Sunday, March 17, 2019

ملک کی ناکامی کی وجوھات

جنرل محمد ضیاالحق اپنے دور صدارت میں سنگاپور کے دورے پر گئے‘ بطور صدر ضیاالحق نے سرکاری مصروفیات کے بعد لی کو آن یو سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی‘ وہ لی کو آن یو سے لیڈر شپ اور ترقی کی ”ٹپس“ لیناچاہتے تھے. سنگاپور کے وزیراعظم نے لی کو آن یو کے ساتھ ان کی ملاقات طے کردی‘ ضیاالحق نے چند لوگوں کا انتخاب کیا اور اس شام لی کو آن یو کے پاس حاضر ہوگئے‘ یہ ملاقات سنگاپور کے وزیراعظم ہاﺅس میں ہوئی‘ گفتگو کے آغاز میں لی کو آن یو نے انکشاف کیا وہ مختلف حیثیتوں سے 8 مرتبہ پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں لہٰذا وہ پاکستان کے جغرافیے، رسم و رواج اور لوگوں سے پوری طرح واقف ہیں.

ضیاالحق نے بڑے ادب سے ان سے پوچھا ”کیا آپ اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ سمجھتے ہیں پاکستان کبھی سنگا پور بن جائے گا“ لی کو آن نے ذرا دیر سوچا اور انکار میں سر ہلادیا‘ ان کا رد عمل‘ سفاک، کھرا اور غیر سفارتی تھا‘ حاضرین پریشان ہوگئے ‘ لی کو آن یو ذرا دیرخاموش رہے اور پھر بولے”اس کی تین وجوہات ہیں“ وہ رکے اور پھر بولے۔

پہلی وجہ آئیڈیالوجی ہے، آپ لوگوں اور ہم میں ایک بنیادی فرق ہے‘ آپ اس دنیا کو عارضی سمجھتے ہیں، آپ کا خیال ہے آپ کی اصل زندگی مرنے کے بعد شروع ہوگی چنانچہ آپ لوگ اس عارضی دنیا پر توجہ نہیں دیتے، آپ سڑک، عمارت، سیوریج سسٹم ، ٹریفک اور قانون کو سنجیدگی سے نہیں لیتے جبکہ ہم لوگ اس دنیا کو سب کچھ سمجھتے ہیں لہٰذا ہم اس دنیا کو خوبصورت سے خوبصورت تر بنا رہے ہیں“ وہ رکے اور ذرا دیر بعد بولے ”آپ خود خودفیصلہ کیجئے جو لوگ اس دنیا پر یقین نہ رکھتے ہوں ‘وہ اسے خوبصورت کیوں بنائیں گے؟

دوسری وجہ‘ آپ لوگوں کی زندگی کے بارے میں اپروچ درست نہیں، میں پیشے کے لحاظ سے وکیل ہوں، ہندوستان کی تقسیم سے پہلے میں اس علاقے میں پریکٹس کرتا تھا‘ میرے موکل کلکتہ سے کراچی تک ہوتے تھے‘ میں نے ان دنوں ہندو اور مسلمان کی نفسیات کو بڑے قریب سے دیکھا‘ میرے پاس جب کوئی ہندو کلائنٹ آتا تھا اور میں کیس کے جائزے کے بعد اسے بتاتا تھا تمہارے کیس میں جان نہیں ‘ تم اگر عدالت میں گئے تو کیس ہار جاﺅ گے تو وہ میرا شکریہ ادا کرتا تھا اور مجھ سے کہتا تھا‘ آپ مہربانی فرما کر میری دوسری پارٹی سے صلح کرادیں‘ میں اس کی صلح کرا دیتاتھا اور یوں مسئلہ ختم ہو جاتا تھا جبکہ اس کے مقابلے میں جب کوئی مسلمان کلائنٹ میرے پاس آتا تھا اور میں اسے صلح کا مشورہ دیتا تھا تو اس کا جواب بڑا دلچسپ ہوتا تھا‘ وہ کہتا تھا وکیل صاحب آپ کیس دائر کریں میں پوری زندگی مقدمہ لڑوں گا‘ میرے بعد میرے بچے لڑیں گے اور اس کے بعد ان کے بچے لڑیں گے“ لی کو آن یو رکے اور مسکرا کر بولے ”میرا تجربہ ہے جوقومیں اپنی نسلوں کو ورثے میں مقدمے اور مسئلے دیتی ہوں وہ قومیں ترقی نہیں کیا کرتیں۔

اور تیسری اور آخری وجہ فوج ہے‘ آپ کے ملک میں فوج مضبوط اور سیاست دان کمزور ہیں اور مجھے پوری دنیا میں آج تک کوئی ایسا ملک نہیں ملا جس نے فوجی اثر میں رہ کر ترقی کی ہو“ وہ رکے اور دوبارہ بولے ”فوجی اور سیاستدان کی سوچ میں بڑا فرق ہوتا ہے‘ فوجی مسئلہ پیدا کرتا ہے جبکہ سیاستدان مسئلے حل کرتے ہےں، فوجی کی زندگی کا صرف ایک اصول ہوتا ہے‘ زندگی یا موت جبکہ سیاستدان جیو اور جینے دو کے فلسفے پر کاربند ہوتے ہیں، فوجی کو زندگی میں مر جاﺅ یا مار دو کی ٹریننگ دی جاتی ہے جبکہ سیاستدان کو صلح، مذاکرات اور نرمی کی تربیت ملتی ہے چنانچہ میرا تجربہ ہے جس ملک میں حکومت اور سیاست فوج کے پاس ہو وہ ملک کبھی ترقی نہیں کرتا۔

No comments: