Sunday, April 7, 2024

نکاح کی اہمیت

 نکاح کی اہمیت

ہم نے نہ بحیثیت انسان یا بحیثیت مسلمان، نکاح کے رشتے کی اہمیت کو سمجھا ہی نہیں ہے اور نہ کسی نے ہمیں سمجھانے کی کوشش بھی کی ہے۔

مسلمان کی زندگی میں صرف دو کام ایسے ہیں جن کی تکمیل کلمہ طیبہ کے بغیر ممکن نہیں ہے:

نمبر-1: غیر مسلم کا کلمہ طیبہ پڑھ کر، کفر کو چھوڑ کر، ایمان کے دائرے میں داخل ہونا۔

نمبر-2: غیر شادی شدہ کا کلمہ طیبہ پڑھ کر نکاح کے دائرے میں داخل ہونا۔

اب یہاں پہلی والی بات کو اگر دیکھا جائے تو مسلمانوں کی دو اقسام دیکھنے کو ملتی ہیں۔

پہلے وہ جو اس لیے مسلمان ہیں کہ وہ مسلمان کے گھر میں پیدا ہوگئے۔ اگر خدانخواستہ وہ کسی اور مزہب کے خاندان میں پیدا ہوئے ہوتے تو یقیناً ساری زندگی اسی مزہب میں رہ کر گزار دیتے۔

دوسرے وہ جنہوں نے دوسرے مزہب میں رہتے ہوئے اسلام کا مطالعہ کیا، اسے اپنے مزہب سے بہتر پایا، اس سے متاثر ہوئے، پھر اسے قبول کرنے کا فیصلہ کیا اور کلمہ طیبہ پڑھ کر کئی گواہوں کی موجودگی میں ایمان کے دائرے میں داخل ہوئے۔ یہی لوگ اسلام کے شعائر و قوانین کے زیادہ پابند ہونگے اور اس مزہب کے زیادہ قدردان ہوتے ہیں کیونکہ اسلام ان کی اپنی پسند ہے اور انہوں نے اس کو بڑی تحقیقات کے بعد اپنایا ہے۔

بالکل اسی طرح کی صورتحال نکاح کے معاملے میں بھی بنتی ہے۔ انسان کے کچھ رشتے اس لیے ہیں کہ انسان ایک خاندان میں پیدا ہوا، اسے وہ رشتے بنے بنائے مل گئے، کہیں اور پیدا ہوتا تو وہاں کے لوگ اس کے رشتےدار ہوتے۔

لیکن شریک حیات کا رشتہ واحد رشتہ ہے جو انسان خود اپنے لیے پسند کرتا ہے، پرکھتا ہے، منتخب کرتا ہے اور پھر کلمہ طیبہ پڑھ کر گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرکے اس کے ساتھ رشتہ بناتا ہے۔

گویا شریک حیات کا درجہ انسان کے لیے اس کے ایمان کے برابر ہوگیا۔ یہی وجہ ہے کہ شیطان کو سب سے بڑی خوشی اس رشتے میں دوری پیدا کرنے سے ملتی ہے۔ جس گناہ سے شیطان کو سب سے بڑی خوشی حاصل ہوتی ہے، وہ گناہ کتنا بڑا ہوگا، اس کا شاید ہمارے معاشرے کے افراد کو اندازہ ہی نہیں ہے۔

جب مرد دن بھر دفتر، مزدوری، کاروبار سے واپس آئے، اور آتے ہی اسے اپنی بیوی کی مخالفت اور برائیاں سننے کو ملیں، تو کیا وہ ماں اپنے بیٹے اور بہو کے درمیان دوری پیدا کرنے کی کوشش نہیں کررہی؟

ہمارا معاشرہ، جو کہ ہندو معاشرے سے بہت متاثر ہے، اسلام کے نام پہ جوائنٹ فیملی سسٹم کو اپنائے ہوئے ہے حالانکہ اسلام میں جوائنٹ فیملی سسٹم کا کوئی تصور ہی نہیں ہے. یہاں ماں ہو، بہن ہو، یہاں تک کہ دیگر رشتےدار خواتین بھی بیٹے کی شادی کے بعد یہ رونا ڈال بیٹھتی ہیں کہ اس کے آنے سے ہمارا بیٹا ہم سے چھن گیا ہے۔ اکثر خاندانوں میں بیٹے کی شادی کے فوراً بعد اسے ملک سے باہر بھیج دیا جاتا ہے جس کے پیچھے ایک ہی مقصد ہوتا ہے یعنی میاں بیوی کو ایک دوسرے سے دور کردیا جائے۔

اب یہاں ایک بہت بڑا سوال پیدا ہوتا ہے۔ ماں، بہن، یا کسی بھی شخص کی مخالفانہ باتوں سے متاثر ہو کر اگر وہ مرد اپنی بیوی کے ساتھ رویہ بگاڑ لیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ میاں بیوی کے درمیان دوری پیدا کرنے کا منصوبہ کامیاب ہوگیا ہے، یعنی شیطان کو سب سے بڑی خوشی دے دی گئی ہے۔

ماں کی ایسی تابعداری کرکے کیا بیٹا خود اپنے ہاتھ سے اپنی ماں کو جہنم میں نہیں پہنچا رہا؟

اسلام نے کب اس بات کی اجازت دی ہوئی ہے کہ وہ والدین کی مزہب کے خلاف باتوں کی اطاعت کرے؟

نیکی اور بدی کا اجر دینے کے معاملے میں اللہ تعالٰی نے انسان کو بہت بڑی سہولت دے رکھی ہے جس کا انسان جتنا بھی شکر ادا کرے، کم ہے۔ برائی انسان کے ذہن میں ہے، ارادہ کیا ہوا ہے، لیکن سرزد نہیں ہوئی، تو وہ برائی یا گناہ انسان کے کھاتے میں نہیں لکھا جائے گا۔ جب اس پہ عمل ہوجائے گا تو تب کھاتے میں لکھا جاتا ہے اور وہ بھی محض ایک بار۔

اس کے برعکس، نیکی کے اجر کا معاملہ بہت مختلف ہے. انسان نے نیکی کا ارادہ کیا تو اس نیکی کا ایک بار کا اجر اس کے کھاتے میں لکھ دیا جاتا ہے. جب وہ نیکی کر لیتا ہے، اس پہ عمل ہوجاتا ہے تو اس نیکی کا دس گنا اجر انسان کے کھاتے میں لکھا جاتا ہے۔ اس نیکی سے جب تک کسی کو بھی کسی بھی قسم کا فائدہ پہنچتا رہے گا، تو اس کا اجر مسلسل انسان کے کھاتے میں آتا ہی رہے گا۔

اب اس کبیرہ گناہ کے معاملے کو بھی اسی نظر سے دیکھیں۔ اگر مرد کے اس کی ماں یا بہن نے کان بھرے لیکن اس نے اپنی بیوی کے ساتھ اپنا رویہ خراب نہیں کیا، تو شیطان کو سب سے بڑی خوشی دینے کا کبیرہ گناہ نہ مرد کے کھاتے میں آیا اور نہ ہی اس کی ماں یا بہن کے کھاتے میں۔

لیکن اگر مرد کا رویہ اپنی بیوی کے ساتھ خراب ہوگیا، تو پھر ماں اور بیٹا، دونوں کے کھاتے میں یہ کبیرہ گناہ لکھ گیا۔

اگر ہمارے معاشرے کا مرد ان باتوں کو سمجھ جائے تو کیا طلاق کی شرح نہ ہونے کے برابر نہیں رہ جائے گی؟ اسلام کی ایسی ٹیکنیکل باتوں کو سمجھنے کے لیے نہ تو ہم خود تیار ہیں اور نہ ہی ہمارے علماء کرام ہمیں بتانے کو تیار ہیں۔ رہی سہی کسر سٹار پلس اور سونی جیسے چینلز کے ڈرامے پوری کردیتے ہیں جنہوں نے جوائنٹ فیملی سسٹم کی اس معاشرے میں خوب پروموشن کررکھی ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں سیدھے راستے پہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

Saturday, April 6, 2024

نیشنلائزیشن

 ‏نیشنلائزیشن

آج کی جواں نسل جن باتوں سے بے خبر ہے اور عمران منافق جیسوں کی تقریروں سے متاثر ہو کر یہ کہتی ہے کہ پچتہر سالوں سے ملک لوٹا جارہا ہے، سب چور ہیں، ہم نے کچھ نہیں کیا، ہم غلام ہیں،  ان کی معلومات کے لیے بتانا چاہتا ہوں کہ 1970 تک پاکستان  میں تیس چالیس امبانی، ٹاٹا، برلا، سے بڑے صنعتکار بینکار بزنس جینئس تھے جنہوں نے ملک کی معیشت کو سنبھالا ہوا تھا۔ ملک کوریا جاپان سے بہت آگے تھا مڈل ایسٹ کے ممالک کسی گنتی میں نہیں تھے۔ ان صنعتکاروں بینکاروں کو بائیس خاندان کا نام دے کر ٹارگٹ کیا گیا۔

ان میں سے سہگل گروپ نے کپڑے کی صنعت کو عروج دیا۔ داؤد گروپ ہیوی وہیکل اور زرعی مشینری کے بادشاہ تھے۔ داؤد ہرکولیس ٹریکٹر ان کی پروڈکٹ تھی۔ ہارون خاندان چھوٹی مصنوعات، اصفہانی سلہٹ کے چائے کے باغات کے مالک نے ملک کی پہلی ائیرلائن قائم کی جو آج کی سب ائر لائنوں سے بہتر تھی۔ حبیب گروپ بینکنگ کے کنگ تھے. ساٹھ کی دہائی میں ان کا حبیب پلازہ ایشیأ کی بلند ترین عمارت تھی۔ ایشیأ میں پہلا آئی بی ایم بینکنگ سسٹم اس بلڈنگ کی نویں منزل پر نصب ہوا۔ فینسی کپڑے کی صنعت نشاط گروپ کے پاس تھی اور اس کے علاوہ بھی وہ مختلف مصنوعات کے بانی تھے۔ لاہور بیکو یعنی بٹالہ انجینئرنگ سائیکل موٹرسائیکل اسمبل کرتے تھے۔ ان کی بیکو، ہرکولیس، سہراب، رستم سائیکل پورے ملک میں چلتیں۔ میاں شریف کا اتفاق گروپ ٹیوب ویل اور ویٹ تھریشر کے بانی تھے۔ 1966 میں بیکو کے میاں لطیف اور اتفاق کے میاں شریف نے مغل پورہ ورکشاپ میں ٹینک سازی کی اجازت لی۔ لارنس پور وولن ملز کی سُوٹنگ دنیا میں نمبر ون تھی۔ غرض ایک پوری صنعتی ریاست تھی جن کے مالکان نیشنلائزیشن کے نتیجے میں اپنی مشینری بنگلہ دیش لے گئے۔

بھٹو صاحب (اس وقت کے عمران خان) نے ان بائیس خاندانوں کے خلاف تحریک چلائی کہ ملک کی ساری دولت ان کے پاس ہے، ان کے پیٹ سے نکالوں گا، لہزا ہم عوام ان کے خون کے پیاسے ہو گئے تھے۔ ہم نے اپنے ان مُحسن خاندانوں کے خلاف خُونی تحریک چلائی۔ بھٹو صاحب خود بھی فیوڈل تھے  اور فیوڈلز یعنی بڑے زمین داروں نے پاور میں آکر سب صنعت کاروں کی املاک بلا معاوضہ قومی ملکیت میں لے لیں۔ لاہور کی بیکو اب پیکو بن کر تباہ ہوئی۔ سب جینئس خاندان تباہ و برباد ہوئے۔ بیکو کے میاں لطیف جرمنی چلے گئے، اتفاق کے میاں شریف ملک چھوڑ کر مڈل ایسٹ میں گلف سٹیل ملز لگا کر بیٹھ گئے. اصفہانی کنگال ہو گئے،  ان کے سلہٹ کے چائے کے باغات بنگلہ دیش لے گیا. ائیرلائن پی آئی اے بن کر تباہ ہوگئی. حبیب گروپ سے حبیب بینک چھین لیا گیا، سہگل گروپ نے کوہ نور جیسی بزنس ایمپائرز پلاٹ بنا کر نیلام کر دی۔ کوہ نور جو پوٹھوہار کی ماں کہلاتی تھی، تباہ ہوئی. مشرقی پاکستان میں جنرل ایوب خان کے دور کے میمن سنگھ اور نرائن گنج کے بہت بڑے انڈسٹریل زون بنگلہ دیش کے کام آئے. کراچی سائیٹ انڈسٹریل  ایسٹیٹ جہاں گندھارا والے ہینو ٹرک بناتے، شاہنواز لمیٹڈ  شیورلیٹ اور مرسیڈیز اسمبل کرتے، سب کچھ قومیا کر تباہ کر دیا گیا. ان خاندانوں میں سے اصفہانی کی بیٹی حسین حقانی کی اہلیہ امریکہ چلی گئی۔

بعد میں جنرل ضیاء نے صنعت کاروں کو ڈھونڈنا شروع کیا۔  ہارون خاندان کے محمود اے ہارون کو گورنر سندھ بنایا۔  شریف خاندان کو جنرل ضیاء باہر سے بلا کر لائے اور پھر اسی شریف خاندان کے نواز شریف نے ملک کو ترقی کی اُس راہ پر ڈالا کہ آج کا ملک جو کچھ نظر آتا ہے اسی نواز شریف کے وژن اور کاموں کی بدولت ہے ورنہ بھٹو والے تو شروع میں موٹروے پر تنقید کر کے اسے بھی ختم کرنا چاہتے تھے۔ اسی ارب پتی شریف خاندان کو چور چور کہتے پھرتے ہیں. کبھی اندر کبھی باہر، کبھی جیل کبھی جلاوطنی، کبھی دو فلیٹ کہاں سے آئے، کبھی پاکستان کی دولت واپس لاؤ۔

اصل میں غلامی اور غربت تو بھٹو کی دی ہوئی ہے۔ عوام کو بےروزگار کیا، فیوڈلز، وڈیرے، چوہدری، مخدوم، لغاری، جتوئی، ٹوانے، سب بڑے زمیندار اسمبلیوں میں پہنچ گئے اور ایلیکٹیبلز بن گئے اور صنعتکاروں کو تباہ کرکے لوگوں کو ان وڈیروں کا، اور ملک کو آئی ایم ایف کا غلام  بنا دیا گیا۔

پرائی جنگ میں کودنا

پرائی جنگ میں کودنا

بچپن سے سنا ہوا اپنے سیانے اور تجربہ کار آباؤ اجداد کا قول دہراتا ہوں

جس گھر دانے اس کے کملے بھی سیانے


تو بھائی جو ہماری معاشی حالت ہے، اس میں رہتے ہوئے ہماری کوئی آواز نہیں ہے اور نہ ہماری کوئی اوقات ہے.


دوسری بات یہ کہ ہماری عوام کا سرے سے کوئی نظریہ ہی نہیں ہے. نظریاتی عوام وہ ہوتی ہے جس کے چھوٹی چھوٹی چیزوں سے پاؤں نہیں ڈگمگاتے اور وقتی تکالیف کی بنیادی وجوہات کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں. جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ ایک حکومت کے دور میں مہنگائی ہو تو پہلے والی کو اچھا ماننے لگتے ہیں جس کی مخالفت اس کے دور میں اسی بنیاد پہ کی تھی کہ مہنگائی ہوئی تھی۔


یہ رویہ اس وجہ سے انتہائی خطرناک ہوتا ہے کہ ۔ ۔ ۔


پہلے ہم ایٹمی قوت بننا چاہتے تھے، جب دھماکے کر لیے اور نتیجے میں معاشی پابندیاں لگی تو وہی لوگ کہتے پائے گیے کہ کیا ضرورت تھی یہ پٹاخے چلانے کی۔


بالکل اسی ذہنی سطح کے لوگ آج اچھل اچھل کر بڑھکیں مارتے نظر آتے ہیں کہ ہم اپنی فوج کو غزہ اور فلسطین کی مدد کے لیے کیوں نہیں بھیج رہے۔

لیکن اگر ہم نے یہ کام کرلیا تو ساری غیر مسلم دنیا نے ہم پہ حملہ آور ہونا ہے اور پھر یہی سب لوگ کہتے نظر آئیں گے کہ کیا ضرورت تھی پرائی جنگ میں کودنے کی۔ 


دیکھا نہیں افغان جنگ میں کودنے کا نتیجہ؟ سب اسی بنیاد پہ جنرل ضیا کو گالیاں دیتے ہیں کہ کیا ضرورت تھی پرائی جنگ میں کودنے کی۔ 


تو بھائی، اوپر لکھے  گئے محاورے کی تائید میں علامہ اقبال کے شعر پہ بات ختم کرتا ہوں، اسے سمجھیں اور اپنے مقام (اوقات) کو پہچانیں۔


ہو صداقت کےلیے جس دل میں مرنے کی تڑپ

پہلے  اپنے  پیکر خاکی  میں  جاں پیدا  کرے

مہنگائی

 مہنگائی

اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں کیسے بڑھتی ہیں؟

کسان نے فصل اگائی، نگہداشت کی، کھاد ڈالی، راتوں کو جاگ کے رکھوالی کی، فصل تیار ہوئی جو منڈی جانے کو تیار ہے۔

اب آڑھتی درمیان میں کود پڑا۔ اس نے اونے پونے دام پہ فصل خریدی، کسان کو بمشکل ہی کوئی منافع ہوا۔ اکثر اس کی فصل نقصان میں ہی جاتی ہے۔

یاد رہے کہ فصل ابھی وہیں کھیت میں پڑی ہے۔

کسان سے ڈیل کرنے والے آڑھتی نے منڈی پہنچانے والے آڑھتی کے ساتھ فصل کا سودا کیا۔ مال منڈی پہنچانے والے آڑھتی نے منڈی والے آڑھتی کے ساتھ فصل کا سودا کیا۔ تینوں نے ٹھیک ٹھاک مال بنا لیا۔ تھوک والا آڑھتی وہ مال تھوک فروش (ہول سیلر) کو بیچے گا، جس سے وہ مال پرچون فروش خریدے گا اور وہاں سے عوام خریدے گی۔ تھوک اور پرچون فروش نے بھی منافع کی صورت میں ٹھیک ٹھاک مال بنا لیا۔ عوام نے چونکہ اس فصل کو، یعنی گندم، دال، چنا وغیرہ کو خود استعمال کرنا ہے لہزا وہاں تو کسی منافع کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

اب غور کیجیے کہ کسان کو تو پورے سیزن کی محنت کے بعد صرف واجبی سی آمدنی ہوئی لیکن اس کے بعد تین آڑھتیوں اور دو دکانداروں نے اپنا پورا منافع وصول کیا اور ٹھیک ٹھاک مال بنا لیا۔ اب کسان نے جس قیمت پہ مال بیچا، عوام کو مال اس سے شاید پچیس گنا یا اس سے بھی زیادہ قیمت پہ ملا۔

حل کیا ہے؟

کھیت سے منڈی تک سڑکوں کا جال بنا دیا جائے اور کسان کو آسان اقساط پہ ٹریکٹر ٹرالی دے دی جائے تاکہ وہ اپنی پیداوار خود منڈی پہنچائے جس کے نتیجے میں عوام کو وہ مال سستا دستیاب ہوسکے۔

لیکن جس نے سڑکیں بنانے کی کوشش کی، اس کے ساتھ ہم نے کیا کیا؟ اور ہم نے ایسا کیوں کیا؟

ہمارے دماغوں میں میڈیا کے ذریعے جھوٹ بول بول کر زہر بھرا گیا، اور ہم نے بغیر سوچے سمجھے اس جھوٹ کو سچ مانا۔

مجرم تو ہم بھی ٹھرے نا، آخر دماغ تو ہمیں بھی دیا تھا اللہ تعالیٰ نے، لیکن استعمال تو ہم نے خود کرنا تھا۔

اللہ تعالٰی ہمیں معاملات کو درست انداز میں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

رکاوٹیں

 رکاوٹیں

اگر ملک میں بےروزگاری کا خاتمہ ہوگیا تو کون جائے گا وڈے گھر کے ریکروٹمنٹ سینٹر میں بھرتی ہونے کے لیے؟ صرف شہادت کے جزبے سے تو شاید ایک فیصد عوام بھی نہ جائے۔

اگر شہر صاف ستھرے ہوگئے اور سہولیات میسر ہوگئیں تو مہنگا ڈی ایچ اے اور بحریہ کون خریدے گا؟

اگر پولیس اور دیگر سول ادارے ٹھیک ہوگئے تو آفات کی صورت میں انہیں کون شہروں میں بلائے گا، جس کا وہ بجٹ کے علاؤہ الگ سے معاوضہ وصول کرتے ہیں۔

لیکن ہم نے بھی قسم کھا رکھی ہے کہ سمجھنا نہیں ہے۔

پیلی ٹیکسی سکیم نے بےروزگاری پہ تگڑی ضرب لگائی تھی لیکن لانے والے کا انجام کیا ہوا؟

سیپیک بےروزگاری کا بڑی حد تک خاتمہ کرسکتا تھا لیکن لانے والے کے خلاف کیا کچھ نہیں ہوا؟

اور جنہوں نے اس کے خلاف یہ سب کیا، بےروزگاری اور غربت سے تنگ یہی عوام ڈٹ کے ان کے اور ان کے لائے ہوئے کے ساتھ کھڑی رہی اور اب تک کھڑی ہے۔

پاکستان کی مزہبی جماعتیں

 پاکستان کی مزہبی جماعتیں

ہمارے ملک کی مزہبی جماعتیں (بظاہر) ساری کی ساری اسٹیبلشمنٹ کی پالتو ہیں. نہ صرف مزہبی جماعتیں بلکہ بڑی بڑی گدیاں بھی اسی زمرے میں آتی ہیں۔ ان سب نے نام تو مزہبی جماعتوں والے رکھے ہوتے ہیں لیکن دراصل یہ اقتدار کے بھوکے گدھ ہیں۔ ان کا مزہب اور سیاست کو ساتھ ساتھ چلانے کا مقصد یہی ہے کہ دونوں طرف کے فوائد سے مستفید ہوتے رہیں جبکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ

خدا ہی ملا نہ وصال صنم

ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے

 

چونکہ ان کے پاس نفری بہت زیادہ ہوتی ہے، لہزا اسٹیبلشمنٹ کے لیے ایسی مزہبی جماعتیں بہت قیمتی ہوتی ہیں کیونکہ یہ مزہب اور مسلک کے نام پہ بڑی سیاسی پارٹیوں کے ووٹ توڑنے کے کام آتی ہیں۔ 2018 کی ہی مثال لے لیں۔ تمام عالمی اداروں کے سروے کیا پیشگوئیاں کر رہے تھے لیکن چند ایسی چالیں چل کر ایسا پانسہ پلٹا گیا کہ ملک کا ہی بیڑہ غرق کردیا گیا۔

 

پہلا واقعہ دیکھ لیں:

ممتاز قادری کو سزا کس نے سنائی، جج نے

پھانسی کے ریڈ وارنٹ پہ دستخط کس نے کیے، اسی جج نے جس نے اسے سزا سنائی تھی

اگر کوئی اس کی سزا معاف کرسکتا تھا تو کون، صدر پاکستان

وزیراعظم کا اس تمام عدالتی عمل میں کتنا کردار ہوتا ہے، صفر

 

لیکن آپ اس پھانسی کی ٹائمنگ دیکھیں کہ نوازشریف کا سارا بریلوی ووٹ یہ جھوٹا پراپوگینڈا کرکے توڑا گیا کہ یہ عدالتی فیصلے پہ اثرانداز کیوں نہیں ہوا۔ اوئے عقل کے اندھے لوگو، کیا ملک کا وزیراعظم ایک فیصد بھی عدالتی سسٹم پہ اثرانداز ہونے کا اختیار رکھتا ہے؟

 

دوسرا واقعہ دیکھیں۔ نوازشریف کی حکومت کا وزیر قانون تھا زاہد حامد۔ کسی نجی محفل میں اس نے کہ دیا کہ ہم ایسا قانون لانے کی کوشش کررہے ہیں جس کے تحت عدلیہ اور مسلح افواج کے فنڈز کا بھی آڈٹ ہوا کرے گا یہ بات باہر نکلنے کی دیر تھی کہ خادم رضوی صاحب فیض آباد جا پہنچے اور جو گالی گلوچ کا بازار گرم ہوا کہ اللہ کی پناہ نام اسے دیا گیا تھا توہین رسالت کے خلاف جہاد کا جس کے نام پہ یہ تمام ہلڑ بازی مچائی گئی۔ ایک ماہ تک یہ فحش گوئی اور ہلڑبازی چلتی رہی اور جیسے ہی زاہد حامد استعفیٰ دے کر چلے گئے، دھرنا ختم ہوگیا۔ آج بھی کسی ٹی ایل پی کے ورکر سے یا اس مسلک کے کسی بھی بندے سے پوچھ لیں، جو اس وقت نواز حکومت کو منہ بھر بھر کے گالیاں دیا کرتے تھے کہ جس ترمیم سے توہین رسالت ہو رہی تھی، اس کے الفاظ کیا تھے۔ مجھے سو فیصد یقین ہے کہ ایک بھی شخص شاید ہی بتا سکے گا۔ حافظ حمد اللہ مسلسل کہتے رہے کہ اس ترمیم سے کوئی توہین رسالت کا پہلو نہیں نکلتا اور اس ترمیم کی تجویز ن لیگ نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کی جانب سے آئی تھی لیکن جاہل عوام کو کون سمجھائے جو مزہب اور مسلک کے نام پہ اندھی ہوجاتی ہے۔ اپنی عقل استعمال کرنے کی  تو انہیں تربیت ہی نہیں دی گئی۔ فیض آباد دھرنے کے پیچھے کون تھا یہ جاننے کے لیے وہ ویڈیو کافی ہے جس میں دھرنے کے شرکا کو باقاعدہ وردی میں رہتے ہوئے ایک ایک ہزار روپیہ بانٹا جا رہا ہے۔

 

اور پھر جب خادم رضوی صاحب کی زبان سے نکلا کہ "میں دساں کدے آکھنے تے میں فیض آباد گیا سی"، تو یہ دھمکی وہ پنجابی گانا ثابت ہوئی

 

چھپ جاؤ تاریو پادیو ہنیر نی

آساں ایس رات دی نہیں ویکھنی سویر نی

 

گولڑہ شریف کے گدی نشینوں کا کیا کام تھا 2018 کے انتخابات سے پہلے ایک ہفتہ مزاکرات کرنا؟

 

پیر سیالوی نے مرنے سے پہلے اعترافی بیان دیا تھا کہ مجھ پہ دباؤ تھا لہزا میں نے عمران خان کا ساتھ دیا۔

دباؤ کس کا تھا؟؟؟

 

پاکستان کی عوام کا تو خیر نصیب ہی برا ہے لیکن ہماری اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی سوجھ بوجھ اور مردم شناسی بھی ہمیشہ انتہائی ناقص ہی ثابت ہوئی ہے۔ کراچی سیاسی سرگرمیوں کا ہمیشہ سے مرکز رہا ہے لہزا پہلے انہوں نے سیاسی پارٹیوں کا ووٹ توڑنے کے لیے ایم کیو ایم بنائی جو بعد میں عوام کے لیے مستقل قومی مصیبت ثابت ہوئی لیکن خود بنانے والوں کے لیے بھی وہ کسی عفریت سے کم نہ رہی۔ اب یہی کچھ عمران خان کے معاملے میں ہوا۔ یہ بھی ان کے لیے اب ایک بےقابو عفریت بن چکا ہے جس نے طاقت کے حصول کے لیے کثیر جہتی تعلقات قائم کررکھے ہیں، مثلا ایک جانب طالبان ہیں تو دوسری جانب جماعت اسلامی۔ یہ تو ایک مسلک کی سپورٹ ہوگئی۔ ٹی ایل پی، طاہر القادری اور مختلف گدیوں کی صورت میں دوسرے مسلک کی جانب سے بھی مدد حاصل ہوگئی۔ اپنے عوامی جلسوں میں جس امریکہ کو گالیاں دیتا پھرتا  ہے اور اپنے ٹایگرز کو ایبسولیوٹلی ناٹ کا جھانسہ دیتا رہا، اسی امریکہ کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی خاطر بھاری معاوضے پہ لابنگ فرمز ہائر کر رکھی ہیں. فارن فنڈنگ کیس کی تفصیلات اتنی ہوشربا ہیں کہ جس دن سامنے آگئی، وہ دن پاکستان کے لیے ہیرو شیما سے کم نہیں ہونے لگا۔

 

ہمیں ضرورت اس امر کی ہے کہ خود اپنے ذہن میں دو اور دو چار کریں اور معاملات کو پرکھیں پراپوگینڈا کا شکار ہونا کچے ذہن کی علامت ہے اور ہماری کم از کم اسی فیصد آبادی اسی مرض کا شکار ہے۔ خدارا، خود سے غیرجانبدارانہ تجزیہ کرکے درست نتائج اخذ کرنے کی عادت ڈالیں۔

Monday, October 11, 2021

Maryam & Safdar wedding

Real Name Mehrunnisa Safdar
Nickname Mehrunnisa
Profession Self- Employed
Famous For Grand-Daughter of Former Prime Minister of Pakistan Nawaz Sharif
Marriage Date 2015
Caste Muslim
Husband Name Raheel Munir
Husband Caste Muslim
Marital Status Married
Son N/A
Physical Status 
Age 28
Height
In centimeters- 167 cm
In meters- 1.67 m
In Feet Inches-5’6”
Weight
In Kilograms- 55 kg
In Pounds- 121 lbs
Eye Colour Black
Hair Colour Light Brown
Shoe Size 4 US
Personal Information
Date of Birth 23 November 1993
Birth Place Lahore, Pakistan
Zodiac sign Leo
Nationality Pakistani
School Name Private School
College Name N/A
Qualifications –
Family Profile
Father Name Muhammad Safdar Awan
Mother Name Maryam Nawaz
Siblings Sister: Mahnoor Safdar
Brother:- Muhammad Junaid Safdar

Career 
Source Of Income N/A
Appeared In N/A
Net Worth, Salary N/A
Mehrunnisa Safdar

https://arealnews.com/mehrunnisa-safdar/?amp