Saturday, April 6, 2024

نیشنلائزیشن

 ‏نیشنلائزیشن

آج کی جواں نسل جن باتوں سے بے خبر ہے اور عمران منافق جیسوں کی تقریروں سے متاثر ہو کر یہ کہتی ہے کہ پچتہر سالوں سے ملک لوٹا جارہا ہے، سب چور ہیں، ہم نے کچھ نہیں کیا، ہم غلام ہیں،  ان کی معلومات کے لیے بتانا چاہتا ہوں کہ 1970 تک پاکستان  میں تیس چالیس امبانی، ٹاٹا، برلا، سے بڑے صنعتکار بینکار بزنس جینئس تھے جنہوں نے ملک کی معیشت کو سنبھالا ہوا تھا۔ ملک کوریا جاپان سے بہت آگے تھا مڈل ایسٹ کے ممالک کسی گنتی میں نہیں تھے۔ ان صنعتکاروں بینکاروں کو بائیس خاندان کا نام دے کر ٹارگٹ کیا گیا۔

ان میں سے سہگل گروپ نے کپڑے کی صنعت کو عروج دیا۔ داؤد گروپ ہیوی وہیکل اور زرعی مشینری کے بادشاہ تھے۔ داؤد ہرکولیس ٹریکٹر ان کی پروڈکٹ تھی۔ ہارون خاندان چھوٹی مصنوعات، اصفہانی سلہٹ کے چائے کے باغات کے مالک نے ملک کی پہلی ائیرلائن قائم کی جو آج کی سب ائر لائنوں سے بہتر تھی۔ حبیب گروپ بینکنگ کے کنگ تھے. ساٹھ کی دہائی میں ان کا حبیب پلازہ ایشیأ کی بلند ترین عمارت تھی۔ ایشیأ میں پہلا آئی بی ایم بینکنگ سسٹم اس بلڈنگ کی نویں منزل پر نصب ہوا۔ فینسی کپڑے کی صنعت نشاط گروپ کے پاس تھی اور اس کے علاوہ بھی وہ مختلف مصنوعات کے بانی تھے۔ لاہور بیکو یعنی بٹالہ انجینئرنگ سائیکل موٹرسائیکل اسمبل کرتے تھے۔ ان کی بیکو، ہرکولیس، سہراب، رستم سائیکل پورے ملک میں چلتیں۔ میاں شریف کا اتفاق گروپ ٹیوب ویل اور ویٹ تھریشر کے بانی تھے۔ 1966 میں بیکو کے میاں لطیف اور اتفاق کے میاں شریف نے مغل پورہ ورکشاپ میں ٹینک سازی کی اجازت لی۔ لارنس پور وولن ملز کی سُوٹنگ دنیا میں نمبر ون تھی۔ غرض ایک پوری صنعتی ریاست تھی جن کے مالکان نیشنلائزیشن کے نتیجے میں اپنی مشینری بنگلہ دیش لے گئے۔

بھٹو صاحب (اس وقت کے عمران خان) نے ان بائیس خاندانوں کے خلاف تحریک چلائی کہ ملک کی ساری دولت ان کے پاس ہے، ان کے پیٹ سے نکالوں گا، لہزا ہم عوام ان کے خون کے پیاسے ہو گئے تھے۔ ہم نے اپنے ان مُحسن خاندانوں کے خلاف خُونی تحریک چلائی۔ بھٹو صاحب خود بھی فیوڈل تھے  اور فیوڈلز یعنی بڑے زمین داروں نے پاور میں آکر سب صنعت کاروں کی املاک بلا معاوضہ قومی ملکیت میں لے لیں۔ لاہور کی بیکو اب پیکو بن کر تباہ ہوئی۔ سب جینئس خاندان تباہ و برباد ہوئے۔ بیکو کے میاں لطیف جرمنی چلے گئے، اتفاق کے میاں شریف ملک چھوڑ کر مڈل ایسٹ میں گلف سٹیل ملز لگا کر بیٹھ گئے. اصفہانی کنگال ہو گئے،  ان کے سلہٹ کے چائے کے باغات بنگلہ دیش لے گیا. ائیرلائن پی آئی اے بن کر تباہ ہوگئی. حبیب گروپ سے حبیب بینک چھین لیا گیا، سہگل گروپ نے کوہ نور جیسی بزنس ایمپائرز پلاٹ بنا کر نیلام کر دی۔ کوہ نور جو پوٹھوہار کی ماں کہلاتی تھی، تباہ ہوئی. مشرقی پاکستان میں جنرل ایوب خان کے دور کے میمن سنگھ اور نرائن گنج کے بہت بڑے انڈسٹریل زون بنگلہ دیش کے کام آئے. کراچی سائیٹ انڈسٹریل  ایسٹیٹ جہاں گندھارا والے ہینو ٹرک بناتے، شاہنواز لمیٹڈ  شیورلیٹ اور مرسیڈیز اسمبل کرتے، سب کچھ قومیا کر تباہ کر دیا گیا. ان خاندانوں میں سے اصفہانی کی بیٹی حسین حقانی کی اہلیہ امریکہ چلی گئی۔

بعد میں جنرل ضیاء نے صنعت کاروں کو ڈھونڈنا شروع کیا۔  ہارون خاندان کے محمود اے ہارون کو گورنر سندھ بنایا۔  شریف خاندان کو جنرل ضیاء باہر سے بلا کر لائے اور پھر اسی شریف خاندان کے نواز شریف نے ملک کو ترقی کی اُس راہ پر ڈالا کہ آج کا ملک جو کچھ نظر آتا ہے اسی نواز شریف کے وژن اور کاموں کی بدولت ہے ورنہ بھٹو والے تو شروع میں موٹروے پر تنقید کر کے اسے بھی ختم کرنا چاہتے تھے۔ اسی ارب پتی شریف خاندان کو چور چور کہتے پھرتے ہیں. کبھی اندر کبھی باہر، کبھی جیل کبھی جلاوطنی، کبھی دو فلیٹ کہاں سے آئے، کبھی پاکستان کی دولت واپس لاؤ۔

اصل میں غلامی اور غربت تو بھٹو کی دی ہوئی ہے۔ عوام کو بےروزگار کیا، فیوڈلز، وڈیرے، چوہدری، مخدوم، لغاری، جتوئی، ٹوانے، سب بڑے زمیندار اسمبلیوں میں پہنچ گئے اور ایلیکٹیبلز بن گئے اور صنعتکاروں کو تباہ کرکے لوگوں کو ان وڈیروں کا، اور ملک کو آئی ایم ایف کا غلام  بنا دیا گیا۔

No comments: