنا شروع کیا تو کوئی ٹیکسی والا نہیں مل رہا تھا، ایک ٹیکسی نظر آئی، اسے رکنے کا اشارہ کیا تو ٹیکسی ڈرائیور مسکراتا ہوا گزر گیا۔ ایک اور ٹیکسی رُکی لیکن ڈرائیور نے بتایا کہ کل اسے اتنا مال مل گیا ہے کہ اسے ٹیکسی چلانے کی ضرورت نہیں۔ اب ویگن سٹاپ کی طرف بڑھے تو ویگنیں ندارد۔ مجبوراً واپس آئے اور گاڑی کو مکینک کے پاس لے جانے کا ارادہ کیا۔ مکینکس کی دکانیں بند تھیں، اردگرد پوچھنے پر پتہ چلا کہ مکینکس کے پاس اتنی دولت آگئی ہے کہ انھوں نے کام چھوڑ دیا ہے۔ ایک دوست کو فون کیا اور اس کے ساتھ دفتر پہنچا، چوکیدار باہر ہی کھڑا تھا، بتانے لگا کہ مجھے اب نوکری کی ضرورت نہیں، اتنا پیسہ مل گیا ہے کہ گھر بیٹھے گزارا ہوسکتا ہے۔ دفتر کے اندر بھی یہی منظر تھا اور تمام ملازمین یہی بتانے آئے تھے۔ گھر سے بیگم کا فون آیا کہ سبزی والا نہیں آیا اور دودھ والا بھی غائب ہے۔ حیرانی تو بہت ہوئی لیکن ایک دوست کے فون نے مسئلہ حل کردیا کہ حکومت نے تمام شہریوں کویکساں دولت سے نواز دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ہفتے میں ہی ملک کا نظام درہم برہم ہوگیا، کوئی کسی کا کام کرنے پر راضی نہیں، چاہے جتنی مرضی رقم دے دو۔ دفاتر بند، سکول بند، ورکشاپس بند، بازار بند۔ ہر بندے کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ وہ باقی زندگی بغیر کام کیے گزار سکتا ہے۔ لیکن ایک ہفتے میں ہی معلوم ہوگیا کہ یہ تو زیادہ بے سکونی کی زندگی ہے۔ ایک بندہ اپنے سارے کام کیسے خود کرسکتا ہے۔ پہلے وہ ایک کام کیا کرتا تھا اب وہی بیک وقت کئی لوگوں کے کام کررہا ہے اگرچہ جیبیں اور اکاؤنٹ بھی بھرے ہوئے ہیں۔
۔۔ْ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی قارئین!ایک فرضی کہانی ہے لیکن اگر حقیقت میں ایسا ہو جائے تو کیا حال ہو؟ ہم میں سے اکثر کے ذہن میں آتا ہے کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ سب کے پاس دولت ہوتی، آسائشیں ہوتیں اور مزے سے زندگی گزارتے۔

حکومت کبھی بھی عوام کو نقد رقم دے کر ان کی مدد نہیں کیا کرتی۔ نقد رقم کو بھیک اور خیرات کہ کر اسے ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے کیونکہ اس سے نظام تباہ ہوجاتا ہے۔ حکومت مختلف اداروں اور شعبوں کو سبسڈی دے کر عوام کے لئے قیمتیں اور کرائے کم رکھتی یے۔ حکومت کا کام ہے عوام کے لئے روزگار کے ذرائع پیدا کرنا تاکہ لوگ تجارت، دوکانداری، کاروبار ملازمت یا مزدوری کرکے اپنی اپنی زہنی سطح اور استطاعت کے مطابق آمدنی کمائیں اور اپنا گھر چلائیں۔

اقتصادی راہداری ایک ایسا ہی منصوبہ تھا جس پہ بنائے جانے والے صنعتی مراکز میں ہزاروں قسم کے کاروبار قائم کئے جانے تھے اور پھر شائد ہی پاکستان میں کوئی شخص بےروزگار رہ جاتا۔ لیکن تبدیلی کے جھوٹے جھانسے نے عوام کے ساتھ اتنی بڑی دشمنی کی ہے جس کی مثال دنیا میں شاید ہی مل سکے۔

یہ کائنات بنانے والے کی حکمت ہے کہ اس نے رزق کی مقدار انسانوں کے لیے مختلف رکھی تاکہ اس دنیا کا نظام چلتا رہے۔ تو قارئین کیا آپ اس تبدیلی کی تہ تک پہنچے جس کا جھانسا کنٹینر پہ کھڑے ہو کر دیا گیا تھا؟ ایک اچھے خاصے چلتے ہوئے ملک اور ابھرتی ہوئی معیشت پہ اپوزیشن میں رہ کر اعتراض کرنا بہت آسان ہے لیکن خود حکومت میں بیٹھ اپنی زبان سے کہے گئے الفاظ پورے کرنا بہت مشکل کام ہے۔

جن لوگوں سے ایک چلتا ہوا ملک نہ سمبھالا جاسکا وہ اسے مزید ترقی کیسے دے پائیں گے۔ موجودہ حکومت سے ایسی توقع رکھنا بےپناہ بےوقوفی اور جہالت کے سوا اور کچھ نہ ہوگا۔

Sunday, March 17, 2019

ملک کی ناکامی کی وجوھات

جنرل محمد ضیاالحق اپنے دور صدارت میں سنگاپور کے دورے پر گئے‘ بطور صدر ضیاالحق نے سرکاری مصروفیات کے بعد لی کو آن یو سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی‘ وہ لی کو آن یو سے لیڈر شپ اور ترقی کی ”ٹپس“ لیناچاہتے تھے. سنگاپور کے وزیراعظم نے لی کو آن یو کے ساتھ ان کی ملاقات طے کردی‘ ضیاالحق نے چند لوگوں کا انتخاب کیا اور اس شام لی کو آن یو کے پاس حاضر ہوگئے‘ یہ ملاقات سنگاپور کے وزیراعظم ہاﺅس میں ہوئی‘ گفتگو کے آغاز میں لی کو آن یو نے انکشاف کیا وہ مختلف حیثیتوں سے 8 مرتبہ پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں لہٰذا وہ پاکستان کے جغرافیے، رسم و رواج اور لوگوں سے پوری طرح واقف ہیں.

ضیاالحق نے بڑے ادب سے ان سے پوچھا ”کیا آپ اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ سمجھتے ہیں پاکستان کبھی سنگا پور بن جائے گا“ لی کو آن نے ذرا دیر سوچا اور انکار میں سر ہلادیا‘ ان کا رد عمل‘ سفاک، کھرا اور غیر سفارتی تھا‘ حاضرین پریشان ہوگئے ‘ لی کو آن یو ذرا دیرخاموش رہے اور پھر بولے”اس کی تین وجوہات ہیں“ وہ رکے اور پھر بولے۔

پہلی وجہ آئیڈیالوجی ہے، آپ لوگوں اور ہم میں ایک بنیادی فرق ہے‘ آپ اس دنیا کو عارضی سمجھتے ہیں، آپ کا خیال ہے آپ کی اصل زندگی مرنے کے بعد شروع ہوگی چنانچہ آپ لوگ اس عارضی دنیا پر توجہ نہیں دیتے، آپ سڑک، عمارت، سیوریج سسٹم ، ٹریفک اور قانون کو سنجیدگی سے نہیں لیتے جبکہ ہم لوگ اس دنیا کو سب کچھ سمجھتے ہیں لہٰذا ہم اس دنیا کو خوبصورت سے خوبصورت تر بنا رہے ہیں“ وہ رکے اور ذرا دیر بعد بولے ”آپ خود خودفیصلہ کیجئے جو لوگ اس دنیا پر یقین نہ رکھتے ہوں ‘وہ اسے خوبصورت کیوں بنائیں گے؟

دوسری وجہ‘ آپ لوگوں کی زندگی کے بارے میں اپروچ درست نہیں، میں پیشے کے لحاظ سے وکیل ہوں، ہندوستان کی تقسیم سے پہلے میں اس علاقے میں پریکٹس کرتا تھا‘ میرے موکل کلکتہ سے کراچی تک ہوتے تھے‘ میں نے ان دنوں ہندو اور مسلمان کی نفسیات کو بڑے قریب سے دیکھا‘ میرے پاس جب کوئی ہندو کلائنٹ آتا تھا اور میں کیس کے جائزے کے بعد اسے بتاتا تھا تمہارے کیس میں جان نہیں ‘ تم اگر عدالت میں گئے تو کیس ہار جاﺅ گے تو وہ میرا شکریہ ادا کرتا تھا اور مجھ سے کہتا تھا‘ آپ مہربانی فرما کر میری دوسری پارٹی سے صلح کرادیں‘ میں اس کی صلح کرا دیتاتھا اور یوں مسئلہ ختم ہو جاتا تھا جبکہ اس کے مقابلے میں جب کوئی مسلمان کلائنٹ میرے پاس آتا تھا اور میں اسے صلح کا مشورہ دیتا تھا تو اس کا جواب بڑا دلچسپ ہوتا تھا‘ وہ کہتا تھا وکیل صاحب آپ کیس دائر کریں میں پوری زندگی مقدمہ لڑوں گا‘ میرے بعد میرے بچے لڑیں گے اور اس کے بعد ان کے بچے لڑیں گے“ لی کو آن یو رکے اور مسکرا کر بولے ”میرا تجربہ ہے جوقومیں اپنی نسلوں کو ورثے میں مقدمے اور مسئلے دیتی ہوں وہ قومیں ترقی نہیں کیا کرتیں۔

اور تیسری اور آخری وجہ فوج ہے‘ آپ کے ملک میں فوج مضبوط اور سیاست دان کمزور ہیں اور مجھے پوری دنیا میں آج تک کوئی ایسا ملک نہیں ملا جس نے فوجی اثر میں رہ کر ترقی کی ہو“ وہ رکے اور دوبارہ بولے ”فوجی اور سیاستدان کی سوچ میں بڑا فرق ہوتا ہے‘ فوجی مسئلہ پیدا کرتا ہے جبکہ سیاستدان مسئلے حل کرتے ہےں، فوجی کی زندگی کا صرف ایک اصول ہوتا ہے‘ زندگی یا موت جبکہ سیاستدان جیو اور جینے دو کے فلسفے پر کاربند ہوتے ہیں، فوجی کو زندگی میں مر جاﺅ یا مار دو کی ٹریننگ دی جاتی ہے جبکہ سیاستدان کو صلح، مذاکرات اور نرمی کی تربیت ملتی ہے چنانچہ میرا تجربہ ہے جس ملک میں حکومت اور سیاست فوج کے پاس ہو وہ ملک کبھی ترقی نہیں کرتا۔

Monday, January 14, 2019

قرض اتارو ملک سنوارو

قرض اتارو ملک سنوارو سکیم ۔
(ڈاکٹر ہُما سیف)

قرض اتارو ملک سنوارو سکیم پر پچھلے چند سالوں میں مسلم لیگ نون کے مخالفین بالخصوص تحریک انصاف کے سپورٹرز نے کافی جھوٹا پروپیگنڈا کیا ہے اور غلط معلومات کو پھیلایا ہے، اس کو رد (counter) کرنے کیلیے سٹیٹ بینک کی 2001 کی سالانہ ریپورٹ سے چند حقائق پیش خدمت ہیں۔ ریپورٹ کے مطابق حکومت پاکستان نے 1997 میں قرض اتارو ملک سنوارو سکیم شروع کی جس کی تین کیٹیگریاں (categories) تھیں: ڈونیشنز (donations) یا چندہ , قرض حسنہ اور منافع پر قرض۔
قرض حسنہ اور منافع پر قرضہ بھی کم از کم دو سال کے لئے تھا۔ یہ سب پیسہ حکومت کے سٹیٹ بینک میں سنٹرل اکاؤنٹ میں جمع کیا گیا اور donations کی مد میں جمع ہوئی رقم سے 1.7 ارب کا اندرونی قرضہ اتارا گیا جس پر حکومت 17.2 فیصد مارک اپ دے رہی تھی جبکہ باقی 1.105 ارب فیڈرل کنسولیڈیشن فنڈ میں جمع کرا دیا گیا تھا۔ مارچ 1999 کو جو سٹیٹ بینک اور کمرشل بینکس کو قرض حسنہ اور منافع پر قرض جن کی دو سال کی maturity تھی، کی ادائیگیوں میں ٓآسانی (facilitate ک) پیدا کرنے کے لئے کیا گیا . اس چارٹ میں آپ دیکھ سکتے ہیں NDRP, قرض اتارو ملک سنوارو سے کریڈٹرز کا قرضہ اتارا۔
جنرل مشرف صاحب نے اپنے دور میں اس کا آڈٹ کروایا اور اگر کوئی گھپلا ہوتا تو مشرف صاحب کو ایک بوگس یا جھوٹے مقدمے میں نواز شرئف کو اندر نہ کرنا پڑتا۔
اپریل 2017 میں سٹیٹ بنک نے کمرشل بینکوں کو یہ سرکلر جاری کیا کہ کہ قرض حسنہ دینے والوں کے جو بقایاجات تھے انکو اب قرض واپس کر دیا جائے۔
https://fp.brecorder.com/2017/04/20170415168645/
اس پوسٹ میں چسپاں کیے گئے چارٹس میں مندرجہ بالا حقائق کے ثبوت کے طور پر اس پوسٹ میں سٹیٹ بینک کی 2001 کی ریپورٹ کے چارٹ چسپاں کیے گئے ہیں۔۔۔۔ علاوہ ازیں انگریزی میں لکھا ہوا ایک تحقیقی آرٹیکل بھی ان حقائق کو سپورٹ کرتا ہے۔ آرٹیکل کا لنک یہ ہے:
https://2paisa.wordpress.com/2013/06/12/qarz-utaro-mulk-sanwaro-a-scam/
سیاسی مخالفین کے الزامات کے بعد سینیٹر پرویز رشید نے 2010 میں ایم کیوایم کے سربراہ الطاف حسین اور پیپلزپارٹی کے اس وقت کے وزیرقانون بابر اعوان کو سٹیٹ بینک کی ریپورٹ بھیجی تھی، جسکے صفحات 127 اور 128 پر واضح طور پر لکھا گیا تھا کہ اس سکیم کے تحت تمام وصول شدہ رقم کسی کے ذات اکاؤنٹ میں نہیں بلکہ قومی خزانے میں جمع کروا دی گئی تھی اور تمام رقم اسی مقصد کیلیے استعمال ہوئی تھی جس کیلیے وہ جمع کی گئی تھی۔ مندرجہ ذیل دو اخباری لنک دیکھیے۔
https://www.thenews.com.pk/archive/print/256918-qarz-utaro-report-sent-to-altaf-babar
https://www.dawn.com/news/558344