Saturday, April 6, 2024

مہنگائی

 مہنگائی

اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں کیسے بڑھتی ہیں؟

کسان نے فصل اگائی، نگہداشت کی، کھاد ڈالی، راتوں کو جاگ کے رکھوالی کی، فصل تیار ہوئی جو منڈی جانے کو تیار ہے۔

اب آڑھتی درمیان میں کود پڑا۔ اس نے اونے پونے دام پہ فصل خریدی، کسان کو بمشکل ہی کوئی منافع ہوا۔ اکثر اس کی فصل نقصان میں ہی جاتی ہے۔

یاد رہے کہ فصل ابھی وہیں کھیت میں پڑی ہے۔

کسان سے ڈیل کرنے والے آڑھتی نے منڈی پہنچانے والے آڑھتی کے ساتھ فصل کا سودا کیا۔ مال منڈی پہنچانے والے آڑھتی نے منڈی والے آڑھتی کے ساتھ فصل کا سودا کیا۔ تینوں نے ٹھیک ٹھاک مال بنا لیا۔ تھوک والا آڑھتی وہ مال تھوک فروش (ہول سیلر) کو بیچے گا، جس سے وہ مال پرچون فروش خریدے گا اور وہاں سے عوام خریدے گی۔ تھوک اور پرچون فروش نے بھی منافع کی صورت میں ٹھیک ٹھاک مال بنا لیا۔ عوام نے چونکہ اس فصل کو، یعنی گندم، دال، چنا وغیرہ کو خود استعمال کرنا ہے لہزا وہاں تو کسی منافع کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

اب غور کیجیے کہ کسان کو تو پورے سیزن کی محنت کے بعد صرف واجبی سی آمدنی ہوئی لیکن اس کے بعد تین آڑھتیوں اور دو دکانداروں نے اپنا پورا منافع وصول کیا اور ٹھیک ٹھاک مال بنا لیا۔ اب کسان نے جس قیمت پہ مال بیچا، عوام کو مال اس سے شاید پچیس گنا یا اس سے بھی زیادہ قیمت پہ ملا۔

حل کیا ہے؟

کھیت سے منڈی تک سڑکوں کا جال بنا دیا جائے اور کسان کو آسان اقساط پہ ٹریکٹر ٹرالی دے دی جائے تاکہ وہ اپنی پیداوار خود منڈی پہنچائے جس کے نتیجے میں عوام کو وہ مال سستا دستیاب ہوسکے۔

لیکن جس نے سڑکیں بنانے کی کوشش کی، اس کے ساتھ ہم نے کیا کیا؟ اور ہم نے ایسا کیوں کیا؟

ہمارے دماغوں میں میڈیا کے ذریعے جھوٹ بول بول کر زہر بھرا گیا، اور ہم نے بغیر سوچے سمجھے اس جھوٹ کو سچ مانا۔

مجرم تو ہم بھی ٹھرے نا، آخر دماغ تو ہمیں بھی دیا تھا اللہ تعالیٰ نے، لیکن استعمال تو ہم نے خود کرنا تھا۔

اللہ تعالٰی ہمیں معاملات کو درست انداز میں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

No comments: