نکاح کی اہمیت
ہم نے نہ بحیثیت انسان یا بحیثیت
مسلمان، نکاح کے رشتے کی اہمیت کو سمجھا ہی نہیں ہے اور نہ کسی نے ہمیں سمجھانے کی
کوشش بھی کی ہے۔
مسلمان کی زندگی میں صرف دو کام ایسے ہیں
جن کی تکمیل کلمہ طیبہ کے بغیر ممکن نہیں ہے:
نمبر-1: غیر مسلم کا کلمہ طیبہ پڑھ کر، کفر کو چھوڑ کر، ایمان کے دائرے میں
داخل ہونا۔
نمبر-2: غیر شادی شدہ کا کلمہ طیبہ پڑھ کر نکاح کے دائرے میں داخل ہونا۔
اب یہاں پہلی والی بات کو اگر دیکھا
جائے تو مسلمانوں کی دو اقسام دیکھنے کو ملتی ہیں۔
پہلے وہ جو اس لیے مسلمان ہیں کہ وہ
مسلمان کے گھر میں پیدا ہوگئے۔ اگر خدانخواستہ وہ کسی اور مزہب کے خاندان میں پیدا
ہوئے ہوتے تو یقیناً ساری زندگی اسی مزہب میں رہ کر گزار دیتے۔
دوسرے وہ جنہوں نے دوسرے مزہب میں رہتے
ہوئے اسلام کا مطالعہ کیا، اسے اپنے مزہب سے بہتر پایا، اس سے متاثر ہوئے، پھر اسے
قبول کرنے کا فیصلہ کیا اور کلمہ طیبہ پڑھ کر کئی گواہوں کی موجودگی میں ایمان کے
دائرے میں داخل ہوئے۔ یہی لوگ اسلام کے شعائر و قوانین کے زیادہ پابند ہونگے اور
اس مزہب کے زیادہ قدردان ہوتے ہیں کیونکہ اسلام ان کی اپنی پسند ہے اور انہوں نے
اس کو بڑی تحقیقات کے بعد اپنایا ہے۔
بالکل اسی طرح کی صورتحال نکاح کے
معاملے میں بھی بنتی ہے۔ انسان کے کچھ رشتے اس لیے ہیں کہ انسان ایک خاندان میں پیدا
ہوا، اسے وہ رشتے بنے بنائے مل گئے، کہیں اور پیدا ہوتا تو وہاں کے لوگ اس کے
رشتےدار ہوتے۔
لیکن شریک حیات کا رشتہ واحد رشتہ ہے
جو انسان خود اپنے لیے پسند کرتا ہے، پرکھتا ہے، منتخب کرتا ہے اور پھر کلمہ طیبہ
پڑھ کر گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرکے اس کے ساتھ رشتہ بناتا ہے۔
گویا شریک حیات کا درجہ انسان کے لیے
اس کے ایمان کے برابر ہوگیا۔ یہی وجہ ہے کہ شیطان کو سب سے بڑی خوشی اس رشتے میں
دوری پیدا کرنے سے ملتی ہے۔ جس گناہ سے شیطان کو سب سے بڑی خوشی حاصل ہوتی ہے، وہ
گناہ کتنا بڑا ہوگا، اس کا شاید ہمارے معاشرے کے افراد کو اندازہ ہی نہیں ہے۔
جب مرد دن بھر دفتر، مزدوری، کاروبار
سے واپس آئے، اور آتے ہی اسے اپنی بیوی کی مخالفت اور برائیاں سننے کو ملیں، تو کیا
وہ ماں اپنے بیٹے اور بہو کے درمیان دوری پیدا کرنے کی کوشش نہیں کررہی؟
ہمارا معاشرہ، جو کہ ہندو معاشرے سے
بہت متاثر ہے، اسلام کے نام پہ جوائنٹ فیملی سسٹم کو اپنائے ہوئے ہے حالانکہ اسلام
میں جوائنٹ فیملی سسٹم کا کوئی تصور ہی نہیں ہے. یہاں ماں ہو، بہن ہو، یہاں تک کہ
دیگر رشتےدار خواتین بھی بیٹے کی شادی کے بعد یہ رونا ڈال بیٹھتی ہیں کہ اس کے آنے
سے ہمارا بیٹا ہم سے چھن گیا ہے۔ اکثر خاندانوں میں بیٹے کی شادی کے فوراً بعد اسے
ملک سے باہر بھیج دیا جاتا ہے جس کے پیچھے ایک ہی مقصد ہوتا ہے یعنی میاں بیوی کو
ایک دوسرے سے دور کردیا جائے۔
اب یہاں ایک بہت بڑا سوال پیدا ہوتا ہے۔
ماں، بہن، یا کسی بھی شخص کی مخالفانہ باتوں سے متاثر ہو کر اگر وہ مرد اپنی بیوی
کے ساتھ رویہ بگاڑ لیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ میاں بیوی کے درمیان دوری پیدا
کرنے کا منصوبہ کامیاب ہوگیا ہے، یعنی شیطان کو سب سے بڑی خوشی دے دی گئی ہے۔
ماں کی ایسی تابعداری کرکے کیا بیٹا
خود اپنے ہاتھ سے اپنی ماں کو جہنم میں نہیں پہنچا رہا؟
اسلام نے کب اس بات کی اجازت دی ہوئی
ہے کہ وہ والدین کی مزہب کے خلاف باتوں کی اطاعت کرے؟
نیکی اور بدی کا اجر دینے کے معاملے میں
اللہ تعالٰی نے انسان کو بہت بڑی سہولت دے رکھی ہے جس کا انسان جتنا بھی شکر ادا
کرے، کم ہے۔ برائی انسان کے ذہن میں ہے، ارادہ کیا ہوا ہے، لیکن سرزد نہیں ہوئی،
تو وہ برائی یا گناہ انسان کے کھاتے میں نہیں لکھا جائے گا۔ جب اس پہ عمل ہوجائے
گا تو تب کھاتے میں لکھا جاتا ہے اور وہ بھی محض ایک بار۔
اس کے برعکس، نیکی کے اجر کا معاملہ
بہت مختلف ہے. انسان نے نیکی کا ارادہ کیا تو اس نیکی کا ایک بار کا اجر اس کے
کھاتے میں لکھ دیا جاتا ہے. جب وہ نیکی کر لیتا ہے، اس پہ عمل ہوجاتا ہے تو اس نیکی
کا دس گنا اجر انسان کے کھاتے میں لکھا جاتا ہے۔ اس نیکی سے جب تک کسی کو بھی کسی
بھی قسم کا فائدہ پہنچتا رہے گا، تو اس کا اجر مسلسل انسان کے کھاتے میں آتا ہی
رہے گا۔
اب اس کبیرہ گناہ کے معاملے کو بھی اسی
نظر سے دیکھیں۔ اگر مرد کے اس کی ماں یا بہن نے کان بھرے لیکن اس نے اپنی بیوی کے
ساتھ اپنا رویہ خراب نہیں کیا، تو شیطان کو سب سے بڑی خوشی دینے کا کبیرہ گناہ نہ
مرد کے کھاتے میں آیا اور نہ ہی اس کی ماں یا بہن کے کھاتے میں۔
لیکن اگر مرد کا رویہ اپنی بیوی کے
ساتھ خراب ہوگیا، تو پھر ماں اور بیٹا، دونوں کے کھاتے میں یہ کبیرہ گناہ لکھ گیا۔
اگر ہمارے معاشرے کا مرد ان باتوں کو
سمجھ جائے تو کیا طلاق کی شرح نہ ہونے کے برابر نہیں رہ جائے گی؟ اسلام کی ایسی ٹیکنیکل
باتوں کو سمجھنے کے لیے نہ تو ہم خود تیار ہیں اور نہ ہی ہمارے علماء کرام ہمیں
بتانے کو تیار ہیں۔ رہی سہی کسر سٹار پلس اور سونی جیسے چینلز کے ڈرامے پوری کردیتے
ہیں جنہوں نے جوائنٹ فیملی سسٹم کی اس معاشرے میں خوب پروموشن کررکھی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں سیدھے راستے پہ چلنے
کی توفیق عطا فرمائے۔