Monday, May 31, 2021

جوائنٹ ‏فیملی ‏سسٹم

پاکستان میں دو قسم کا جوائنٹ فیملی سسٹم رائج ہے. ایک پنجاب والا جو ہم نے ہندو سے وراثت میں لیا ہے. اس نظام کے تحت بیاہ کر آنے والی ایک عورت سارے خاندان کی ملازم، غلام یا خدمتگار ہوتی ہے. اگر اسی سسٹم کی تعریف مرد کے حوالے سے کی جائے تو تعریف مزید مختصر اور جامع ہوجاتی ہے یعنی، ایک کارآمد شخص کے وسائل پہ بہت سے ناکارہ افراد کو پالنے کا نام جوائنٹ فیملی سسٹم ہے۔

جوائنٹ فیملی سسٹم کی دوسری قسم وہ ہے جو ہمارے صوبے خیبر پختونخواہ میں رائج ہے اور میری نظر میں عین اسلام کے مطابق ہے. وہاں جس لڑکے کی شادی کی جاتی ہے، اسے ایک کمرہ، حجرہ یا پورشن، جو بھی دستیاب وسائل ہوں، بنا کر پہلے ہی دن سے علیحدہ کردیا جاتا ہے. یہ وہ صورتحال ہے کہ آنے والی عورت کے لئے دیور، جیٹھ، سسر وغیرہ سے پردہ کرنے میں ہرگز کوئی مشکل پیش نہیں آتی. دیور جیٹھ حضرات چاہے کاغز چن کر گزارہ کریں، وہ بھائی کی آمدنی کے حقدار نہیں ہوتے. جہاں تک ساس سسر کا کھانا پکانا، کپڑے دھونا اور دیگر امور ہوتے ہیں، وہ اسی عورت کے ہاتھوں انجام پاتے ہیں مگر تیار شدہ کھانا کپڑے وغیرہ شوہر یا بچوں کے ہاتھوں پہنچائے جاتے ہیں، اسے کسی مرد کا سامنا نہیں کرنا ہوتا۔

دراصل ہم اپنی غربت کی وجہ سے جوائنٹ فیملی سسٹم کا سہارا لینے پہ مجبور ہوتے ہیں لیکن اسے لبادہ اسلام کا اوڑھاتے ہیں. میرے خیال میں جہاں مجبوری ہو، اسے تسلیم کرنا چاہیے لیکن اسے کیموفلاج ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔

Wednesday, May 26, 2021

برطانیہ ‏کے ‏غریب ‏ترین پیر ‏

برطانیہ کے غریب ترین پیر
==========================

انگلینڈ میں مقیم چند پاکستانی پیر صاحبان کی معلوم دولت کا تخمینہ ( آف شور دولت اور ٹرسٹ اس میں شامل نہیں ) 

نمبر 1۔ صوفی جنید نقشبندی Grandson صوفی عبداللہ نقشبندی ، سجادہ نشین آستانۂ عالیہ گھمکول شریف ، برمنگھم 132 ملین پاؤنڈ۔ پاکستانی 290 ارب تقریباً

نمبر 2۔ پیر سلطان نیاز الحسن باہو ، سجادہ نشین آستانۂ عالیہ سلطان باہو ، برمنگھم۔ 80 ملین پاؤنڈ ، 176 ارب روپے تقریباً 

نمبر 3۔ پیر سلطان فیاض الحسن باہو ، اسسٹنٹ سجادہ نشین آستانۂ عالیہ سلطان باہو ، برمنگھم 83 ملین پاؤنڈ ، 183 ارب روپے تقریباً 

نمبر 4۔ پیر نورالعارفین صدیقی ، سجادہ نشین آستانۂ عالیہ نیریاں شریف ، برمنگھم ، 77 ملین پاؤنڈ ، 170 ارب روپے تقریباً 

نمبر 5۔ پیرزادہ امداد حسین ، مہتمم جامعہ الکرم نوٹنگھم ، 76 ملین پاؤنڈ ، 168 ارب روپے تقریباً 

نمبر 6۔ پیر معروف حسین شاہ نوشاہی ، آستانۂ عالیہ نوشاہیہ بریڈفورڈ ، 68 ملین پاؤنڈ ، 150 ارب روپے تقریباً ( پیر معروف حسین صاحب برطانیہ میں وارد ہونے والے سب سے پہلے پیر ہیں ، موصوف اپریل 1961 میں برطانیہ تشریف لائے ، اور اون کی مل میں مزدوری شروع کی ، چند ماہ بعد بریڈ فورڈ میں تبلیغ الاسلام کے نام سے ایک مکان میں مسجد بنائی ، لیکن مریدین کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے اگلے 18 سال ملوں میں مزدوری ہی کرتے رہے ، اس وقت بریڈفورڈ و گرد و نواح میں تیس سے زائد مکانات میں تبلیغ الاسلام کے نام سے مساجد بنا چکے ہیں ، اور ان تمام پراپرٹیز کے بلاشرکتِ غیرے مالک بھی ہیں ، لیکن ان مکانات کی مالیت 68 ملین پاؤنڈ میں شامل نہیں ، پیر صاحب اس لحاظ سے بھی بدقسمت ہیں کہ پاکستان میں کسی بڑی گدی کے سجادہ نشین نہ ہونے کی وجہ سے برطانیہ میں ان کے مریدین کی تعداد ابھی تک بیس ہزار سے کم ہے ) 

نمبر 7۔ پیر سید عبدالقادر جیلانی سابق خطیب ٹنچ بھاٹہ راولپنڈی ، مہتمم دارالعلوم قادریہ جیلانیہ لندن ، 62 ملین پاؤنڈ ، پاکستانی 139 ارب روپے تقریباً 

نمبر 8۔ پیر منور حسین جماعتی سجادہ نشین آستانۂ علیہ امیرِ ملت پیر جماعت علی شاہ برمنگھم ، 60 ملین پاؤنڈ ، پاکستانی 134 ارب روپے تقریباً 

نمبر 9۔ پیر حبیب الرحمن محبوب ، سجادہ نشین آستانۂ عالیہ ڈھانگری شریف ، بریڈفورڈ ، 32 ملین پاؤنڈ ، پاکستانی 71 ارب روپے تقریباً 

نمبر 10۔ پیرعرفان مشہدی ، سجادہ نشین آستانۂ عالیہ بکھی شریف بریڈفورڈ ، پیر عرفان شاہ صاحب ان پیروں میں سب سے غریب ترین پیر ہیں کیونکہ ان کی دولت 2 ملین پاؤنڈ یعنی پاکستانی صرف 44 کروڑ روپے ہے۔
تلک عشرة کاملة

مندرجہ بالا تمام دس پیر صاحبان کا تعلق پاکستان و آزاد کشمیر سے ہے۔ جو برٹش نیشنیلٹی ہولڈر اور برطانیہ میں مقیم ہیں۔

طاہر القادری سمیت وہ تمام پیر صاحبان جنہوں نے اپنی دولت ٹرسٹ ( این جی اوز ) کے پردے میں چھپائی ہوئی ہے۔ وہ اس لسٹ میں شامل نہیں۔

نیز پاکستان میں مقیم جو پیر صاحبان سالانہ یہاں سے اربوں روپے کے نذرانے بٹورنے کے لیے تشریف لاتے ہیں وہ بھی اس لسٹ میں شامل نہیں۔

مندرجہ بالا دس پیر صاحبان کی اجتماعی دولت سے کئی گنا زیادہ دولت کے مالک “ پیر ہاشم الگیلانی البغدادی “ ہیں ، جو آستانۂ عالیہ شیخ عبدالقادر جیلانی رح بغداد کے گدی نشین ہیں ، یہ پیر صاحب بھی برٹش نیشنلیٹی ہولڈر اور مقیمِ برطانیہ ہیں۔ جیسے پاکستانی نژاد برطانوی پیر کبھی کبھی پاکستان دورہ پہ تشریف لے جاتے ہیں ، اسی طرح یہ بھی کبھی کبھی بغداد کے دورہ پہ تشریف لے جاتے ہیں۔

پسِ نوشت!!
آج ایک بڑے پیر صاحب کی لیٹسٹ ترین کار جس کی پاکستان میں مالیت دس کروڑ کے قریب ہے ، بمپر پہ معمولی سکریچز ختم کروانے میرے پاس تشریف لائی ( پیروں کی گاڑیاں بھی تو مقدس ہوتی ہیں نا 😜 ) تو سوچا ، ذرا غریب ترین پیر صاحبان کی دولت کا امیر مریدین کے سامنے پول کھولا جائے🤐🤐

تحریر و تحقیق ؛ صاحبزادہ ضیاءالرحمٰن ناصر 
سجادہ نشین آستانۂ عالیہ “ کار باڈی ریپئر “ مانچسٹرشریف

Tuesday, May 25, 2021

لیاقت ‏علی ‏خان ‏

👈 مئی 2021 کے اوائل میں ایبٹ آباد میں ایک تاریخی شخصیت 106 سال کی عمر میں وفات پا گئیں ۔ آپ کو جان کر حیرت ہو گی کہ وہ کون سی شخصیت تھی جو گمنام رہی ۔تو وہ اس سید اکبر کی بیوی تھی جس نے 1951 میں ہمارے پہلے پی ایم لیاقت علی خان کا لیاقت باغ میں قتل کیا تھا ۔

اس سید اکبر کو تو موقع پر ہی پکڑنے کی بجائے قتل کیا گیا تھا۔مگر اس کے چار بیٹوں اور بیوہ کو ایبٹ آباد کنج قدیم میں ایک گھر آلاٹ کیا گیا اور سخت پہرے میں اس وقت کی جدید ترین سہولیات  بھی مہیا  کی گئی تھیں۔ اس کا بڑا بیٹا دلاور خان جو اس وقت 8 سال کا تھا آج بھی 85 سال کی عمر میں زندہ سلامت اپنے ذاتی بہت بڑے گھر میں شملہ ہل بانڈہ املوک میں رہائش پزیر ہے ۔کیونکہ جو گھر ان کو اور اس کی ماں کو آلاٹ کیا گیا تھا وہ بیوہ کے نام پہ تھا اور ان کا بچپن وہاں گزرا. 

اسی دوران پہرہ دینے والے سپاہی سے ان کی ماں نے شادی کر لی اور اس کے  ہاں 5 بچے یعنی چار بیٹے اور ایک بیٹی  کی مزید پیدائش ہوئی، 8 بھائی اور ایک بہن والا کنبہ نہایت خوشحال زندگی گزارتا رہا۔ 

بالآخر دلاور خان کی شادی بھی اس کے دوسرے پاکستانی والد بدل زمان خان نے اپنی رشتہ دار سے کروائی جو  سات بچوں یعنی چار بیٹوں اور تین بیٹیوں کی ماں ہے ،سید اکبر کے باقی تین بیٹے یکے بعد دیگرے امریکہ میں سیٹل کر دیئے گئے۔

دلاور خان شادی کے کچھ عرصہ بعد کابل گیا، بقول اس کےاپنی آبائی زمینیں دیکھنے ۔اور اپنی بیوی اور ایک ہی بیٹا جو اس وقت تھا اس کو ماں کے پاس چھوڑ رکھا تھا۔ 8 سال بعد واپس آیا اور بیوی بچے کو بھی لے گیا۔ مگر کچھ عرصہ آنا جانا کرتا رہا اور بالآخر  پچھلے 50 سال سے مستقل اپنے ذاتی گھر میں مقیم ہے۔ الاٹ ہوا گھر ماں نے فروخت کر دیا ۔اور دوسرے خاوند کے بچوں کے ساتھ نئے بنگلوں میں رہائش پزیر تھی اور بالآخر دنیا سے رخصت ہوگئی۔

امید ہے آپ لوگوں کو اس پی ایم کے قتل کے بارے کچھ تو سمجھ آئی ہو گی۔

(قمر اللہ چودھری)


👈 برٹش انڈین آرمی کے میجر جنرل ہیکٹر پینٹ کی بیٹی شیلا آئرن پینٹ ، ایک برطانوی خاتون جنہوں نے  لکھنو یونیورسٹی سے گریجویٹ کیا۔ ان کی والدہ برہمن فیملی سے تھیں جنہوں نے کرسچن مذہب اختیار کیا تھا۔ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز بطور ٹیچر گوکھلے میموریل اسکول کلکتہ سے کیا۔ 1931 میں ماسٹرز کرنے کے بعد وہ اندر پرستھا کالج دہلی میں بطور اکنامک پروفیسر تعینات ھوئیں. کیا آپ جانتے ہیں یہ پاکستانی تاریخ کی کون سی مشہور ترین شخصیت تھیں ؟

شیلہ آئرن پینٹ نے 1932 میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم محترم لیاقت علی خان کے ساتھ شادی کی. مسلمان ہونے کے بعد انہوں نے اپنا نام بیگم رعنا لیاقت علی رکھ لیا.

یوں تو وہ بہت ہی عمدہ اخلاق اور اعلیٰ کردار کی کی مالک تھیں لیکن ایک ایسا سچ جو بہت کم لوگوں کو شاید معلوم ہو وہ یہ کہ جب وہ پاکستان کی سفیر بن کر ہالینڈ گئیں تو ہالینڈ کی ملکہ ان کی بہت گہری دوست بن گئیں. ان دونوں کی شامیں اکثر شطرنج کھیلتے ہوئے گزرتیں. ایک دن ہالینڈ کی ملکہ نے ان سے کہا کہ اگر آج کی بازی تم جیت گئی تو میں اپنا ذاتی شاہی قلعہ تمہارے نام کر دوں گی. بیگم صاحبہ نے اس کی اس بات کو منظور کرلیا اور کچھ دیر بعد بیگم رعنا لیاقت علی شطرنج کی بازی جیت گئیں. ملکہ نے وعدے کے مطابق شاہی قلعہ ان کے نام کر دیا۔

ماضی کے اس سچے واقعے کا ایک حیرت انگیز اور خوشگوار پہلو یہ ہے کہ بطور سفیر ان کی وہاں ملازمت ختم ہوئی تو اپنے اس ذاتی قلعے کو انہوں نے پاکستانی سفارت خانے کو ہدیہ کر دیا. آج بھی پاکستانی سفارتخانہ اسی شاہی قلعے میں واقع ہے۔

الله تعالٰی نے ماضی میں اس ملک کو ایسے زرخیز لوگ دیئے تھے لیکن افسوس کہ آج پاکستانیوں نے ان کی قدر نہیں کی.
اللہ انکے درجات بلند فرمائے آمین


👈 ‏تلخ حقیقت
لیاقت علی خان کو جس نے شہید کیا اس قاتل کی بیوہ کو پاکستان آرمی کی طرف سے وظیفہ دیا جاتا رہا اور وزیر اعظم لیاقت علی خان کی بیوہ رعنا لیاقت علی خان کی پینشن حکومت پاکستان کی جانب سے روک دی گئی تھی 

ہے نہ مزہ کی بات

Saturday, May 8, 2021

پاکستان کے وڈیروں اور جاگیردار خاندانوں کی اصل تاریخ

 

پاکستان کے وڈیروں اور جاگیردار خاندانوں کی اصل تاریخ

 

غلام مرتضیٰ بھٹو۔ شاہ نواز بھٹو (1888 – 1957)۔ ذوالفقار علی بھٹو (1928 – 1979)۔ نصرت اصفہانی بھٹو، شیعہ ایرانی لڑکی جس سے بھٹو نے شادی کی (1929 – 2011)۔ نصرت بھٹو کی شہرت ذولفقار علی بھٹو کی دوسری بیوی کے بطور ہے۔ اس کی اولاد بینظیر بھٹو، مرتضی بھٹو، شاہنواز بھٹو، اور صنم بھٹو ہیں۔ نصرت بھٹو نسلاً ایرانی صوبہ کردستان سے تعلق رکھتی تھی اور 2010ء میں فوت ہوئی۔ 

 میں چارلس نیپیئر کی قیادت میں انگریزوں نے سندھ پہ قبضہ کر لیا اور یہاں سے 1843ء دولت کی لوٹ مار کے لیے ایک خاص طبقہ پیدا کیا جس کے ذمے عوام سے ظالمانہ لگان یعنی ٹیکس کی وصولی اور زمینوں پہ قبضہ تھا۔ اس سے برصغیر اور سندھ میں وہ طبقہ پیدا ہوا جسے آج وڈیرا، سردار اور جاگیردار کہا جاتا ہے۔ انگریزوں کی انہی مہربانیوں سے بھٹو خاندان آج بھی برصغیر کے امیر ترین خاندانوں میں شمار ہوتا ہے۔ برصغیر کے انہی غدار خاندانوں کی مدد سے انگریز اگلے نوے سال میں برصغیر کی ایک ہزار ملین سٹرلنگ پاؤنڈ دولت اور بے پناہ وسائل لوٹ کر برطانیہ منتقل کرنے میں کامیاب ہوئے جس سے اس خطے یعنی پاکستان اور ہندوستان میں غربت اور ثقافتی محرومی کی وہ فضا پیدا ہوئی جو آج بھی قائم ہے۔ خدا بخش خان اور اس کے بیٹے میر مرتضی خان بھٹو نے انگریزوں اور ان کے حامی سندھی وڈیروں کا راستہ روکنے کی کوشش کی لیکن سب باری باری وفات پاگئے۔ اس کے بعد میر مرتضی خان کے بیٹے شاہنواز بھٹو نے انگریزوں سے مفاہمت کی اور سیاسیات میں حصہ لینا شروع کیا جس سے بھٹو خاندان کی سیاسی زندگی کا آغاز ہوا ۔انگریزوں نے اسے بہت نوازا اور وہ کئی اعلی عہدوں پہ فائز رہا۔

 

شاہنواز بھٹو (1888–1957) برطانوی راج میں لاڑکانہ، سندھ، موجودہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک سیاست دان تھے۔ سر شاہ نواز بھٹو مشیر اعلی حکومت بمبئی اور جوناگڑھ کی مسلم ریاست میں دیوان تھے۔ وہ انگریزوں کی بمبئی پریزیڈنسی کا وزیر بھی رہا۔ ان کو برطانیہ سے وفاداری اور ملک و قوم سے غداری کی وجہ سے پہلے سی آئی ای اور بعد ازاں برطانیہ کی طرف سے سر کا خطاب دیا گیا۔ بھٹو خاندان سندھ میں برطانوی غاصبانہ قبضے کو مستحکم رکھنے میں ایک اہم غدار خاندان تھا۔ بھٹو خاندان نے سندھ پہ انگریزوں کا قبضہ مستحکم رکھنے کے لیے اور عوام پہ اپنا اثرو رسوخ قائم رکھنے کے لیے سندھ کے پیروں کا استعمال کیا۔ یہ خاندان سندھ کا ایک جاگیردار خاندان تھا جو راجپوت نسل سے تعلق رکھتا تھا۔ اس خاندان کے ابتدائی افراد جیسا کہ محمد بخش بھٹو نے انگریزوں کے خلاف مزاحمت کی لیکن بعد کی ساری نسلیں غدار ثابت ہوئیں اور اس پہ اس خاندان کے کئی افراد کو برطانیہ کی طرف سے سر، نواب اور بہادر کے خطاب دیے گئے۔ اس خاندان کو ملک و قوم سے غداری کے سلسلے میں بیشمار زمینیں دی گئیں جو سندھ کے غریب مزدوروں سے لوٹی گئی تھیں۔ ایک وقت تھا کہ یہ خاندان اڑھائی لاکھ ایکڑ رقبے کا مالک تھا جو انگریز دور اور اس کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت کی صورت میں ملک و قوم کا استحصال کرتا رہا اور آج تک اس خاندان کا شمار پاکستان کے امیر ترین خاندانوں میں ہوتا ہے جس کی دولت کا اندازہ کئی ملین ڈالرز میں ہے اور سکھر جیکب آباد عملا ان کی ریاست شمار ہوتے ہیں۔ ان کے بڑے ملک و قوم سے غداری کرکے برطانیہ سے انعامات نہ پاتے تو آج اس خاندان کو کوئی نہ جانتا ہوتا۔ یہاں تک کہ یہ خاندان جو حقیقی طور پہ انگریز دور میں تالپوروں کی جگہ برطانیہ کی طرف سے وفاداری کے صلے میں آگے لایا گیا برطانیہ کی مہربانیوں سے اب بھی نہ صرف سندھ بلکہ پاکستان کے امیر ترین خاندانوں میں شمار ہوتا ہے اور یہ دولت وہ تھی جو انگریزوں نے برصغیر کے غریب طبقے کو لوٹ کر اپنے ان غداروں میں تقسیم کی۔

 

حال یہ تھا کہ خود ایک انگریز مصنف ڈیوڈ چیزمین کی کتاب

Landlord power in rural indebtedness in colonial Sindh(1865_1901)

کے مطابق سندھ میں وڈیرے سیاہ و سفید کے مالک تھے اور ان کو برطانیہ کی طرف سے اپنے علاقوں میں بینچ مجسٹریٹ کی حیثیت حاصل تھی کہ وہ جیسے چاہیں غریب عوام کو ظلم کی چکی میں پیس کے رکھیں لیکن برطانیہ کے وفادار رہیں اور اس بدلے میں انہیں برطانیہ سے سر، نواب، خان بہادر کے خطاب اور غریب طبقے سے لوٹی گئی زمینیں ملتی تھیں جس سے نسل در نسل ان کی مالی و سیاسی طاقت میں اضافہ ہوتا گیا اور یہ چند خاندان آج تک برصغیر میں اعلی عہدوں پہ قابض ہیں اور غریب عوام پہ ظلم جو انگریز نے شروع کیا آج تک جاری ہے۔ انگریز کے ان وفاداروں اور ملک و مذہب کے ان غداروں میں وڈیرو غلام قدیر درکھان، میر عبدالحسین خان تالپور (موجودہ سندھ کی سیاستدان فریال تالپور کے اجداد)، غلام رسول جتوئی (جو انگریز کی مہربانی سے آج بھی سندھ میں اعلی حیثیت رکھتا ہے)، بھٹو خاندان کے اللہ بخش بھٹو شامل تھے اور یہ عوامی میٹنگ میں انگریز افسروں کے ساتھ کرسی نشین ہوتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد اس سیاست کے میدان میں بہت سے ایسے افراد بھی آ نکلے جو ان انگریز کے بنائے ہوئے گھرانوں سے تعلق نہیں رکھتے تھے لیکن انھوں نے سیاست کے گر اور چالبازیاں ایسی سیکھیں کہ بڑے بڑے پرانے جغادری سیاسی گھرانوں کو شکست دے کر اس ملک کی سیاست کے مختار بن گئے۔

 

حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی کا خاندان خود کو ”مخدوم“ کہلواتا ہے یعنی وہ خاندان کہ جس کا ہر فرد خدمت کیے جانے کے لائق ہو۔ مگر تاریخ گواہی دیتی ہے کہ یہ خاندان ماضی میں غاصبین ملک کی والہانہ خدمت کیلئے کوشاں و گامزن رہا ہے۔ یہ لوگ ایک طرف اولیاء اکرام کے مزارات مقدسہ کے گدی نشین اور مخدوم بن کر لوگوں کی خدمات و عطیات سمیٹتے رہے اور دوسری طرف گوروں کو اپنا مخدوم بنا کر قتال ملت میں ان کے حلیف بن کر صلے میں جاگیریں لیتے رہے ہیں۔ سیاسی خاندانوں کے بارے حقائق سے پردہ اٹھانے والی مشہور تصنیف سیاست کے فرعون کے مصنف جناب وکیل انجم لکھتے ہیں۔۔۔۔ ”سکھوں کے ابتدائی دور میں موجودہ شاہ محمود قریشی کے ہم نام لکڑ دادا مخدوم شاہ محمود اس خاندان کے سربراہ اور درگاہ کا گدی نشین تھے۔ سکھوں کے نامور حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کے باقاعدہ برسر اقتدار آنے سے پہلے ہی یہ مخدوم کافی زمینوں کے مالک بن چکے تھے اوران کا شمار ملک کے امیرترین خاندانوں میں ہوتا تھا۔ مابعد 1819ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ملتان شہر کو فتح کیا تو انہوں نے مخدوموں کی عزت وتکریم کے پیش نظر انہیں ساڑھے تین ہزار روپے مالیت کی جاگیر عطا کی۔

 

جناب وکیل انجم لکھتے ہیں کہ جب 1847 میں سکھوں کی قوت لڑکھڑانے لگی اور تاجدار برطانیہ کے انگریزوں نے مطلع سیاست پر یونین جیک کا جھنڈا گاڑ دیا تو مخدوم شاہ محمود نے اس زمانے میں انگریز سرکار عالیہ کو جو خفیہ خبریں دیں، وہ ان مخدوموں کے نئے آقا گوروں کیلئے انتہائی مفید و مددگار ثابت ہوئیں۔ جب انگریز نے پنجاب پر پوری طرح قبضہ کر لیا تو انہوں نے مخدوم شاہ محمود کو اعلی خدمات کے معاوضے میں ایک ہزار مالیت کی مستقل جاگیر اور تا زندگی سترہ سو روپے پنشن مقرر کرنے کے علاوہ ایک پورا گاؤں ان کے حوالے کر دیا گیا “۔ وکیل انجم صاحب مذید لکھتے ہیں کہ ” 1857 کی جنگ آزادی کے خونی ہنگاموں میں جب ہندوستان کے کچلے ہوئے عوام نے برطانوی استعمار کے خلاف زندگی اور موت کی حدود کو توڑتے ہوئے آخری جدوجہد کی تو اس نازک مرحلے پر مخدوم شاہ محمود نے انگریز سرکار دولت مدار کی مستحسن خدمت انجام دی – وہ انگریز کمشنر کو ہر ایک قابل ذکر واقعہ کی اطلاع بڑی مستعدی سے دیتے رہے۔ اپنی وفاداری کا مزید ثبوت دینے کیلئے انہوں نے سرکاری فوج میں بیس ہزار سوار اور کافی پیادے بھینٹ چڑھائے۔

 

سرکار کے اس یار وفادار نے اس امداد کے علاوہ پچیس سواروں کی ایک پلٹن بنا کر کرنل ہملٹن کے ہمراہ باغیوں یعنی مجاہدین کی سرکوبی کے لئے روانہ کی اور انگریز آقاؤں کے ساتھ مل کر مجاہدین کے ساتھ خود لڑائیاں لڑیں ۔ مخدوم شاہ محمود کی اس عملی امداد نے انگریزوں کی قوت بڑھانے میں اتنا کام نہیں کیا جتنا کہ ایک مذہبی راہنما کی حیثیت سے ان کے ساتھ تعاون نے اثر کیا- جب مسلمانوں نے دیکھا کہ ایک بڑا مذہبی راہنما انگریزوں کی امداد کررہا ہے تو ان کے جذبات ٹھنڈے پڑ گئے، جس کا جدوجہد آزادی پربہت برا اثر پڑا – ان خدمات جلیلہ کے معاوضے میں تیس ہزار روپے نقد کے علاوہ اٹھارہ سوروپے مالیت کی جاگیر اور آٹھ کنوں پر مشتمل زمین بھی سرکار برطانیہ کی طرف سے عطا گئی ۔ موجودہ شاہ محمود قریشی کے ہمنام ان کے بزرگ لکڑ دادا شاہ محمود قریشی 1869ء میں وفات پا گئے تو ان کے بعد ان کا بیٹا بہاول بخش حضرت شاہ رکن عالم رح اور حضرت بہاء الدین رح کے مزارات کا سجادہ نشین بنا۔

 

دلچسب بات ہے کہ جید اولیا اللہ کے اس گدی نشین بہاول بخش کی دستار بندی ایک انگریز ڈپٹی کمشنر کے ہاتھوں بڑی شان وشوکت سے ہوئی۔ احباب یاد رہے کہ جب انگریزوں اور افغانوں کے مابین جنگ ہوئی تو اس جنگ میں انگریزو ں کوعبرتناک شکست ہوئی۔ اس جنگ میں بھی جہاں ایک طرف مجاہدین اسلام آج پاکستان کے علاقے میں واقع پہاڑوں میں افغانوں کے ہمراہ انگریزوں کیخلاف لڑ رہے تھے۔ تو دوسری طرف جید اولیاءکرام کے گدی نشین انگریزوں کا ساتھ دے کر امت مسلمہ سے وہ غداری کے عوض وہ انگریز سے اپنی خدمات رذیلہ کا صلہ وصول کر رہے تھے۔ اس جنگ میں نقل وحمل کے لئے حضرت بہاول بخش نے اونٹوں کا ایک دستہ بھی افغان جنگ میں انگریز سرکار کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ مابعد انہی خدمات کے صلہ میں 1877ء میں بہاول بخش کو آنریری مجسٹر یٹ مقرر کیا گیا اور کچھ عرصہ بعد وہ ملتان میونسپل کمیٹی کے ممبر بنا دیے گئے اور انہیں صوبائی درباری کی نشست بھی الا ٹ ہوگئی۔ بہاول بخش کی افغان جنگ میں انگریزوں کیلئے پیش کی گئی خدمات کو سراہنے کیلئے 1880 ء میں لاہور میں ایک شاندار شاہی دربار لگایا گیا تھا۔۔

 

احباب قابل غور ہے کہ مخدوم شاہ محمود قریشی کے آبا و اجداد اور مرزا غلام قادیانی کے خاندان کا انگریزوں کی ایجنٹی کا کردار کم و بیش ایک جیسا رہا ہے۔ دونوں نے برصغیر میں انگریزوں کیخلاف مسلم مذاحمت کو کچلنے اور گوروں کا تسلط مضبوط کرنے میں ہر مدد فراہم کر کے، گوروں کے کارندوں کا ایک جیسا کردار بخوبی نبھایا۔ اس مخدوم خاندان کی طرف سے انگریزوں کا ساتھ دینے اور قوم سے غداری کا زمانہ بھی وہی ہے جس دور میں انگریزوں کا ایک اور خود کاشتہ پودا مرزا غلام قادیانی انگریزوں کیخلاف آزادی و اسلامی جہاد کی مخالفت میں مغرب برانڈ دجالی نظریات کی تشہیر کر کے اپنے گورے آقاؤں کی نمک حلالی کا حق ادا کر رہا تھا-

 

درگاہ شاہ رکن الدین عالم رح کے آج کے سجادہ نشین مخدوم شاہ محمود قریشی صاحب بھی گوروں کے دست راست اپنے آبا و اجداد کے نقش قدم پر گامزن ہیں۔ کچھ تعجب نہیں کہ موصوف کبھی شرم و حیا کے پیکر پیر صاحب بن کر اپنی مردنیوں کے سر پر دست شفقت دراز فرماتے نظر آتے ہیں۔ اور کبھی سر سے شرم و حیا اتار کر اسلام اور پاکستان کی دشمن ، شراب کے نشے میں بدمست ھنری کلنٹن کے ساتھ سر سے سر جوڑے عاشقانہ مزاج دکھا کر امت مسلمہ کے سر شرم سے جھکا دیتے ہیں۔ صرف پاکستانی پریس ہی میں نہیں بلکہ مغربی پریس میں بھی بیش شمار ایسی تصاویر شائع ہو چکی ہیں کہ موصوف کو یورپی دوروں میں اکثر شراب کی محفلوں میں جام لہراتے دیکھا جاتا رہا ہے۔ عوام کیسے بھول سکتے ہیں کہ یہی شاہ محمود قریشی کبھی پیپلز پارٹی چھوڑ کر نون لیگ میں بھی شامل ہوئے تھے مگر پنجاب کی وزارت اعلی نہ ملنے پر فوری طور پر پیپلز پارٹی میں واپس لوٹ گئے تھے اور حسب دستورِ سیاہ ست ایک بار پھر ہوسِ اقتدار میں عمران خان صاحب کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے، ایک محفوظ و مقبول پلیٹ فارم کی تلاش میں ایک چڑھتے سورج کے پجاری بنے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ان کے آبا و اجداد اپنے سابقہ آقا و حلیف سکھوں کی طاقت کے دم توڑتے ہی ان کا ساتھ چھوڑ کر انگریزوں کے ساتھ جا ملے تھے۔

 

قوم کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ 1857ء کی جنگ میں غداری کرنے والے بابا شاہ محمود قریشی ہوں یا اکیسویں صدی میں پرویز مشرف اور زرداری مافیہ کا حصہ اور امریکہ کا خادم بن کر ملک و ملت کے سودے کرنے والا موجودہ شاہ محمود قریشی، یہ لوگ نسل در نسل انگریز کے غلام ابن غلام اور غدارین قوم و ملت ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ایسے ناعاقبت اندیش اور ضمیر فروش افراد ملک کی ہر ایک سیاسی جماعت میں بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔۔۔۔

بہاول پور میں آباد عربی نزاد قبیلے عباسی کے نواب‘ نواب آف بہاول پور نے انگریز کے ساتھ  وفاداری نبھائی- لہذا انگریز سرکار نے پاکستان کے قیام تک بہاول پور کی ریاست کا والی عربی نزاد قبیلے عباسی کو بنائے رکھا۔

ملتان میں آباد عربی نزاد قبیلے قریشی کے سربراہ اور گدی نشین مخدوم شاہ محمود نے رائے احمد کھرل کی انگریزوں کے خلاف پنجاب کی آزادی کی تحریک میں انگریز کمشنر کومقامی آبادی کی بے چینی کے متعلق معلومات اور اطلاعات پہنچائیں اور سرکاری فوج کی مدد کے لیے پچیس سو سواروں کی ایک ملتانی پلٹن تیار کر کے دی- لہذا انگریزوں نے اس خدمت کے عوض اسے قیمتی جاگیر’ نقد انعام اور آٹھ کنویں زمین عطاء کی-

ملتان میں آباد عربی نزاد قبیلے گیلانی کے سربراہ اور گدی نشین مخدوم سید نور شاہ نے انگریز سرکار کا ساتھ دیا۔ لہذا انگریز سرکار نے اس خدمت کے عوض خلعت اور سند سے نوازا اور بعد میں کاسہ لیسی کے صلے گیلانی خاندان کو جاگیریں بھی ملیں-

ملتان میں آباد پٹھان قبیلے کے گردیزی خاندان نے انگریز سرکار کا بھرپور ساتھ دیا۔ لہذا انگریز سرکار نے انگریز کی مدد کر نے کے صلے میں جاگیریں عطاء کیں-

خان گڑھ میں آباد پٹھان قبیلے کے نوابزادگان کے جد امجد اللہ داد خان نے انگریزوں کے خلاف تحریک چلانے والوں کو کچلنے میں انگریزوں کا بھرپور ساتھ دیا- لہذا نگریز سرکار نے اس “ خدمت “ کے عوض اسے دو بار خصوصی خلعت دی اور انعام میں جاگیریں عطاء کیں- نوابزادہ نصر اللہ ان کی اولاد سے تھے۔

قصور میں آباد پٹھان قبیلے ممدوٹ نے انگریز کا بھرپور ساتھ دیا چنانچہ اس خاندان کو قیمتی جاگیر، عہدے اور منصب دیئے گئے-

عیسیٰ خیل میں آباد پٹھان قبیلے کے نیازیوں نے انگریز کا بھرپور ساتھ دیا چنانچہ اس خاندان کو قیمتی جاگیر، عہدے اور منصب دیئے گئے-

راجن پور میں آباد بلوچ قبیلے مزاری کے سردار امام بخش مزاری نے کھل کر انگریزوں کا ساتھ دیا- لہذا انگریز سرکار نے انگریز کی مدد کرنے کے صلے میں اسے سر کا خطاب دیا اور جاگیریں عطا کیں-

راجن پور میں آباد بلوچ قبیلے دریشک کے سردار بجاران خان دریشک نے انگریزوں کے خلاف تحریک چلانے والوں کے خلاف لڑنے کے لیے دریشکوں کا ایک خصوصی دستہ انگریزوں کے پاس بھیجا- لہذا انگریز سرکار نے انگریز کی مدد کرنے کے صلے میں دریشکوں کو جاگیریں عطا کیں-

مکھڈ شریف کے عربی نزاد پیروں نے انگریز کا بھرپور ساتھ دیا چنانچہ اس خاندان کو قیمتی جاگیر، عہدے اور منصب دیئے گئے-

لاھور میں آباد اہل تشیع ایرانی نسل قزلباش سردار علی رضا نے ایک گھوڑ سوار دستہ تیار کر کے جنگ آزادی میں لڑنے والے مسلمان اور ھندو سپاھیوں کے خلاف انگریز کو بھیجا۔ اسی دستے کے ساتھ علی رضا کا بھائی محمد تقی خان تھا جو مجاھدوں کے ساتھ لڑائی میں مارا گیا- قزلباشوں کو جنگ کے بعد خطاب ‘ سند ‘ وظیفے اور 147 دیہات کی تعلقہ داری سونپ دی گئی-

لاھور کے کلاًں شیخ خاندان کے سربراہ شیخ امام دین نے جنگ آزادی میں دو دستے خصوصی طور پر دھلی بھجوائے جنھوں نے حریت پسندوں کا خون بہایا۔ انہی خدمات کی بدلے انگریز نے ان کو بہت بڑی جاگیر بخشی-

گجرانوالہ کے چٹھہ خاندان کے جان محمد نے1857 میں انگریز کا بھرپور ساتھ دیا چنانچہ اس خاندان کو قیمتی جاگیر، عہدے اور منصب دیئے گئے-

سرگودھا کے ٹوانوں کے گھڑ سواروں نے دھلی کی تسخیر میں بہادری کے خوب جوھر دکھائے چنانچہ انہیں خطاب، پنشن اور لمبی چوڑی جاگیریں ملیں-

خانیوال کے ڈاھوں نے انگریز کا بھرپور ساتھ دیا چنانچہ اس خاندان کو قیمتی جاگیر، عہدے اور منصب دیئے گئے-

کالاباغ کے نوابوں نے انگریز کا بھرپور ساتھ دیا چنانچہ اس خاندان کو قیمتی جاگیر، عہدے اور منصب دیئے گئے-

ملتان کے مشہور معروف قریشی خاندان کے مخدوم شاہ محمود نے 1857 نے انگریز کمشنر کومقامی آبادی کی بے چینی کے متعلق معلومات اور اطلاعات پہنچایئں اور سرکاری فوج کی مدد کے لیے پچیس سواروں کی ایک ملتانی پلٹن تیار کر کے دہلی پہنچائی- اس کی خدمت کے عوض اسے قیمتی تحفے دیے گئے۔

کھرلوں کا وڈیرا احمد خان انگریز کا جاسوس بنا رہا اور جنگ کے بعد اسے خان بہادر کا خطاب خلعت اور وظیفہ کے علاوہ جاگیر بھی دی گئی-

جھنگ کے سیًال سردار بھی کسی سے پیچھے نہ رہے انہوں نے بھی انگریز فوج کی مدد کے لیے ایک فوج بھیجی جس پر انہیں جاگیریں اور خلعتیں ملیں-

سرگودھا کے ٹوانوں کے گھڑ سواروں نے دہلی کی تسخیر میں بہادری کے خوب جوہر دکھائے چنانچہ انہیں خطاب، پنشن اور لمبی چوڑی جاگیریں ملیں-

اسی قسم کی غدًارانہ خدمات کے لیے انگریز نے نونوں، پند دادن خان کے کھوکھروں، جودھروں، گھیبوں، خانوں، مکھڈ شریف کے پیروں، اعوانوں، کالاباغ کے نوابوں، عیسیٰ خیل کے نیازیوں اور کئی دوسرے سرکردہ خاندانوں کو عزت، خطاب، وظیفے اور وسیع جاگیریں عطا ہویئں- پاکستانیوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ شہیدوں کے ساتھ غداری کی وجہ سے انگریز دور میں سر بلند ہونے والوں کی اولاد آج بھی ممتاز اورمعزز ہے۔

 

برصغیر میں قدم جمانے کےلئے انگریزوں نے یہاں کے وڈیروں‘ جاگیرداروں‘ نوابوں‘ شہزادوں‘ سول‘ پولیس اور آرمی سروس کے ممبران پر مسلسل نوازشات کے ذریعے وفاداری یقینی بنائی۔ نتیجتاً یہ مراعات یافتہ لوگ انگریزوں سے بھی زیادہ انگریزوں کے وفادار ثابت ہوئے۔ پھر ان کے ذریعہ سے انگریزوں نے بقیہ عوام کو قابو میں رکھا۔ اب انگریزوں نے ان لوگوں کو ترغیب دی کہ وہ اپنے بچوں کو پڑھائیں۔ یہ کلاسز طویل عرصہ سے انگریزوں کی سروس میں تھیں اور ان کی مراعات یافتہ بھی تھے لہٰذا وفاداری کے لحاظ سے بھی قابل اعتماد تھے۔ انگریزوں کی سرپرستی انہیں خوب راس آئی اور خوب ترقی کی۔ ان لوگوں کی اولادوں کو فوج میں لانے کا مقصد ان کلاسز کی مسلسل وفاداری یقینی بنانی تھی اس لئے انگریزوں نے انکے بچوں کےلئے خصوصی تعلیم کا بندوبست کیا۔ ان کےلئے چیفس کالج جیسے کئی ایلیٹ تعلیمی ادارے کھولے۔

 

ملٹری اور کیڈٹ کالجز اسی دور میں متعارف کرا ئے گئے تھے۔ ان ایلیٹ تعلیمی اداروں میں سرداروں‘ جاگیرداروں اور نوابوں وغیرہ کے بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی تھی بلکہ انہیں چھوٹی عمر میں ہی ان اداروں کی نرسری برانچز میں داخل کیا جاتا تھا جہاں انگریز آیائیں انکی تربیت کرتیں۔ بلوچ سرداروں میں مری‘ بگٹی‘ مزاری اور دیگر اہم قبائل کے بچوں کو بچپن میں ہی داخل کیا جاتا تھا۔ شیرمحمدمری‘ محمد اکبر خان بگٹی‘ میر بلخ شیرمزاری اورمیر شیر بار خان مزاری وغیرہ کو اسی پالیسی کے تحت تعلیم دی گئی بلکہ اعلیٰ تعلیم کےلئے انہیں انگلینڈ بھی بھیجا گیا۔

ایسے لوگوں کو تعلیم دینے سے انگریزوں کودو اہم فائدے ہوتے۔ ایک تو ان لوگوں نے انگریزی علم اپنے اپنے علاقوں میں بلند رکھا جس سے انگریزوں کو کسی قسم کی بغاوت کا خطرہ نہ رہا۔ دوسرا اس دور میں تحریک آزادی زور پکڑ رہی تھی اور یہ لوگ تحریک آزادی کے سخت مخالف تھے۔ ان انگریزی سکولوں کے تعلیم یافتہ نوابزدگان کی وجہ سے انگریز سامراج کو سہارا ملا۔ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے انگریزوں سے بھی پہلے اپنے دیس کے قوم پرستوں کا مقابلہ کیا۔ اگر ان لوگوں کا بس چلتا تو یہ برصغیر کو کبھی آزاد نہ ہونے دیتے۔.

 

برصغیر میں برطانوی اقتدار کی توسیع کے دوران، بلوچ سرداروں کو نواب کے خطاب کی پیشکش کرتے ہوئے انکی حمایت حاصل کی اور یوں برطانوی اپنی نئی ریاست کی مغربی سرحد میں نوآبادیاتی طاقت کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئے۔ برِصغیر کی تقسیم کے بعد یہی طرزِ عمل پاکستان کے وڈیروں اور جاگیرداروں کو ورثہ میں ملا۔ سادہ الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں حکمرانی چھلانگ لگا کران روایتی جاگیرداروں اور وڈیروں کے ہاتھ آئی۔ اسی صورتحال میں ملٹری اور سول بیوروکریسی جس کی تربیت برطانوی سامراج نے خود کی تھی، کے ساتھ ان جاگیرداروں اور وڈیروں کا تضاد بننا عین فطری تھا۔ یہ وڈیرے اور جاگیردار جو یونینسٹ پارٹی کے پلیٹ فارم سے پاکستان کی تخلیق سے چند سال ہی قبل مسلم لیگ میں شامل ہوئے تھے، اپنی جاگیروں اور زمینوں کے تحفظ کے لئے اور اپنے استحصال کو قائم رکھنے کے لئے ملک کی سیاست میں گھس آئے۔ ایسا کرنا اُنکی مجبوری بھی تھا اور ضرورت بھی۔

 

نہری نظام انگریز نے ریونیو حاصل کرنے کے لیے بنایا۔ ریلوے افغانستان تک فوجی ساز و سامان پہنچانے کے لیے اور اسکول و اسپتال براؤن صاحبوں (جو گورے صاحبوں کے حاشیہ بردار تھے) کے لیے۔ ان میں سے کوئی بھی چیز ایسی نہیں تھی جس سے برصغیر کا غریب طبقہ خوشحال ہوا بلکہ یہ طبقہ ہمیشہ انگریزوں اور ان کے دلال وڈیروں سرداروں کے ظلم کی چکی میں پستا رہا اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ برطانیہ نے برعظیم پر اپنی فتوحات کا خاتمہ 1849ء میں پنجاب پر قبضہ کرنے کے بعد مکمل کیا اور شاہی قلعہ لاہور پر برطانیہ نے اپنا جھنڈا لہرایا۔ اس پورے خطے کے انسانوں کو سیاسی طور پر غلام بنانے کی مہم کا یہ آخری معرکہ تھا۔ لاہور جو پہلے ہی تہذیب کا مرکز تھا اور مغلیہ سلطنت کا مضبوط سیاسی قلعہ، اس شہر میں برطانیہ نے نوآبادیاتی مقاصد کے پیش نظر یہاں پر تعلیمی نظام کی بنیاد رکھنی شروع کی۔ 1864ء میں گورنمنٹ کالج لاہور کے بعد 1886ء میں دو سو ایکٹر رقبے پر ایچی سن کالج کی بنیاد رکھی گئی۔ دو جنوری 1886ء کو اس لاہور میں چیفس کالج کی بنیاد رکھی گئی تھی جس کا نام 13 نومبر 1886ء کو تبدیل کر کے ایچی سن کالج رکھ دیا گیا۔

 

اس بورڈنگ کالج میں ابتدائی طور پر پنجاب بھر کے جاگیردار، وڈیرے اور پھر برطانیہ کے لیے بطور سیاسی ایجنڈ کام کرنے والے خاندانوں کے بچوں کے لیے تعلیم کا بندوبست ہوا۔ ایچی سن کالج میں پہلے دن سے ہی بھاری فیسوں کی وجہ سے یہاں پر صرف انہی خاندانوں کے بچوں کی ذہنی آبیاری کی جانے لگی جس کا مقصد مستقبل کے لیے برطانیہ کو اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطروفاداروں کی نئی پود تیار کرنا تھی۔ اس کالج کی خاص بات یہ تھی کہ یہاں پر نافذ ہونے والے تعلیمی نظام اور نصاب تعلیم کو نوآبادیاتی سانچے میں ڈھالا گیا اس کے بعد یہ کالج پھلنے پھولنے لگا۔ برطانیہ کے وفادار پنجاب کے خاندان ہی نہیں بلکہ سندھ کے جاگیرداروں کے بچوں کو بھی اسی کالج میں داخلے دیے گئے۔ جاگیردارخاندانوں کا یہ وہ ٹولہ تھا جو 1857ءکی جنگ آزادی میں قومی غداری کا مظاہرہ کیا اور انگریزوں کی وفاداری کے مرتکب ہوکر برطانیہ کی فتوحات کے جھنڈے پنجاب میں بھی بلند کرائے۔ ایچی سن کالج میں اس نئی وفادارنسل کی تیاری میں بیوروکریسی کا وہ طبقہ بھی تیار ہوا جو برطانوی سامراج کے ساتھ ملکر اس قوم پر غلامی مسلط کرنے میں انگریزوں کی وفاداری کرتا رہا۔

ایچی سن کالج کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ 130سالوں سے یہاں پر صرف اشرافیہ کے بچوں کو پڑھایا جاتا ہے اور آزادی کے بعد بھی خود کو برہمن تصور کرنے والی پاکستانی اشرافیہ کے بچوں کو ہی ایچی سن کالج میں داخلہ ملتا ہے۔ عوامی ٹیکسوں پر پلنے والے یہ انسان دشمن پاکستانی برہمن باقی ساری عوام کو شودر سمجھتے ہیں۔ 1947ء سے لیکر آج تک سیاسی اشرافیہ نے بیوروکریسی کے توسط سے ایچی سن کالج پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ اس کالج میں اشرافیہ کے بچوں کی جدید نوآبادیاتی دور کے تقاضوں کے مطابق ذہنی آبیاری کی جارہی ہے اور پھر یہاں کے فارغ التحصیل طلباء بیرونی ممالک اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد پاکستان پر سیاسی اور بیوروکریسی کی شکل میں مسلط کر دیے جاتے ہیں۔ سابق وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی، اکبر بگٹی، چوہدری نثار علی خان،عمران خان، پرویز خٹک، فاروق لغاری، سردار ایاز صادق،غلام مصطفی کھر سمیت کتنے ایسے نام اوربھی موجود ہیں جو ملکی سیاست پر چار دہائیوں سے قابض ہیں ۔

 

آج تک سندھ اور پنجاب کی ستر سے اسی فیصد زمین پہ یہی سردار، وڈیرے اور جاگیردار قابض ہیں جو اس علاقے میں بسنے والے غریبوں سے چھین کر برطانیہ کی طرف سے اس علاقے کے غداروں کو تحفے میں دی گئی تھی۔ ان جاگیرداروں کو نسل در نسل وفادار رکھنے کے لیے ان کی ذہن سازی کے مقاصد کے لیے ایچی سن کالج لاہور، میو کالج اجمیر اور تعلق دار کالج اودھ قائم کیے گئے جہاں کسی غریب کا داخلہ لینا بھی محال تھا۔ مسلم لیگ میں قائد اعظم کے سوا اکثر قائدین یہی وڈیرے، جاگیردار اور سردار تھے جو پاکستان بنتا دیکھ کر اپنی وڈیرا شاہی کی حفاظت کے لیے مسلم لیگ میں شامل ہوگئے تھے اور ان وڈیروں نے ملک میں چلنے والی ان تمام زمینی اصلاحات کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیا جس سے ان کی وڈیرا شاہی خطرے میں پڑتی ہو۔

 

اب حال یہ ہے کہ پاکستان میں1970ء سے اب تک597 بااثر خاندان حکومت پر قابض ہیں۔ ان خاندانوں میں سے 379 کا تعلق پنجاب سے، 110 کا سندھ، 56 کا کے پی کے، 45 کا بلوچستان جبکہ 7 کا تعلق وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں سے ہے۔ جنوبی پنجاب میں اب یہ شرح 64 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں اب یہ شرح 44 فیصد، سندھ میں41 فیصد، کراچی میں9 فیصد، کے پی کے میں28 فیصد اور فاٹا میں18 فیصد تک جاپہنچی ہے۔ 1990ء کے نگران وزیراعظم غلام مصطفیٰ جتوئی کے 11افراد مختلف اسمبلیوں میں رہے۔ 2008ء میں جتوئی کے 4 بیٹے ملک کے تینوں قانون ساز اداروں میں موجود تھے۔ بااثر سیاسی خاندانوں میں لغاری، کھوسہ، خان، سید، بگٹی، مرزا، چوہدری، مزاری، زرداری، مروت، شریف، بھٹو اور دیگر خاندان شامل ہیں، موجودہ وزیراعظم نوازشریف کے خاندان کے کئی افراد حکومت میں ہیں جن میں اسحاق ڈار، حمزہ شہباز، مریم نواز، کیپٹن(ر)صفدر اور دیگر شامل ہیں، چوہدری ظہور الٰہی کے خاندان سے چوہدری شجاعت، پرویز الٰہی، مونس الٰہی، شفاعت حسین، لغاری خاندان میں سے فاروق لغاری، اویس لغاری، سمیرا ملک، عائلہ ملک، مینا لغاری، جمال خان لغاری، رفیق حیدر لغاری، محمد خان لغاری، محسن لغاری، یوسف لغاری شامل ہیں۔ کھر خاندان کے بہت سے لوگ حکومت میں رہے ہیں۔ زرداری خاندان سے فریال تالپور سمیت کئی لوگ حکومت میں آئے ہیں۔ اور ان میں سے اکثر خاندان انگریزوں سے وفاداری کے صلے میں جاگیریں حاصل کرکے مالی و سیاسی اقتدار حاصل کرنے کے قابل ہوئے۔ انگریز سے وفاداری کے صلے میں جاگیریں حاصل کرنے والے لغاری خاندان کی رحیم یارخان میں 1920 میں بننے والی رہائش گاہ کی قلعہ نما دیواریں، چھتیں اور کمروں میں پڑا فرنیچر آج بھی کسی بادشاہ کے دربار کا منظر پیش کرتے ہیں۔

 

پاکستان جمہوریت اور 22 کروڑ عوام کو چند ہزار وڈیروں، سرمایہ داروں، کا رخانہ داروں سیاست دانوں نے یرغمال بنا یا ہے اور 70 سال سے سیاسی حکمران پاکستان کے 22 کروڑ عوام کی قسمت سے کھیل رہے ہیں۔ یہ گنے چُنے خاندان تقریباً 7 ہزار مُنظم سرمایہ داروں، کا رخانہ داروں، جاگیر داروں، نوابوں پر مشتمل ہے جو آبادی کا 0.0028 فی صد بھی نہیں بنتا مگر انہوں نے 22 کروڑ عوام کو یر غمال بنایا ہوا ہے۔ یہ خاندان اور روایتی سیاست دان پاکستان کے عوام کو اقتدار کے نیٹ میں گھسنے نہیں دیتے۔

ان خاندانوں میں بھٹو خاندان (سر شاہنواز بھٹو، پھر ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، غنوی بھٹو، بلاول بھٹو زرداری اور فاطمہ بھٹو)،

شریف خاندان (نواز شریف تین دفعہ وزیر اعظم، شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب، نواز شریف کی اہلیہ قومی اسمبلی ممبر، مریم نواز اور اُنکے شریک حیات کیپٹن صفدر قومی اسمبلی ممبر، حمزہ شریف ممبرصوبائی اسمبلی)

باچا خان فیملی (خان عبدالغفار خان، ڈاکٹر خان، پھر ان کے بیٹے ولی خان، بہو نسیم ولی خان، فرزند ولی خان اسفند یار ولی اور اب اسفندیار ولی کا بیٹا ایمل اور بھانجا امیر حیدر ہوتی)

مولانا مُفتی محمود فیملی (مُفتی محمود صاحب وزیر اعلیٰ سرحد، پھر مولانا فضل الرحمان، بھائی عطاء الرحمان اور اب ان کا بیٹا اور داماد)

شیر پائو فیملی (حیات محمد خان شیر پائو، شہادت کے بعد بھائی آفتاب شیر پائو، اور اب فرزند آفتاب احمد شیر پائو سکندر شیر پائو، سینئر وزیر)

ارباب فیملی (ارباب نیار سابق وفاقی وزیر، ارباب جہانگیر سابق زیر اعلیٰ ، بیٹا ارباب عالمگیر سابق وفاقی وزیرمواصلات اور انکی اہلیہ عا صمہ عالمگیر)،

ہوتی فیملی(محمد علی خان سابق وزیر تعلیم، عبد الغفور ہوتی سابق ریلوے وزیر)

چوہدری فیملی(چوہدری ظہور الٰہی، چوہدری شجاعت حسین، چوہدری پر ویز الٰہی، چوہدری وجاہت حسین اور اب چوہدری مونس الٰہی)

سیف اللہ فیملی(بیگم کلثوم سیف اللہ، ایم این اے، سلیم سیف اللہ، ایم این اے اور ایم پی اے، ہمایوں سیف اللہ، انور سیف اللہ)،

لغاری فیملی (فاروق احمد خان لغاری، سابق صدر، اویس لغاری وفاقی وزیر، ایم پی اے اور ایم این اے)

مروت فیملی (حبیب اللہ خان جسٹس مغربی پاکستان، شاہ نواز خان، سابق چیف جسٹس کے پی کے)

مزاری فیملی (بلخ شیر مزاری وزیر اعظم، شیر باز خان مزاری قائد حزب اختلاف، شوکت مزاری سابق ایم پی اے پنجاب اسمبلی سپیکر، شیریں مزاری ایم این اے)

سومرو خاندان (خان بہادر اللہ بخش سومرو، دو دفعہ سندھ کے وزیر اعلیٰ، الٰہی بخش سومرو، سپیکر قومی اسمبلی وفاقی وزیر، رحیم بخش سومرو وزیر سندھ، محمد میاں سومرو وزیر اعظم، صدرپاکستان،سینیٹر و گو رنر سندھ)

زرداری فیملی (حاکم زرداری، آصف زرداری، بلاول زرداری، فر یال تالپور، عزراء پلیجو)

ترین فیملی(ایوب خان صدر پاکستان فیلڈ مارشل، گوہر ایوب، عمر ایوب ، یوسف ایوب)

رائو فیملی (رائو محمد ہاشم خان، رائو محمد اجمل خان، رائو سکندر اقبال، رائو قیصر علی خان، رائو محمد افضال)

قاضی فیملی (قاضی عبدالمجید عابد 4 بار وفاقی وزیر، فہمیدہ مرزا، سپیکر قومی اسمبلی، تین دفعہ ایم این اے، ذوالفقار مرزا، صوبائی وزیر،

پیر فیملی (پیر مظہرا لحق، کئی بار وزیر، ما روی مظہر ، صوبائی وزیر سندھ،

پیر زادہ فیملی(شریف ا لدین پیر زادہ، 1973 آئین کے آر کیٹک، وفاقی وزیر قانون، عبدالحفیظ پیر زادہ، سابق وزیر تعلیم،

نون فیملی (فیروزخان نون وزیر اعظم، وزیر خارجہ اور وزیر اعلیٰ پنجاب، انور خان نون، سابق ایم این اے، امجد خان نون ، ضلع ناظم، وقارالنساء نون بھٹو خاندان کی قانونی مشیر،

منہاس فیملی (اکبر خان فورسٹار جنرل، افتخار خان ، پہلے نامزد چیف آف آرمی سٹاف، عفت لیاقت علی وفاقی وزیر، ریاض احمد صوبائی وزیر پنجاب، میاں فیملی آف باغبانپورہ  جسٹس میاں شاہ دین، سر میاں محد شفیع، صدرآل انڈیا مسلم لیگ، میاں شاہ نواز، میاں افتخار الدین سابق سیاست دان،

گبول فیملی: اللہ بخش گبول ممبربمبئی اور سندھ قانون ساز اسمبلی، دو دفعہ کراچی کے میئر، نبیل گبول، سابق وفاقی وزیر جہاز رانی،

جدون فیملی: اقبال جدون وزیر اعلیٰ سرحد، امان اللہ جدون ، وزیر پٹرولیم،

کھر فیملی: مصطفی کھر، وزیر اعلیٰ پنجاب ، غلام ربانی کھر ایم این اے، حنا ربانی کھر، سابق وزیر خارجہ،

خٹک فیملی: حبیب اللہ خٹک، علی قلی خان، فوجی جنرل، غلام فاروق خان، قانون ساز، نصراللہ خٹک وزیر اعلیٰ سر حد، یوسف خٹک، اجمل خٹک، پرویز خٹک ( وزیر اعلیٰ کے پی کے،

کھوکر خاندان ، بگتی خاندان ، مگسی خاندان ، اچکزئی فیملی، پرنس اورنگ زیب فیملی، ترہ کئی خاندان، جتوئی خاندان اور اسکے علاوہ دیگر اور بھی خاندان ہیں جو پاکستان پر 70 سال سے حکومت کر رہے ہیں۔

 

پاکستان کے سیاسی وڈیرے عقیل عباس جعفری کی اردو تصنیف ہے جس میں آپ نے پاکستان کے سیاسی خاندانوں کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔ پاکستان کے سیاسی وڈیرے سیاست کے موضوع پر ان کی پہلی کتاب ہے جس نے شائع ہوتے ہی تہلکہ مچا دیا۔ یہی وہ کتاب تھی جس نے سیاست کی دنیا میں سیاسی وڈیرے کی اصطلاح کو متعارف کروایا۔ صوبہ سرحد کے سیاسی خاندانوں کا تذکرہ شروع ہوتا ہے تو وہ ارباب، رند، بلور، ترین، تنولی، جدون اور خٹک خاندانوں کا پس منظر بیان کرتے ہوئے راجگان گکھڑ، شیر پاؤ، کنڈی، گنڈا پور اور محمد زئی تک آتے ہیں اور پھر ہمیں میاں گُل، ناصر، ہوتی اور یوسف زئی خانوادوں سے متعارف کراتے ہیں۔ بلوچستان کی طرف بڑھتے ہیں تو اسی الفبائی ترتیب میں ہمیں اچکزئی، بزنجو، بگٹی، جام، جمالی، جوگیزئی، خاندانوں سے ملواتے ہوئے خان آف قلات، ڈومکی، رند، رئیسانی، زہری، کھوسہ، کھیتران خاندانوں تک لے جاتے ہیں اور وہاں سے محمد حسنی، مری، مگسی، مینگل اور نوشیروانی خاندان تک ہمیں اپنا ہم سفر بناتے ہیں۔ صوبہ سندھ کے جن سیاسی خاندانوں پر عقیل عباس جعفری نے خامہ فرسائی کی ہے ان میں ارباب، انڑ، بجارانی، بھٹو، پٹھان، پگاڑا، پیرزادہ، تالپور، شاہ (تھرپارکر)، جام، جاموٹ، جتوئی، جونیجو، چانڈیو، شاہ (خیر پور)، زرداری، سید(سن)، سومرو، پیر (سہیون) شیرازی، عباسی، قاضی، کھوڑو، گبول، لوند، شاہ (مٹیاری)، مخدوم، مری، ملک، مہر، شاہ (نواب شاہ)، وسان اور ہارون خاندان شامل ہیں۔

 

خاندانوں کی سب سے بڑی تعداد قابلِ فہم طور پر پنجاب کے حصّے میں آئی ہے جن میں الپیال، بابر پٹھان، پراچے، ٹوانے، جنجوعے، چٹھے، چوہدری، چیمے، خلف زئی پٹھان، دریشک، دستی، دولتانے، ڈاہا، روکڑی، رئیس، سردار، سیّد، عباسی، قریشی، قصوری، نواب آف کالا باغ، کھٹڑ، کھر، کھرل، کھوسہ، گردیزی، گیلانی، لغاری، مخدوم زادے، مزاری، موکل، نوابزادے، نکئی، نون، وٹو اور وریو خاندان شامل ہیں۔جمہوری سیاست کا دور آئے یا مارشل لاء کے ڈنڈے کی حکمرانی، ہر صورت میں قیادت جاگیردار طبقے کی ہوتی ہے۔ کبھی یہ ری پبلِکن کا نام اختیار کرتے ہیں، کبھی کنونشن لیگ کے پرچم تلے جمع ہوجاتے ہیں، کبھی بھٹو کی اسلامی سوشلزم میں محفل جماتے ہیں، کبھی ضیاء الحق کی مجلسِ شوریٰ میں نظر آتے ہیں اور کبھی نواز شریف کا نفسِ ناطقہ بن جاتے ہیں عرض ہر عہد اور ہر اُلٹ پھیر میں انھی کا سِکہ رواں ہوتا ہے اور حد یہ ہے کہ حزبِ اقتدار ہی نہیں، حزبِ اختلاف بھی انہی سرداروں، وڈیروں، نوابوں اور خانوں پر مشتمل ہوتا ہے اور سچ یہ ہے کہ آج بھی برطانیہ ان ملک و مذہب دشمن لوگوں کے ذریعے برصغیر پہ حکومت کر رہا ہے۔ کب تک یہ قوم سوتی رہے گی۔

 

Friday, May 7, 2021

نواب ‏اکبر ‏بگٹی ‏شہید

بنام 
شہید نواب اکبر بگٹی 

2002 سے ایف سی نے سوئی آئل فیلڈ کی حفاظت کے بہانے سوئی اور ڈیرہ بگتی میں ڈیرے ڈال دیے۔ اس سے حالات بہتر ہونے کی بجائے مزید خراب ہونے لگے۔ اور اسی دوران بدقسمتی سے ڈاکٹر شازیہ والا واقعہ پیش آ گیا۔

ڈاکٹر شازیہ خالد سوئی آئل فیلڈ میں بطور میڈیکل آفیسر تعینات تھیں۔ آئل فیلڈ اور رہائشی کالونیوں کی حفاظت کی ذمہ داری ڈیفنس سروسز گارڈز یا ڈی ایس جی کے سپرد تھی۔ مبینہ طور پر ڈی ایس جی کے کیپٹن حماد نے ایک رات زبردستی ان کے کمرے میں داخل ہو کر انہیں زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنایا۔اس دوران ڈی ایس جی کے گارڈز باہر پہرا دیتے رہے۔ صبح ڈاکٹر شازیہ نے جب انتظامیہ کو اس واقعے کی اطلاع دی تو انہیں ہمدردانہ مشورہ دیا گیا کہ وہ اپنی زبان بند رکھیں، ورنہ انہی کی بدنامی ہوگی۔ جب انہوں نے اپنے اہل خانہ سے رابطہ کرنے پر اصرار کیا تو انہیں تین دن خواب آور دوائیں دے کر بیہوش رکھا گیا اور اسی بیہوشی میں انہیں کراچی کے ایک دماغی امراض کے ادارے میں منتقل کر دیا گیا۔ مقصد انہیں ذہنی مریض قرار دینا تھا۔ یہیں سے وہ بمشکل اپنے شوہر سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہوئیں جو ان دنوں لیبیا مقیم تھے۔ اس دوران سوئی فیلڈ کے ملازمین نے یہ خبر باہر پھیلا دی۔ 

بلوچوں کے ہاں اپنے علاقے میں کام کرنے والی خواتین کو پورے قبیلے کی آبرو سمجھا جاتا ہے- ڈاکٹر شازیہ کا تو آبائی علاقہ بھی سوئی تھا۔ بگٹی قبائل میں شدید اشتعال پھیل گیا۔ مسلح قبائلیوں نے آئیل فیلڈ اور ڈی ایس جیز پر حملے کرنے کی کوشش کی۔ ایک فوجی کانوائے پر راکٹ فائر کئے گئے۔ نواب اکبر بگٹی جہاں ایک جانب اپنے قبیلے کو سمجھاتے بجھاتے رہے وہیں انہوں نے حکومت سے اس واقعے کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔ اس دوران ڈاکٹر شازیہ اور ان کے شوہر کراچی میں لگ بھگ دو ماہ عملاً ہاؤس اریسٹ میں رہے۔ جنرل مشرف پی ٹی وی پر نمودار ہوا اور بغیر تحقیقات کے کیپٹن حماد کو معصوم قرار دے ڈالا۔ اس متکبرانہ رویے نے صورتحال مزید خراب کی۔ اوپر سے بلوچستان کی مقامی انتظامیہ متضاد اور من گھڑت انکشافات کرتی رہی۔ ایک بار کہا گیا کہ تشدد ہوا ہے، زیادتی نہیں۔ پھر کہا گیا کہ زیادتی ہوئی ہے مگر کرنے والا بگٹی قبیلے کا ایک کلرک ہے- 

ڈاکٹر شازیہ کا اس رات کا لباس، ان کے کمرے میں ٹوٹا ہوا ٹیلی فون جس کے ساتھ مجرم ان پہ تشدد کرتا رہا تھا اور کمرے میں مزاحمت کی تمام نشانیاں ختم کر دی گئیں۔ ریاست کا من پسند حربہ آزمایا گیا یعنی اخبارات میں ایک غلیظ اور گھٹیا مہم چلائی گئی جس کے مطابق ڈاکٹر شازیہ کا اپنا کردار ٹھیک نہیں تھا۔ ڈاکٹر شازیہ نے مایوس ہو کر خودکشی کی کوشش کی۔ اس دوران ان پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ ملک چھوڑ دیں یہاں ان کی جان کو خطرہ ہے- جھانسہ یہ دیا گیا کہ آپ فوری برطانیہ چلی جائیں وہاں سے حکومت آپ کو کینیڈا شفٹ کروا دے گی مگر ایک بار وہ ملک سے نکل گئیں تو انہیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا۔

دورہ امریکا کے دوران واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو میں مشرف نے کہا کہ پاکستانی خواتین ریپ کو پیسہ کمانے اور غیرملکی نیشنیلٹی حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتی ہیں۔ دو دن بعد وہ اس بیان سے مکر گیا اور کہنے لگا کہ اس کے سامنے یہ بات ہوئی تھی اس نے نہیں کی تھی، مگر واشنگٹن پوسٹ کے پاس اس ملاقات کی ریکارڈنگ موجود تھی۔ یوں ایک بے شرم اور ذلیل انسان نے ایک جونئیر آفیسر کی خاطر اپنے پورے ادارے کی نیک نامی اور عزت داؤ پر لگا دی۔

مشرف اور بعض لوکل کمانڈرز کا خیال یہ تھا کہ صرف تین سرداروں خیر بخش مری، عطا اللہ مینگل اور نواب اکبر بگٹی کا بندوبست کر دیا جائے تو صورتحال نارمل ہو سکتی ہے- مشرف نے 2005 کے آغاز میں یہی پچاس برس پرانا مردہ کلیشے دہرایا کہ " سارے مسائل کی جڑ دو تین بلوچ سردار ہیں۔ پچھلی حکومتیں ان سے مذاکرات کرتی اور ان کی باتیں مانتی رہی ہیں۔ میری حکومت ریاست کی رٹ منوا کر رہے گی"

نواب اکبر بگٹی نے مذاکرات کی پیشکش پر جنوری 2005 میں کہا کہ " یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ فوجی آپریشن اور مذاکرات ساتھ ساتھ چلیں۔ اگر آپ مذاکرات چاہتے ہیں تو طاقت کا استعمال ترک کرنا ہوگا۔"

اس کے صرف دو ماہ بعد سترہ مارچ 2005 کو جب نواب اکبر بگٹی اور ان کے بیٹے نواب جمیل بگٹی اپنے گھر پر موجود تھے، ان پر بمباری کی گئی۔ اکبر بگٹی، شاہد بگٹی اور جمیل بگٹی بمشکل جان بچا پائے۔ چھیاسٹھ ہندو خواتین، مرد اور بچے اس بمباری کی زد میں آ کر جاں بحق ہوئے۔ بلوچ روایات سے ناواقف قارئین کو بتاتا چلوں کہ کسی بھی بلوچ قبیلے کی حدود میں رہنے والے کسی بھی اقلیتی برادری کے افراد اس قبیلے کی مشترکہ ذمہ داری سمجھے جاتے ہیں اور نواب اکبر بگٹی نے ڈیرہ بگتی کے تمام ہندوؤں کو اپنے ذاتی ڈیرے پر رہائش گاہیں دے رکھی تھیں۔ نواب جمیل بگٹی نے بعد میں بتایا کہ وہ یہ بات کبھی نہ بھول پائیں گے کہ جو گھر ہندو بھائیوں کی پناہ گاہ تھا وہی ان کیلئے موت کا پھندا ثابت ہوا۔

اس حملے پر پورے ہی ملک میں شدید ردعمل آیا۔ سندھ اور پنجاب کے سیاستدانوں کو بھی اس بات کا احساس ہوا کہ مشرف طاقت کا ناجائز استعمال کر رہا ہے- چوہدری شجاعت حسین نے مشرف سے مذاکرات کی اجازت لی اور سینیٹر مشاہد حسین سید کی قیادت میں ایک مذاکراتی وفد ڈیرہ بگتی پہنچا۔ شیری رحمان بھی اس وفد کا حصہ تھیں۔ بعد میں مشاہد حسین سید نے الجزیرہ کو انٹرویو میں بتایا کہ " ہم نے نواب اکبر بگٹی کو مصالحت، مذاکرات اور سمجھوتے کیلئے تیار پایا مگر بدقسمتی سے پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کا ایک مائنڈ سیٹ ہے- یہ مائنڈ سیٹ چھوٹے صوبوں کو ان کے جائز حقوق دینے میں ہمیشہ سے رکاوٹ رہا ہے"

خیر مشاہد حسین سید کی کوششوں اور چوہدری شجاعت کے درپردہ رابطوں کے نتیجے میں چند شرائط پر اتفاق ہوا، مگر مشرف کے دباؤ پر اس وقت کے کٹھ پتلی وزیراعظم شوکت عزیز نے سمجھوتے میں شامل عام معافی کی شرط کا اعلان کرنے سے انکار کر دیا۔ نواب اکبر بگٹی نے اپنی جانب سے اس معاہدے کی ہر ممکن پاسداری کی۔

مشرف دسمبر 2005 میں بلوچستان کے دورے میں سب سے حساس ترین علاقے کوہلو جا پہنچا جہاں کچھ قبائلیوں کو زبردستی اس کا خطاب سننے کیلئے اکٹھا کیا گیا تھا۔ اس جلسے پر کچھ راکٹ فائر ہوئے، پولیس کے کچھ لوگ زخمی ہوئے۔ یہ مری قبائل کا علاقہ تھا۔ سترہ دسمبر 2005 میں فوج نے تیس ہزار سپاہیوں، بارہ گن شپ ہیلی کاپٹرز اور چار جیٹ فائٹرز کے ساتھ کوہلو سے آپریشن کا آغاز کیا جو بڑھتا ہوا ڈیرہ بگتی اور مکران تک پھیل گیا۔ اس آپریشن میں چھیاسی افراد شہید ہوئے جن میں پچیس کے قریب مرد تھے جو علیحدگی پسند قرار پائے۔ باقی سب خواتین اور بچے تھے جو اپنے گھروں ہی میں آسمانوں سے برستی آگ میں جھلس کر رہ گئے۔

امن معاہدے کی عملاً دھجیاں بکھر چکی تھیں۔ مشرف نے ایک بار پھر ٹی وی پر آ کر بلوچوں کو کھلم کھلا دھمکی دی کہ "وہاں سے ہٹ کریں گے کہ پتہ بھی نہیں چلے گا"

یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ نواب اکبر بگٹی کا کوئی ایک مطالبہ بھی غیر آئینی نہیں تھا۔ نہ ہی انہوں نے شیخ مجیب کی طرح پاکستان سے علیحدگی کی بات کی تھی۔ جیو نیوز کیلئے حامد میر کو دیے گئے اپنے اگست 2006 کے انٹرویو میں جو ان کا آخری انٹرویو ثابت ہوا، نواب اکبر بگٹی نے کہا۔

" بلوچوں نے ہمیشہ ہر غیر آئینی اقدام کی مزاحمت کی ہے۔ غدار میں نہیں ہوں، جنہوں نے آئین کے آرٹیکل سکس کی خلاف ورزی کی وہ اس ملک کے اصل غدار ہیں۔ میر گل خان نصیر (مرحوم قوم پرست رہنما اور شاعر) کی طرح میں بھی صرف اپنے لوگوں کیلئے مساوی حقوق مانگ رہا ہوں۔ مگر جنرل مشرف کے نزدیک یہ ایسا جرم ہے، جس کی سزا صرف موت ہے-" انہوں نے مزید کہا کہ " آپ کے کمانڈو جرنیل کو میری شہادت پر ہی سکون آئے گا، مگر وہی اس صورتحال کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ اب یہ آپ لوگوں پر ہے پاکستان یا جنرل مشرف میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لیں، فیصلہ آپ کا ہے"

صرف دو سال بعد مشرف کے اپنے ادارے نے مشرف کی بجائے پاکستان کا انتخاب کر لیا مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ ایسا ہرگز نہیں تھا کہ بلوچستان کے متعلق یہ پالیسی پورے ادارے کی سوچ تھی۔ معروف صحافی زاہد حسین کو ایک کور کمانڈر نے بتایا کہ انہوں نے خود تین مرتبہ مداخلت کر کے آپریشن رکوایا تھا کیونکہ فوج میں بھی یہ سمجھا جا رہا تھا کہ طاقت اس مسئلے کا حل نہیں ہے- مگر مشرف فوج کو اپنی ذاتی آنا اور اپنے گھٹیا مقاصد کی تکمیل کیلئے بیشرمی سے استعمال کرتا رہا۔ زاہد حسین کے نیوز ویک میں شائع ہونے والے آرٹیکل "اٹس وار ناؤ" پہ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر شوکت سلطان نے فون کر کے مشرف کی جانب سے ناراضگی کا اظہار کیا۔ بعد میں آرٹیکل میں لکھی تمام باتیں سچ ثابت ہوئیں۔

26 اگست 2006 کو فوج نے اس غار پر جس میں نواب اکبر بگٹی کچھ ساتھیوں سمیت پناہ لئے ہوئے تھے، حملہ کر کے انہیں شہید کر ڈالا۔ ان کی لاش قبضے میں لے لی گئی اور بعد میں تابوت کو تالے لگا کر واپس کی گئی تاکہ لواحقین ان کا آخری دیدار کرنے سے بھی محروم رہیں۔ جنازے میں عوام کی شرکت بھی ناممکن بنا دی گئی۔

شہادت سے ایک ماہ قبل نواب اکبر بگٹی نے کہا تھا " وہ مجھے مارنے پر تلے ہوئے ہیں، مگر میں اپنا ورثہ اپنی آنے والی نسلوں کو منتقل کر کے جا رہا ہوں، میرے بعد نوجوان اپنے حقوق کی جنگ جاری رکھیں گے"

اور بالکل ایسا ہی ہوا۔ صحافی شاہ میر ان کی شہادت سے اگلے دن پسنی میں اپنے گھر بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے، جب انہیں باہر شور کی آوازیں سنائی دیں۔ پسنی پاکستان کے سیاسی معاملات سے لاتعلق ایک الگ تھلگ سی ساحلی بستی تھی مگر وہاں کے لوگ اکبر بگتی کی شہادت کی خبر سن کر گھروں سے باہر نکل آئے تھے، عورتیں شیرخوار بچوں سمیت پولیس سٹیشن کے باہر کھڑی ماتم کناں تھیں، مرد سرکاری عمارتوں پر حملہ کرنے کو تیار تھے۔

بلوچستان میں اس سے پہلے والی چاروں شورشوں میں مکران ڈویژن الگ رہا تھا۔ 2005 سے شروع ہونے والی مسلح جدوجہد میں مکران ڈویژن پیش پیش ہے- اس سے پہلے والی بغاوتوں میں زیادہ تر ان پڑھ قبائلی ہی شریک ہوا کرتے تھے۔ اس بار بلوچستان کے ڈاکٹرز، انجینئرز اور بزنس گریجویٹس بھی اس تحریک کا حصہ ہیں۔ اس سے پہلے ہر شورش میں کسی نے آنکھ اٹھا کر بھی قائد ریزیڈنسی کی جانب نہیں دیکھا تھا کیونکہ تب قائد کا ساتھی نواب اکبر بگٹی زندہ تھا، اس بار زیارت ریزیڈنسی جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دی گئی۔ اس سے پہلے بدترین حالات میں بھی سرکاری عمارتوں پر پاکستانی پرچم لہراتا رہتا تھا۔ اس مرتبہ سرکاری سکولوں میں قومی ترانہ پڑھنا بھی چھوڑ دیا گیا۔ آج تیرہ برس گزر جانے کے باوجود تحریک ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ کیونکہ جو بلوچ راہنما اس تحریک کو قابو میں رکھنے کی صلاحیت رکھتے تھے، مر چکے یا جلاوطن ہیں۔

مشرف کب کا دم دبا کر بھاگ چکا مگر بلوچستان اس کی بھڑکائی آگ میں اب تک جل رہا ہے- 2013 تا 2017 کے چار سالوں میں حالات میں کسی قدر بہتری کی امید بندھی تھی۔ مگر چند قلیل مدتی گھٹیا سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے راتوں رات چند سیاسی ٹاوٹوں کی جماعت کھڑی کر کے اسے بلوچستان پر مسلط کر دیا گیا ہے- جو وزیر اعلیٰ کور کمانڈر کی اجازت کے بغیر واش روم جانے کی ہمت نہیں رکھتا وہ بھلا بلوچستان کے پیچیدہ سیاسی مسائل کا حل خاک نکالے گا۔

اس ملک میں جمہوریت، آئین کی بالادستی اور سویلین سپریمیسی کی جدوجہد کرنے والوں کی جنگ کسی ادارے، کسی شخصیت کے خلاف نہیں ہے- یہ جنگ اس فرسودہ، گلی سڑی اور بدبودار سوچ سے ہے جو قیام پاکستان کے حق میں مہم چلانے والے، بانی پاکستان کے ساتھی، صوبے کے دو مرتبہ وزیر اعلیٰ اور ایک مرتبہ گورنر رہنے والے اس دھرتی کے قابل فخر سپوت کو غدار قرار دے کر مار ڈالتی ہے- نفرت اس سوچ سے ہے جس کے تحت ملک کا ایک منتخب صدر، دو منتخب وزرائے اعظم تو ٹرائل کے دوران جیل بھگتتے ہیں اور سینکڑوں بے گناہوں کے قاتل، دو مرتبہ آئین شکنی کے مرتکب بزدل بھگوڑے آمر کو ریاست پندرہ لاکھ ماہوار پر وکیل مقرر کر کے دیتی ہے-

بگٹی تیرہ برس بعد بھی زندہ ہے، بگٹی ایک سو تیرہ برس بعد بھی زندہ رہے گا۔ اس نے اپنی دھرتی کے حقوق کی جنگ لڑتے ہوئے جان دی ہے اور بلوچ اپنے شہیدوں کو کبھی نہیں بھلاتے۔ جبکہ مشرف جیتے جی مر چکا ہے، بوٹ چاٹ قبیلے کے سوا پورے ملک میں کوئی اس پر تھوکنا بھی پسند نہیں کرتا۔

نواب اکبر بگٹی زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ تمام تر ریاستی پروپیگنڈے کے باوجود وہ ہزاروں لاکھوں پنجابیوں کیلئے بھی اتنے ہی محترم ہیں جتنے بلوچوں کیلئے۔ ان کے یوم شہادت پر ایک پنجابی ان کو سلام پیش کرتا ہے۔
 
ایک اصلی قوم پسند پنجابی کی وال کاپی پیسٹ