Tuesday, June 15, 2021

سیاستدانوں ‏کے ‏اخراجات

میں اس تحریر سے بالکل بھی متفق نہیں ہوں کیونکہ ایسی پوسٹیں *پاپوشنگر* سے گھڑ گھڑ کر پھیلائی جاتی ہیں تاکہ عوام میں جمہوریت کو بدنام کیا جائے اور آمریت کے حق میں رائے عامہ ہموار کی جاسکے.

ایک طرف تو آپ یہ بھی برداشت نہیں کرتے کہ سیاسی لوگوں کا (خواہ وہ کسی بھی سطح کے ہوں) کوئی ذاتی کاروبار ہو. اگر وہ ملازمت میں ہوں تو وہ سیاست میں نہیں رہ سکتے. اور پھر آپ انہیں اسمبلی میں خدمات انجام دینے کے معاوضے کے بھی مخالف ہیں. پھر ان کا ذریعہ آمدن ہونا کیا چاہیے؟

اگر اینٹائٹلمنٹ (entitlements) بند کرنی ہیں تو ہر بلا تخصیص ہر سطح پہ بند ہونگی، خواہ وہ سیاستدان ہوں، یا *کسی بھی* محکمے کے سرکاری افسران و ملازمین ہوں. 

یاد رکھیں، ہمارے نمائندے یہی سیاستدان ہیں. انہوں نے ہی ہمارے مفادات کا تحفظ کرنا ہے اور انہوں نے ووٹ مانگنے ہمارے پاس ہی آنا ہے. جو لوگ بزور اسلحہ ہم پہ مسلط ہوجائیں، وہ ہمارے نمائندے نہیں بلکہ آقا بن کر آتے ہیں. بزور اسلحہ تو ہمارے گھروں میں ڈاکو بھی گھس جاتے ہیں، ایسے لوگ کسی صورت میں ہمیں قابل قبول نہیں ہیں.

عوامی نمائندوں کے حوالے سے ہمارے پاس یہ آپشن موجود رہتا ہے کہ اگر انہوں نے ایک مدت کے دوران خراب کارگردگی دکھائی ہو، تو اگلی بار انہیں ووٹ نہ دیا جائے (بشرطیکہ کہ انہیں مدت پوری کرنے کا موقع ملے). لیکن بزور اسلحہ آنے والوں کے سامنے عوام مکمل طور پہ بےبس ہوتے ہیں.

ایک بات پتھر پہ لکیر ہے کہ بیرونی ممالک کے بنکوں میں پڑے جس 200 ارب کا ڈھندورا عمران خان کنٹینر پہ کھڑا ہو کر پانچ سال پیٹتا رہا ہے، اگر وہ سیاستدانوں کے ہوتے تو عمران خان کبھی بھی اس کیس کو بند نہ کرتا.

No comments: