Saturday, April 6, 2024

پرائی جنگ میں کودنا

پرائی جنگ میں کودنا

بچپن سے سنا ہوا اپنے سیانے اور تجربہ کار آباؤ اجداد کا قول دہراتا ہوں

جس گھر دانے اس کے کملے بھی سیانے


تو بھائی جو ہماری معاشی حالت ہے، اس میں رہتے ہوئے ہماری کوئی آواز نہیں ہے اور نہ ہماری کوئی اوقات ہے.


دوسری بات یہ کہ ہماری عوام کا سرے سے کوئی نظریہ ہی نہیں ہے. نظریاتی عوام وہ ہوتی ہے جس کے چھوٹی چھوٹی چیزوں سے پاؤں نہیں ڈگمگاتے اور وقتی تکالیف کی بنیادی وجوہات کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں. جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ ایک حکومت کے دور میں مہنگائی ہو تو پہلے والی کو اچھا ماننے لگتے ہیں جس کی مخالفت اس کے دور میں اسی بنیاد پہ کی تھی کہ مہنگائی ہوئی تھی۔


یہ رویہ اس وجہ سے انتہائی خطرناک ہوتا ہے کہ ۔ ۔ ۔


پہلے ہم ایٹمی قوت بننا چاہتے تھے، جب دھماکے کر لیے اور نتیجے میں معاشی پابندیاں لگی تو وہی لوگ کہتے پائے گیے کہ کیا ضرورت تھی یہ پٹاخے چلانے کی۔


بالکل اسی ذہنی سطح کے لوگ آج اچھل اچھل کر بڑھکیں مارتے نظر آتے ہیں کہ ہم اپنی فوج کو غزہ اور فلسطین کی مدد کے لیے کیوں نہیں بھیج رہے۔

لیکن اگر ہم نے یہ کام کرلیا تو ساری غیر مسلم دنیا نے ہم پہ حملہ آور ہونا ہے اور پھر یہی سب لوگ کہتے نظر آئیں گے کہ کیا ضرورت تھی پرائی جنگ میں کودنے کی۔ 


دیکھا نہیں افغان جنگ میں کودنے کا نتیجہ؟ سب اسی بنیاد پہ جنرل ضیا کو گالیاں دیتے ہیں کہ کیا ضرورت تھی پرائی جنگ میں کودنے کی۔ 


تو بھائی، اوپر لکھے  گئے محاورے کی تائید میں علامہ اقبال کے شعر پہ بات ختم کرتا ہوں، اسے سمجھیں اور اپنے مقام (اوقات) کو پہچانیں۔


ہو صداقت کےلیے جس دل میں مرنے کی تڑپ

پہلے  اپنے  پیکر خاکی  میں  جاں پیدا  کرے

No comments: