Monday, October 11, 2021
Maryam & Safdar wedding
Sunday, September 12, 2021
قائداعظم کی جائداد
Monday, August 9, 2021
لیاقت علی خان کا قاتل کون
لیاقت علی خان کا قاتل کون
گزشتہ دنوں ایبٹ آباد میں ایک تاریخی شخصیت
106 سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔ آپ کو جان کر حیرت ہو گی کہ وہ کون سی شخصیت تھی
جو گمنام رہی۔ تو وہ اس سید اکبر کی بیوی تھی جس نے 1951 میں ہمارے پہلے وزیر اعظم
لیاقت علی خان کا لیاقت باغ میں قتل کیا تھا۔
اس سید اکبر کو تو موقع پر ہی پکڑنے کی
بجائے قتل کیا گیا تھا۔ مگر اس کے چار بیٹوں اور بیوہ کو ایبٹ آباد کنج قدیم میں ایک
گھر الاٹ کیا گیا اور سخت پہرے میں اس وقت کی جدید ترین سہولیات بھی مہیا کی گئی تھیں۔ اس کا بڑا بیٹا دلاور خان جو اس
وقت 8 سال کا تھا آج بھی 85 سال کی عمر میں زندہ سلامت اپنے ذاتی بہت بڑے گھر میں
شملہ ہل بانڈہ املوک میں رہائش پزیر ہے کیونکہ جو گھر ان کو اور اس کی ماں کو الاٹ
کیا گیا تھا وہ بیوہ کے نام پہ تھا اور ان کا بچپن وہاں گزرا۔
اسی دوران پہرہ دینے والے سپاہی سے ان کی
ماں نے شادی کر لی تھی اور اس کے ہاں 5
بچے یعنی چار بیٹے اور ایک بیٹی کی مزید پیدائش
ہوئی، 8 بھائی اور ایک بہن والا کنبہ نہایت خوشحال زندگی گزارتا رہا۔
بالآخر دلاور خان کی شادی بھی اس کے دوسرے
پاکستانی والد بدل زمان خان نے اپنی رشتہ دار سے کروائی جو سات بچوں یعنی چار بیٹوں
اور تین بیٹیوں کی ماں ہے، سید اکبر کے باقی تین بیٹے یکے بعد دیگرے امریکہ میں سیٹل
کر دیئے گئے۔
دلاور خان شادی کے کچھ عرصہ بعد کابل گیا،
بقول اس کےاپنی آبائی زمینیں دیکھنے اور اپنی بیوی اور ایک ہی بیٹا جو اس وقت تھا
اس کو ماں کے پاس چھوڑ رکھا تھا۔ 8 سال بعد واپس آیا اور بیوی بچے کو بھی لے گیا۔
مگر کچھ عرصہ آنا جانا کرتا رہا اور بالآخر
پچھلے 50 سال سے مستقل اپنے ذاتی گھر میں مقیم ہے۔ الاٹ شدہ گھر ماں نے
فروخت کر دیا تھا اور دوسرے خاوند کے بچوں کے ساتھ نئے بنگلوں میں رہائش پزیر تھی
اور بالآخر دنیا سے رخصت ہوگئی۔
امید ہے آپ لوگوں کو اس پی ایم کے قتل کے
بارے کچھ تو سمجھ آئی ہوگی۔
(قمر اللہ چودھری)
تلخ حقیقت
لیاقت علی خان کو جس نے شہید کیا اس قاتل کی
بیوہ کو وظیفہ، رہائش اور سہولیات دی جاتی رہی جبکہ وزیر اعظم لیاقت علی خان کی بیوہ
رعنا لیاقت علی خان کی پینشن حکومت پاکستان کی جانب سے روک دی گئی تھی۔
ہے نہ مزہ کی بات
-:-:-:-:-:-:-:-:-:-:-:-:-:-:-:-:-:-:-:-:-:-:-
ٹھیکیداروں کا ملک
زیروپوائنٹ از جاوید چوہدری
اتوار 8 اگست 2021
مجھے کل ایک دوست نے کراچی کی ایک خاتون کا وزیراعلیٰ سندھ کے
نام خط بھجوایا‘ خاتون نے خط میں لکھا‘ میرے خاوند انتہائی علیل ہیں‘ یہ ہفتے میں
تین بار ڈائیلیسز کراتے ہیں‘ ان کے ڈائیلیسز‘ ماہانہ ٹیسٹوں‘ ادویات‘ انجیکشنز اور
ڈاکٹروں کی فیسوں پر ایک لاکھ 75 ہزار روپے ماہانہ خرچ ہو جاتے ہیں‘ ہماری دونوں
بیٹیاں مل کر یہ اخراجات برداشت کرتی ہیں لیکن اب ان کے بس کی بات بھی نہیں۔ لہٰذا
میری آپ سے درخواست ہے آپ مہربانی فرما کر میرے خاوند کے میڈیکل اخراجات کا کوئی
مستقل بندوبست کر دیں۔ خاتون نے آخر میں لکھا کہ میرے خاوند میرے گھر میں رہتے ہیں
اور یہ گھر مجھے میری والدہ نے دیا تھا‘ یہ ایک عام سا خط تھا۔ ملک میں روز ہزاروں
لوگ اس قسم کے خط لکھتے ہیں اور حکومت سے امداد مانگتے ہیں۔ یہ کوئی غیرمعمولی بات
نہیں لیکن یہ خط اس کے باوجود غیرمعمولی ہے۔
کیوں؟
کیوں کہ یہ درخواست کسی عام شخص نے نہیں کی‘ یہ خط پاکستان کے
پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کی بہو دُر لیاقت علی خان نے لکھا تھا اور جس
مریض کے لیے امداد مانگی جا رہی ہے اس کا نام اکبر علی خان ہے اور یہ لیاقت علی
خان اور بیگم رعنا لیاقت علی کا بیٹا ہے۔
ہمارے ملک میں شاید بہت کم لوگوں کو علم ہو گا کہ لیاقت علی
خان کرنال کے بہت بڑے جاگیردار خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی جاگیر میں ریلوے
سٹیشن تھا اور ان کے کھیت اور باغ میلوں تک پھیلے تھے۔ وہ 1918ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی
میں پڑھنے گئے تھے۔ وکالت شروع کی تو وہ چند برسوں میں ہندوستان کے بڑے وکلاء میں
شمار ہونے لگے۔ 1923ء میں سیاست میں آئے اور 1926ء میں انگریز دور میں یوپی اسمبلی
کے رکن منتخب ہو گئے۔ مسلم لیگ جوائن کی تو قائداعظم کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں
کے سب سے بڑے لیڈر بن گئے۔ 1947ء میں پاکستان آئے تو اپنی ساری زمین جائیداد‘
روپیہ پیسہ حتیٰ کہ کپڑے تک بھارت چھوڑ آئے اور کراچی میں جائیداد کا کسی قسم کا
کلیم نہ کیا۔ اس سرزمین پر ایک انچ زمین نہ لی۔ وہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے۔
وہ اگر چاہتے تو آدھا کراچی‘ لاہور اور راولپنڈی ان کا ہوتا‘ وہ اگر دہلی اور
ممبئی کے گھروں کا کلیم ہی لے لیتے تو ان کا خاندان آج ارب پتی ہوتا لیکن اس درویش
صفت انسان نے ملک کو اپنا سب کچھ دے دیا، لیکن بدلے میں لیا کچھ نہیں۔
ان کی بیگم اپنے زمانے کی انتہائی خوب صورت‘ مہذب اور پڑھی
لکھی خاتون تھیں۔ وہ برٹش آرمی کے انگریز میجر جنرل ڈینیل پینٹ کی بیٹی تھیں۔
والدہ برہمن تھی‘ لکھنو یونیورسٹی سے گریجوایشن کی اور گوکھلے میموریل سکول کلکتہ
میں پڑھانا شروع کر دیا۔ 1931ء میں ایم اے کیا اور دہلی میں پروفیسر بن گئیں۔ ان
کا نام شیلا آئرن پینٹ تھا۔ 1932ء میں اسلام قبول کیا‘ خان لیاقت علی خان سے شادی
کی اور شیلا سے بیگم رعنا لیاقت علی خان بن گئیں۔ ان کے دو بیٹے تھے‘ اکبر علی خان
اور اشرف علی خان۔ یہ دونوں سعادت مند بھی تھے اور عزت دار بھی۔
لیاقت علی خان اور رعنا لیاقت علی خان نے جوانی فراوانی میں
گزاری تھی۔ دنیا جہاں کی نعمتیں ہاتھ باندھ کر سامنے کھڑی رہتی تھیں لیکن یہ لوگ
جب پاکستان آئے تو یہ خالی ہاتھ تھے۔ کراچی میں خان لیاقت علی خان کے نام پر
ہزاروں ایکڑ پر لیاقت آباد کا سیکٹر بنا لیکن اس میں بھی خان لیاقت علی خان نے ایک
انچ زمین نہیں لی۔
یہ جب 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں سید اکبر کی گولی کا
نشانہ بنے اور ان کی اچکن اتاری گئی تو پتا چلا کہ ملک کے پہلے وزیراعظم نے
شیروانی کے نیچے کرتہ نہیں پہنا ہوا تھا‘ بنیان تھی اور وہ بھی پھٹی ہوئی تھی۔ گھر
میں کپڑوں کے صرف تین جوڑے اور دو جوتے تھے۔ اکائونٹ میں چند سو روپے تھے۔ بیگم
اور بچے وزیراعظم ہائوس میں رہتے تھے۔
خواجہ ناظم الدین نئے وزیراعظم بن گئے۔ یہ اس گھر میں آئے تو
پتا چلا لیاقت علی خان کی فیملی کے لیے پورے ملک میں کوئی گھر موجود نہیں۔ سوال
اٹھا کہ یہ لوگ کہاں جائیں گے؟ لہٰذا خواجہ ناظم الدین نے بیگم رعنا لیاقت علی خان
کو ہالینڈ میں سفیر بنا کر بھیج دیا۔ بیگم رعنا ہالینڈ‘ پھر اٹلی اور آخر میں
تیونس میں سفیر رہیں۔ یہ واپس آئیں تو ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں گورنر سندھ بنا
دیا۔ یہ پاکستان کی پہلی خاتون چانسلر بھی رہیں‘ یہ کراچی یونیورسٹی کی چانسلر
تھیں۔ آپ اپوا سے لے کر پاکستان نیشنل وومن گارڈز‘ پاکستان وومن ریزرو‘ پاکستان
کاٹیج انڈسٹریز شاپ‘ ماڈل کالونی برائے کرافٹس‘ گل رعنا نصرت انڈسٹریل سنٹر‘
کمیونٹی سنٹر یا پھر فیڈریشن آف یونیورسٹی وومن اور انٹرنیشنل وومن تک ملک میں
خواتین کا کوئی ادارہ دیکھ لیں، آپ کو خواتین سے متعلقہ ہر بڑے ادارے کے پیچھے بیگم
رعنا لیاقت علی خان ملیں گی۔
یہ جب ہالینڈ میں سفیر تھیں تو ان کے بارے میں ایک واقعہ
مشہور ہوا۔ ہالینڈ کی ملکہ جولیانا ان کی دوست بن گئیں۔ یہ دونوں خواتین اس وقت
پورے یورپ میں مشہور تھیں۔ بیگم رعنا لیاقت تاش کے کھیل بریج کی بہت بڑی ایکسپرٹ
تھیں۔ یہ روزانہ ملکہ کے ساتھ بریج کھیلتی تھیں۔ ایک دن ملکہ جولیانا نے بیگم رعنا
کے ساتھ شرط لگائی اگر تم آج کی بازی جیت گئی تو میں تمہیں اپنا ایک محل گفٹ کر
دوں گی۔ بازی شروع ہوئی اور بیگم رعنا لیاقت علی جیت گئیں۔ ملکہ نے اپنا وعدہ پورا
کیا اور اپنا ایک محل رعنا لیاقت علی خان کو دے دیا اور بیگم صاحبہ نے یہ محل حکومت
پاکستان کے لیے وقف کر دیا۔ آج بھی ہالینڈ میں پاکستان کا سفارت خانہ اسی محل میں
قائم ہے۔
یہ 1990ء میں کراچی میں فوت ہوئیں اور انہیں مزار قائد پر خان
لیاقت علی خان کے پہلو میں دفن کر دیا گیا لیکن یہ ہوں یا خان لیاقت علی خان وہ
اپنی اولاد کے لیے کوئی زمین یا جائیداد چھوڑ کر نہیں گئے۔ آج ان کے صاحب زادے
اکبر علی خان اپنی بیگم دُر لیاقت کے گھرمیں رہتے ہیں اوران کی حالت یہ ہے ان کی
بیگم اپنے بیمار خاوند کے علاج کے لیے وزیراعلیٰ سندھ کو خط لکھنے پر مجبور ہیں۔
ملک کے پہلے وزیراعظم کے صاحب زادے اور بہو ہر ماہ ایک لاکھ 75 ہزار روپے افورڈ
نہیں کر سکتے۔ یہ خان لیاقت علی خان کے ملک میں اپنے ڈائیلیسز کا خرچ پورا نہیں کر
سکتے۔
یہ ملک ان لوگوں کا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو میلوں پر پھیلی
جاگیریں چھوڑ کر اس ملک میں آئے اور پھر پھٹی ہوئی بنیان کے ساتھ دفن ہوئے۔
یہ ملک راجہ صاحب محمود آباد جیسے لوگوں کا ملک تھا۔ وہ محمود
آباد کی ریاست کے راجہ تھے۔ پوری زندگی اپنی رقم سے مسلم لیگ چلائی۔ پاکستان بنا تو کراچی آ گئے اور حکومت سے کوئی گھر، کارخانہ یا
زمین نہیں لی۔ ملک میں جب سیاسی افراتفری پھیلی‘ مارشل لاء لگا تو یہ مایوس ہو گئے،
چپ چاپ اٹھے‘ بیگ اٹھایا اور لندن جا بسے۔ راجہ صاحب محمود آباد کا 1973ء میں لندن
میں انتقال ہوا۔ وہ انتقال سے قبل ہر ملنے والے سے کہتے تھے کہ میں پوری زندگی جن
انگریزوں سے لڑتا رہا‘ مجھے آخر میں انہی انگریزوں کے گھر میں پناہ لینا پڑ گئی
اور میں آج ان کی مہربانی سے اپنا آخری وقت عزت کے ساتھ گزار رہا ہوں۔
یہ سردار عبدالرب نشتر‘ مولوی فضل حق‘ حسین شہید سہروردی اور
خواجہ ناظم الدین کا ملک تھا۔ یہ لوگ ملک بننے سے قبل کروڑ بلکہ ارب پتی تھے لیکن
وہ اس ملک میں آئے‘ عسرت میں زندگی گزاری اور پھر ان کی اولادیں اکبر علی خان کی
طرح علاج اور چھت کو ترستی ہوئی دنیا سے رخصت ہو گئیں جبکہ ان کے اردگرد1700ایکڑ
کا رائے ونڈ بھی بن گیا‘ کراچی کا بلاول ہائوس 64 عمارتیں ہضم کرنے کے باوجود بھی
نامکمل رہا‘ لندن کے ایک فلیٹ کی برکت سے تین سو کنال کا بنی گالہ بھی بن گیا اور
راولپنڈی کی رنگ روڈ میں چند کلومیٹر کا اضافہ کر کے ذلفی بخاری نے اربوں روپے
سمیٹ لیے اور غلام سرور خان کے نام پر نواسٹی کے مالکان نے مارکیٹ میں بیس تیس
ہزار فائلیں بھی بیچ دیں۔
آپ المیہ دیکھیے آج اس ملک میں قائداعظم کے رشتے دار چھت‘
علاج اور سواری کو ترس رہے ہیں‘ خان لیاقت علی خان کی بہو وزیراعلیٰ کو لیاقت علی
خان کے صاحب زادے کے لیے ایک لاکھ 75 ہزار روپے کی امداد کی درخواست کر رہی ہے۔
راجہ صاحب محمود آباد ان انگریزوں کے قبرستان میں مدفون ہیں جن سے لڑ کر انہوں نے
پاکستان حاصل کیا تھا۔ حسین شہید سہروردی بیروت میں لیٹے ہیں، خواجہ ناظم الدین کی
آل اولاد تاریخ کے صفحات میں گم ہو گئی۔ مولوی فضل حق عبرت کی نشانی بن کر ڈھاکہ
میں دفن ہو گئے اور محمد علی بوگرا ملک چھوڑ کر بوگرا گئے اور چپ چاپ وہاں انتقال
کر گئے، جب کہ ملک کے ٹھیکے دار آج بھی چینی‘ آٹے اور ایل این جی سے ایک ایک مہینے
میں چار چار سو ارب روپے کما لیتے ہیں۔ آج لیاقت علی خان کی بہو اس ملک میں پوچھ
رہی ہے کیا یہ ملک ان ٹھیکے داروں کے لیے بنا تھا‘ کیا لیاقت علی خان جیسے لوگوں
نے یہ ملک اس لیے بنایا تھا کہ ان کے نواب ابن نواب بچے علاج کو ترستے رہیں، جب کہ
ذلفی بخاری اور غلام سرور خان جیسے لوگ رنگ روڈ سے اربوں روپے کما لیں؟
یہ ہے آج کا پاکستان‘ ٹھیکے داروں کا ملک۔ ٹھیکے دار مفادات
کے حمام میں ننگے نہا رہے ہیں۔ یہ ایک ایک رات میں وفاداری بدل کر صاف ستھرے ہو جاتے
ہیں جب کہ مالک اور ان کی اولادیں علاج اور عزت کو ترستی ترستی دنیا سے رخصت ہو
جاتی ہیں۔ ملک کے مالکوں کے بچے ڈائیلیسزکا خرچ برداشت نہیں کر پا رہے جب کہ
وزیرصحت ادویات کی قیمت بڑھا کر تین چار ارب روپے جیب میں ڈالتے ہیں اور پارٹی کے
سیکرٹری جنرل بن جاتے ہیں۔ کیا بات ہے؟ ہمیں شاید من حیث القوم انہی احسان
فراموشیوں کی سزا مل رہی ہے‘ ہم شاید اسی لیے پوری دنیا سے جوتے کھا رہے ہیں۔
Sunday, July 25, 2021
پاکستان کے لیے قربانیاں دینے والے خاندان
Wednesday, July 21, 2021
فوج کے کارنامے
Sunday, July 18, 2021
نئی نسل کی توجہ درکار ہے
Saturday, June 26, 2021
نوازشریف کے 35 سال
Tuesday, June 15, 2021
سیاستدانوں کے اخراجات
Monday, May 31, 2021
جوائنٹ فیملی سسٹم
Wednesday, May 26, 2021
برطانیہ کے غریب ترین پیر
Tuesday, May 25, 2021
لیاقت علی خان
Saturday, May 8, 2021
پاکستان کے وڈیروں اور جاگیردار خاندانوں کی اصل تاریخ
پاکستان کے وڈیروں اور جاگیردار خاندانوں کی اصل تاریخ
غلام مرتضیٰ بھٹو۔ شاہ نواز بھٹو
(1888 – 1957)۔ ذوالفقار علی بھٹو (1928 – 1979)۔ نصرت اصفہانی بھٹو، شیعہ ایرانی
لڑکی جس سے بھٹو نے شادی کی (1929 – 2011)۔ نصرت بھٹو کی شہرت ذولفقار علی بھٹو کی
دوسری بیوی کے بطور ہے۔ اس کی اولاد بینظیر بھٹو، مرتضی بھٹو، شاہنواز بھٹو، اور
صنم بھٹو ہیں۔ نصرت بھٹو نسلاً ایرانی صوبہ کردستان سے تعلق رکھتی تھی اور 2010ء
میں فوت ہوئی۔
میں چارلس نیپیئر کی قیادت میں
انگریزوں نے سندھ پہ قبضہ کر لیا اور یہاں سے 1843ء دولت کی لوٹ مار کے لیے ایک خاص طبقہ پیدا کیا جس کے ذمے
عوام سے ظالمانہ لگان یعنی ٹیکس کی وصولی اور زمینوں پہ قبضہ تھا۔ اس سے برصغیر
اور سندھ میں وہ طبقہ پیدا ہوا جسے آج وڈیرا، سردار اور جاگیردار کہا جاتا ہے۔
انگریزوں کی انہی مہربانیوں سے بھٹو خاندان آج بھی برصغیر کے امیر ترین خاندانوں
میں شمار ہوتا ہے۔ برصغیر کے انہی غدار خاندانوں کی مدد سے انگریز اگلے نوے سال
میں برصغیر کی ایک ہزار ملین سٹرلنگ پاؤنڈ دولت اور بے پناہ وسائل لوٹ کر برطانیہ
منتقل کرنے میں کامیاب ہوئے جس سے اس خطے یعنی پاکستان اور ہندوستان میں غربت اور
ثقافتی محرومی کی وہ فضا پیدا ہوئی جو آج بھی قائم ہے۔ خدا بخش خان اور اس کے بیٹے
میر مرتضی خان بھٹو نے انگریزوں اور ان کے حامی سندھی وڈیروں کا راستہ روکنے کی
کوشش کی لیکن سب باری باری وفات پاگئے۔ اس کے بعد میر مرتضی خان کے بیٹے شاہنواز
بھٹو نے انگریزوں سے مفاہمت کی اور سیاسیات میں حصہ لینا شروع کیا جس سے بھٹو
خاندان کی سیاسی زندگی کا آغاز ہوا ۔انگریزوں نے اسے بہت نوازا اور وہ کئی اعلی
عہدوں پہ فائز رہا۔
شاہنواز بھٹو (1888–1957) برطانوی
راج میں لاڑکانہ، سندھ، موجودہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک سیاست دان تھے۔ سر
شاہ نواز بھٹو مشیر اعلی حکومت بمبئی اور جوناگڑھ کی مسلم ریاست میں دیوان تھے۔ وہ
انگریزوں کی بمبئی پریزیڈنسی کا وزیر بھی رہا۔ ان کو برطانیہ سے وفاداری اور ملک و
قوم سے غداری کی وجہ سے پہلے سی آئی ای اور بعد ازاں برطانیہ کی طرف سے سر کا خطاب
دیا گیا۔ بھٹو خاندان سندھ میں برطانوی غاصبانہ قبضے کو مستحکم رکھنے میں ایک اہم
غدار خاندان تھا۔ بھٹو خاندان نے سندھ پہ انگریزوں کا قبضہ مستحکم رکھنے کے لیے
اور عوام پہ اپنا اثرو رسوخ قائم رکھنے کے لیے سندھ کے پیروں کا استعمال کیا۔ یہ
خاندان سندھ کا ایک جاگیردار خاندان تھا جو راجپوت نسل سے تعلق رکھتا تھا۔ اس
خاندان کے ابتدائی افراد جیسا کہ محمد بخش بھٹو نے انگریزوں کے خلاف مزاحمت کی
لیکن بعد کی ساری نسلیں غدار ثابت ہوئیں اور اس پہ اس خاندان کے کئی افراد کو
برطانیہ کی طرف سے سر، نواب اور بہادر کے خطاب دیے گئے۔ اس خاندان کو ملک و قوم سے
غداری کے سلسلے میں بیشمار زمینیں دی گئیں جو سندھ کے غریب مزدوروں سے لوٹی گئی
تھیں۔ ایک وقت تھا کہ یہ خاندان اڑھائی لاکھ ایکڑ رقبے کا مالک تھا جو انگریز دور اور
اس کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت کی صورت میں ملک و قوم کا استحصال کرتا رہا اور آج
تک اس خاندان کا شمار پاکستان کے امیر ترین خاندانوں میں ہوتا ہے جس کی دولت کا
اندازہ کئی ملین ڈالرز میں ہے اور سکھر جیکب آباد عملا ان کی ریاست شمار ہوتے ہیں۔
ان کے بڑے ملک و قوم سے غداری کرکے برطانیہ سے انعامات نہ پاتے تو آج اس خاندان کو
کوئی نہ جانتا ہوتا۔ یہاں تک کہ یہ خاندان جو حقیقی طور پہ انگریز دور میں
تالپوروں کی جگہ برطانیہ کی طرف سے وفاداری کے صلے میں آگے لایا گیا برطانیہ کی
مہربانیوں سے اب بھی نہ صرف سندھ بلکہ پاکستان کے امیر ترین خاندانوں میں شمار
ہوتا ہے اور یہ دولت وہ تھی جو انگریزوں نے برصغیر کے غریب طبقے کو لوٹ کر اپنے ان
غداروں میں تقسیم کی۔
حال یہ تھا کہ خود ایک انگریز مصنف
ڈیوڈ چیزمین کی کتاب
Landlord power in rural indebtedness in colonial Sindh(1865_1901)
کے مطابق سندھ میں وڈیرے سیاہ و سفید
کے مالک تھے اور ان کو برطانیہ کی طرف سے اپنے علاقوں میں بینچ مجسٹریٹ کی حیثیت
حاصل تھی کہ وہ جیسے چاہیں غریب عوام کو ظلم کی چکی میں پیس کے رکھیں لیکن برطانیہ
کے وفادار رہیں اور اس بدلے میں انہیں برطانیہ سے سر، نواب، خان بہادر کے خطاب اور
غریب طبقے سے لوٹی گئی زمینیں ملتی تھیں جس سے نسل در نسل ان کی مالی و سیاسی طاقت
میں اضافہ ہوتا گیا اور یہ چند خاندان آج تک برصغیر میں اعلی عہدوں پہ قابض ہیں
اور غریب عوام پہ ظلم جو انگریز نے شروع کیا آج تک جاری ہے۔ انگریز کے ان وفاداروں
اور ملک و مذہب کے ان غداروں میں وڈیرو غلام قدیر درکھان، میر عبدالحسین خان
تالپور (موجودہ سندھ کی سیاستدان فریال تالپور کے اجداد)، غلام رسول جتوئی (جو
انگریز کی مہربانی سے آج بھی سندھ میں اعلی حیثیت رکھتا ہے)، بھٹو خاندان کے اللہ
بخش بھٹو شامل تھے اور یہ عوامی میٹنگ میں انگریز افسروں کے ساتھ کرسی نشین ہوتے
تھے۔ پاکستان بننے کے بعد اس سیاست کے میدان میں بہت سے ایسے افراد بھی آ نکلے جو
ان انگریز کے بنائے ہوئے گھرانوں سے تعلق نہیں رکھتے تھے لیکن انھوں نے سیاست کے
گر اور چالبازیاں ایسی سیکھیں کہ بڑے بڑے پرانے جغادری سیاسی گھرانوں کو شکست دے
کر اس ملک کی سیاست کے مختار بن گئے۔
حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی کا
خاندان خود کو ”مخدوم“ کہلواتا ہے یعنی وہ خاندان کہ جس کا ہر فرد خدمت کیے جانے
کے لائق ہو۔ مگر تاریخ گواہی دیتی ہے کہ یہ خاندان ماضی میں غاصبین ملک کی والہانہ
خدمت کیلئے کوشاں و گامزن رہا ہے۔ یہ لوگ ایک طرف اولیاء اکرام کے مزارات مقدسہ کے
گدی نشین اور مخدوم بن کر لوگوں کی خدمات و عطیات سمیٹتے رہے اور دوسری طرف گوروں
کو اپنا مخدوم بنا کر قتال ملت میں ان کے حلیف بن کر صلے میں جاگیریں لیتے رہے
ہیں۔ سیاسی خاندانوں کے بارے حقائق سے پردہ اٹھانے والی مشہور تصنیف سیاست کے
فرعون کے مصنف جناب وکیل انجم لکھتے ہیں۔۔۔۔ ”سکھوں کے ابتدائی دور میں موجودہ
شاہ محمود قریشی کے ہم نام لکڑ دادا مخدوم شاہ محمود اس خاندان کے سربراہ اور
درگاہ کا گدی نشین تھے۔ سکھوں کے نامور حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کے باقاعدہ برسر
اقتدار آنے سے پہلے ہی یہ مخدوم کافی زمینوں کے مالک بن چکے تھے اوران کا شمار ملک
کے امیرترین خاندانوں میں ہوتا تھا۔ مابعد 1819ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ملتان
شہر کو فتح کیا تو انہوں نے مخدوموں کی عزت وتکریم کے پیش نظر انہیں ساڑھے تین
ہزار روپے مالیت کی جاگیر عطا کی۔
جناب وکیل انجم لکھتے ہیں کہ جب 1847
میں سکھوں کی قوت لڑکھڑانے لگی اور تاجدار برطانیہ کے انگریزوں نے مطلع سیاست پر
یونین جیک کا جھنڈا گاڑ دیا تو مخدوم شاہ محمود نے اس زمانے میں انگریز سرکار
عالیہ کو جو خفیہ خبریں دیں، وہ ان مخدوموں کے نئے آقا گوروں کیلئے انتہائی مفید و
مددگار ثابت ہوئیں۔ جب انگریز نے پنجاب پر پوری طرح قبضہ کر لیا تو انہوں نے مخدوم
شاہ محمود کو اعلی خدمات کے معاوضے میں ایک ہزار مالیت کی مستقل جاگیر اور تا
زندگی سترہ سو روپے پنشن مقرر کرنے کے علاوہ ایک پورا گاؤں ان کے حوالے کر دیا گیا
“۔ وکیل انجم صاحب مذید لکھتے ہیں کہ ” 1857 کی جنگ آزادی کے خونی ہنگاموں میں جب
ہندوستان کے کچلے ہوئے عوام نے برطانوی استعمار کے خلاف زندگی اور موت کی حدود کو
توڑتے ہوئے آخری جدوجہد کی تو اس نازک مرحلے پر مخدوم شاہ محمود نے انگریز سرکار
دولت مدار کی مستحسن خدمت انجام دی – وہ انگریز کمشنر کو ہر ایک قابل ذکر واقعہ کی
اطلاع بڑی مستعدی سے دیتے رہے۔ اپنی وفاداری کا مزید ثبوت دینے کیلئے انہوں نے
سرکاری فوج میں بیس ہزار سوار اور کافی پیادے بھینٹ چڑھائے۔
سرکار کے اس یار وفادار نے اس امداد
کے علاوہ پچیس سواروں کی ایک پلٹن بنا کر کرنل ہملٹن کے ہمراہ باغیوں یعنی مجاہدین
کی سرکوبی کے لئے روانہ کی اور انگریز آقاؤں کے ساتھ مل کر مجاہدین کے ساتھ خود
لڑائیاں لڑیں ۔ مخدوم شاہ محمود کی اس عملی امداد نے انگریزوں کی قوت بڑھانے میں
اتنا کام نہیں کیا جتنا کہ ایک مذہبی راہنما کی حیثیت سے ان کے ساتھ تعاون نے اثر
کیا- جب مسلمانوں نے دیکھا کہ ایک بڑا مذہبی راہنما انگریزوں کی امداد کررہا ہے تو
ان کے جذبات ٹھنڈے پڑ گئے، جس کا جدوجہد آزادی پربہت برا اثر پڑا – ان خدمات جلیلہ
کے معاوضے میں تیس ہزار روپے نقد کے علاوہ اٹھارہ سوروپے مالیت کی جاگیر اور آٹھ
کنوں پر مشتمل زمین بھی سرکار برطانیہ کی طرف سے عطا گئی ۔ موجودہ شاہ محمود قریشی
کے ہمنام ان کے بزرگ لکڑ دادا شاہ محمود قریشی 1869ء میں وفات پا گئے تو ان کے بعد
ان کا بیٹا بہاول بخش حضرت شاہ رکن عالم رح اور حضرت بہاء الدین رح کے
مزارات کا سجادہ نشین بنا۔
دلچسب بات ہے کہ جید اولیا اللہ کے
اس گدی نشین بہاول بخش کی دستار بندی ایک انگریز ڈپٹی کمشنر کے ہاتھوں بڑی شان
وشوکت سے ہوئی۔ احباب یاد رہے کہ جب انگریزوں اور افغانوں کے مابین جنگ ہوئی تو اس
جنگ میں انگریزو ں کوعبرتناک شکست ہوئی۔ اس جنگ میں بھی جہاں ایک طرف مجاہدین
اسلام آج پاکستان کے علاقے میں واقع پہاڑوں میں افغانوں کے ہمراہ انگریزوں کیخلاف
لڑ رہے تھے۔ تو دوسری طرف جید اولیاءکرام کے گدی نشین انگریزوں کا ساتھ دے کر امت
مسلمہ سے وہ غداری کے عوض وہ انگریز سے اپنی خدمات رذیلہ کا صلہ وصول کر رہے تھے۔
اس جنگ میں نقل وحمل کے لئے حضرت بہاول بخش نے اونٹوں کا ایک دستہ بھی افغان جنگ
میں انگریز سرکار کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ مابعد انہی خدمات کے صلہ میں 1877ء میں
بہاول بخش کو آنریری مجسٹر یٹ مقرر کیا گیا اور کچھ عرصہ بعد وہ ملتان میونسپل
کمیٹی کے ممبر بنا دیے گئے اور انہیں صوبائی درباری کی نشست بھی الا ٹ ہوگئی۔
بہاول بخش کی افغان جنگ میں انگریزوں کیلئے پیش کی گئی خدمات کو سراہنے کیلئے 1880
ء میں لاہور میں ایک شاندار شاہی دربار لگایا گیا تھا۔۔
احباب قابل غور ہے کہ مخدوم شاہ
محمود قریشی کے آبا و اجداد اور مرزا غلام قادیانی کے خاندان کا انگریزوں کی
ایجنٹی کا کردار کم و بیش ایک جیسا رہا ہے۔ دونوں نے برصغیر میں انگریزوں کیخلاف
مسلم مذاحمت کو کچلنے اور گوروں کا تسلط مضبوط کرنے میں ہر مدد فراہم کر کے، گوروں
کے کارندوں کا ایک جیسا کردار بخوبی نبھایا۔ اس مخدوم خاندان کی طرف سے انگریزوں
کا ساتھ دینے اور قوم سے غداری کا زمانہ بھی وہی ہے جس دور میں انگریزوں کا ایک
اور خود کاشتہ پودا مرزا غلام قادیانی انگریزوں کیخلاف آزادی و اسلامی جہاد کی
مخالفت میں مغرب برانڈ دجالی نظریات کی تشہیر کر کے اپنے گورے آقاؤں کی نمک حلالی
کا حق ادا کر رہا تھا-
درگاہ شاہ رکن الدین عالم رح
کے آج کے سجادہ نشین مخدوم شاہ محمود قریشی صاحب بھی گوروں کے دست راست اپنے آبا و
اجداد کے نقش قدم پر گامزن ہیں۔ کچھ تعجب نہیں کہ موصوف کبھی شرم و حیا کے پیکر
پیر صاحب بن کر اپنی مردنیوں کے سر پر دست شفقت دراز فرماتے نظر آتے ہیں۔ اور کبھی
سر سے شرم و حیا اتار کر اسلام اور پاکستان کی دشمن ، شراب کے نشے میں بدمست ھنری
کلنٹن کے ساتھ سر سے سر جوڑے عاشقانہ مزاج دکھا کر امت مسلمہ کے سر شرم سے جھکا
دیتے ہیں۔ صرف پاکستانی پریس ہی میں نہیں بلکہ مغربی پریس میں بھی بیش شمار ایسی
تصاویر شائع ہو چکی ہیں کہ موصوف کو یورپی دوروں میں اکثر شراب کی محفلوں میں جام
لہراتے دیکھا جاتا رہا ہے۔ عوام کیسے بھول سکتے ہیں کہ یہی شاہ محمود قریشی کبھی
پیپلز پارٹی چھوڑ کر نون لیگ میں بھی شامل ہوئے تھے مگر پنجاب کی وزارت اعلی نہ
ملنے پر فوری طور پر پیپلز پارٹی میں واپس لوٹ گئے تھے اور حسب دستورِ سیاہ ست ایک
بار پھر ہوسِ اقتدار میں عمران خان صاحب کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے، ایک محفوظ و
مقبول پلیٹ فارم کی تلاش میں ایک چڑھتے سورج کے پجاری بنے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے
ان کے آبا و اجداد اپنے سابقہ آقا و حلیف سکھوں کی طاقت کے دم توڑتے ہی ان کا ساتھ
چھوڑ کر انگریزوں کے ساتھ جا ملے تھے۔
قوم کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ 1857ء
کی جنگ میں غداری کرنے والے بابا شاہ محمود قریشی ہوں یا اکیسویں صدی میں پرویز
مشرف اور زرداری مافیہ کا حصہ اور امریکہ کا خادم بن کر ملک و ملت کے سودے کرنے
والا موجودہ شاہ محمود قریشی، یہ لوگ نسل در نسل انگریز کے غلام ابن غلام اور
غدارین قوم و ملت ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ایسے ناعاقبت اندیش اور ضمیر فروش
افراد ملک کی ہر ایک سیاسی جماعت میں بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔۔۔۔
بہاول پور میں آباد عربی نزاد قبیلے عباسی کے نواب‘ نواب آف بہاول
پور نے انگریز کے ساتھ وفاداری
نبھائی- لہذا انگریز سرکار نے پاکستان کے قیام تک بہاول پور کی ریاست کا والی عربی
نزاد قبیلے عباسی کو بنائے رکھا۔
ملتان میں آباد عربی نزاد قبیلے
قریشی کے سربراہ اور گدی نشین مخدوم شاہ محمود نے رائے احمد کھرل کی انگریزوں کے
خلاف پنجاب کی آزادی کی تحریک میں انگریز کمشنر کومقامی آبادی کی بے چینی کے متعلق
معلومات اور اطلاعات پہنچائیں اور سرکاری فوج کی مدد کے لیے پچیس سو سواروں کی ایک
ملتانی پلٹن تیار کر کے دی- لہذا انگریزوں نے اس خدمت کے عوض اسے قیمتی
جاگیر’ نقد انعام اور آٹھ کنویں زمین عطاء کی-
ملتان میں آباد عربی نزاد قبیلے گیلانی کے سربراہ اور گدی نشین مخدوم
سید نور شاہ نے انگریز سرکار کا ساتھ دیا۔ لہذا انگریز سرکار نے اس خدمت کے
عوض خلعت اور سند سے نوازا اور بعد میں کاسہ لیسی کے صلے گیلانی خاندان کو جاگیریں
بھی ملیں-
ملتان میں آباد پٹھان قبیلے کے گردیزی خاندان نے انگریز سرکار کا
بھرپور ساتھ دیا۔ لہذا انگریز سرکار نے انگریز کی مدد کر نے کے صلے میں
جاگیریں عطاء کیں-
خان گڑھ میں آباد پٹھان قبیلے کے
نوابزادگان کے جد امجد اللہ داد خان نے انگریزوں کے خلاف تحریک چلانے والوں کو
کچلنے میں انگریزوں کا بھرپور ساتھ دیا- لہذا نگریز سرکار نے اس “ خدمت “ کے عوض
اسے دو بار خصوصی خلعت دی اور انعام میں جاگیریں عطاء کیں- نوابزادہ نصر اللہ ان
کی اولاد سے تھے۔
قصور میں آباد پٹھان قبیلے ممدوٹ نے انگریز کا بھرپور ساتھ دیا چنانچہ
اس خاندان کو قیمتی جاگیر، عہدے اور منصب دیئے گئے-
عیسیٰ خیل میں آباد پٹھان قبیلے کے نیازیوں نے انگریز کا بھرپور ساتھ
دیا چنانچہ اس خاندان کو قیمتی جاگیر، عہدے اور منصب دیئے گئے-
راجن پور میں آباد بلوچ قبیلے مزاری کے سردار امام بخش مزاری نے کھل
کر انگریزوں کا ساتھ دیا- لہذا انگریز سرکار نے انگریز کی مدد کرنے کے صلے
میں اسے سر کا خطاب دیا اور جاگیریں عطا کیں-
راجن پور میں آباد بلوچ قبیلے دریشک کے سردار بجاران خان دریشک نے
انگریزوں کے خلاف تحریک چلانے والوں کے خلاف لڑنے کے لیے دریشکوں کا ایک خصوصی
دستہ انگریزوں کے پاس بھیجا- لہذا انگریز سرکار نے انگریز کی مدد کرنے کے
صلے میں دریشکوں کو جاگیریں عطا کیں-
مکھڈ شریف کے عربی نزاد پیروں نے انگریز کا بھرپور ساتھ دیا چنانچہ
اس خاندان کو قیمتی جاگیر، عہدے اور منصب دیئے گئے-
لاھور میں آباد اہل تشیع ایرانی نسل
قزلباش سردار علی رضا نے ایک گھوڑ سوار دستہ تیار کر کے جنگ آزادی میں لڑنے والے
مسلمان اور ھندو سپاھیوں کے خلاف انگریز کو بھیجا۔ اسی دستے کے ساتھ علی رضا کا
بھائی محمد تقی خان تھا جو مجاھدوں کے ساتھ لڑائی میں مارا گیا- قزلباشوں کو جنگ
کے بعد خطاب ‘ سند ‘ وظیفے اور 147 دیہات کی تعلقہ داری سونپ دی گئی-
لاھور کے کلاًں شیخ خاندان کے سربراہ شیخ امام دین نے جنگ آزادی میں
دو دستے خصوصی طور پر دھلی بھجوائے جنھوں نے حریت پسندوں کا خون بہایا۔ انہی خدمات
کی بدلے انگریز نے ان کو بہت بڑی جاگیر بخشی-
گجرانوالہ کے چٹھہ خاندان کے جان محمد نے1857 میں انگریز کا بھرپور
ساتھ دیا چنانچہ اس خاندان کو قیمتی جاگیر، عہدے اور منصب دیئے گئے-
سرگودھا کے ٹوانوں کے گھڑ سواروں نے دھلی کی تسخیر میں بہادری کے خوب
جوھر دکھائے چنانچہ انہیں خطاب، پنشن اور لمبی چوڑی جاگیریں ملیں-
خانیوال کے ڈاھوں نے انگریز کا بھرپور ساتھ دیا چنانچہ اس خاندان کو
قیمتی جاگیر، عہدے اور منصب دیئے گئے-
کالاباغ کے نوابوں نے انگریز کا بھرپور ساتھ دیا چنانچہ اس خاندان کو
قیمتی جاگیر، عہدے اور منصب دیئے گئے-
ملتان کے مشہور معروف قریشی خاندان کے مخدوم شاہ محمود نے 1857 نے
انگریز کمشنر کومقامی آبادی کی بے چینی کے متعلق معلومات اور اطلاعات پہنچایئں اور
سرکاری فوج کی مدد کے لیے پچیس سواروں کی ایک ملتانی پلٹن تیار کر کے دہلی
پہنچائی- اس کی خدمت کے عوض اسے قیمتی تحفے دیے گئے۔
کھرلوں کا وڈیرا احمد خان انگریز کا جاسوس بنا رہا اور جنگ کے بعد
اسے خان بہادر کا خطاب خلعت اور وظیفہ کے علاوہ جاگیر بھی دی گئی-
جھنگ کے سیًال سردار بھی کسی سے پیچھے نہ رہے انہوں نے بھی انگریز
فوج کی مدد کے لیے ایک فوج بھیجی جس پر انہیں جاگیریں اور خلعتیں ملیں-
سرگودھا کے ٹوانوں کے گھڑ سواروں نے دہلی کی تسخیر میں بہادری کے خوب
جوہر دکھائے چنانچہ انہیں خطاب، پنشن اور لمبی چوڑی جاگیریں ملیں-
اسی قسم کی غدًارانہ خدمات کے لیے انگریز نے نونوں، پند دادن خان کے
کھوکھروں، جودھروں، گھیبوں، خانوں، مکھڈ شریف کے پیروں، اعوانوں، کالاباغ کے
نوابوں، عیسیٰ خیل کے نیازیوں اور کئی دوسرے سرکردہ خاندانوں کو عزت، خطاب، وظیفے
اور وسیع جاگیریں عطا ہویئں- پاکستانیوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ شہیدوں کے ساتھ غداری
کی وجہ سے انگریز دور میں سر بلند ہونے والوں کی اولاد آج بھی ممتاز اورمعزز ہے۔
برصغیر میں قدم جمانے کےلئے انگریزوں
نے یہاں کے وڈیروں‘ جاگیرداروں‘ نوابوں‘ شہزادوں‘ سول‘ پولیس اور آرمی سروس کے
ممبران پر مسلسل نوازشات کے ذریعے وفاداری یقینی بنائی۔ نتیجتاً یہ مراعات یافتہ
لوگ انگریزوں سے بھی زیادہ انگریزوں کے وفادار ثابت ہوئے۔ پھر ان کے ذریعہ سے انگریزوں
نے بقیہ عوام کو قابو میں رکھا۔ اب انگریزوں نے ان لوگوں کو ترغیب دی کہ وہ اپنے
بچوں کو پڑھائیں۔ یہ کلاسز طویل عرصہ سے انگریزوں کی سروس میں تھیں اور ان کی
مراعات یافتہ بھی تھے لہٰذا وفاداری کے لحاظ سے بھی قابل اعتماد تھے۔ انگریزوں کی
سرپرستی انہیں خوب راس آئی اور خوب ترقی کی۔ ان لوگوں کی اولادوں کو فوج میں لانے
کا مقصد ان کلاسز کی مسلسل وفاداری یقینی بنانی تھی اس لئے انگریزوں نے انکے بچوں
کےلئے خصوصی تعلیم کا بندوبست کیا۔ ان کےلئے چیفس کالج جیسے کئی ایلیٹ تعلیمی
ادارے کھولے۔
ملٹری اور کیڈٹ کالجز اسی دور میں
متعارف کرا ئے گئے تھے۔ ان ایلیٹ تعلیمی اداروں میں سرداروں‘ جاگیرداروں اور
نوابوں وغیرہ کے بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی تھی بلکہ انہیں چھوٹی عمر میں ہی ان
اداروں کی نرسری برانچز میں داخل کیا جاتا تھا جہاں انگریز آیائیں انکی تربیت
کرتیں۔ بلوچ سرداروں میں مری‘ بگٹی‘ مزاری اور دیگر اہم قبائل کے بچوں کو بچپن میں
ہی داخل کیا جاتا تھا۔ شیرمحمدمری‘ محمد اکبر خان بگٹی‘ میر بلخ شیرمزاری اورمیر
شیر بار خان مزاری وغیرہ کو اسی پالیسی کے تحت تعلیم دی گئی بلکہ اعلیٰ تعلیم
کےلئے انہیں انگلینڈ بھی بھیجا گیا۔
ایسے لوگوں کو تعلیم دینے سے انگریزوں کودو اہم فائدے ہوتے۔ ایک تو
ان لوگوں نے انگریزی علم اپنے اپنے علاقوں میں بلند رکھا جس سے انگریزوں کو کسی
قسم کی بغاوت کا خطرہ نہ رہا۔ دوسرا اس دور میں تحریک آزادی زور پکڑ رہی تھی اور یہ لوگ تحریک
آزادی کے سخت مخالف تھے۔ ان انگریزی سکولوں کے تعلیم یافتہ نوابزدگان کی وجہ سے
انگریز سامراج کو سہارا ملا۔ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے انگریزوں سے بھی پہلے اپنے
دیس کے قوم پرستوں کا مقابلہ کیا۔ اگر ان لوگوں کا بس چلتا تو یہ برصغیر کو کبھی
آزاد نہ ہونے دیتے۔.
برصغیر میں برطانوی اقتدار کی توسیع
کے دوران، بلوچ سرداروں کو نواب کے خطاب کی پیشکش کرتے ہوئے انکی حمایت حاصل کی
اور یوں برطانوی اپنی نئی ریاست کی مغربی سرحد میں نوآبادیاتی طاقت کو برقرار
رکھنے میں کامیاب ہوئے۔ برِصغیر کی تقسیم کے بعد یہی طرزِ عمل پاکستان کے وڈیروں
اور جاگیرداروں کو ورثہ میں ملا۔ سادہ الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں
حکمرانی چھلانگ لگا کران روایتی جاگیرداروں اور وڈیروں کے ہاتھ آئی۔ اسی صورتحال
میں ملٹری اور سول بیوروکریسی جس کی تربیت برطانوی سامراج نے خود کی تھی، کے ساتھ
ان جاگیرداروں اور وڈیروں کا تضاد بننا عین فطری تھا۔ یہ وڈیرے اور جاگیردار جو
یونینسٹ پارٹی کے پلیٹ فارم سے پاکستان کی تخلیق سے چند سال ہی قبل مسلم لیگ میں
شامل ہوئے تھے، اپنی جاگیروں اور زمینوں کے تحفظ کے لئے اور اپنے استحصال کو قائم
رکھنے کے لئے ملک کی سیاست میں گھس آئے۔ ایسا کرنا اُنکی مجبوری بھی تھا اور ضرورت
بھی۔
نہری نظام انگریز نے ریونیو حاصل
کرنے کے لیے بنایا۔ ریلوے افغانستان تک فوجی ساز و سامان پہنچانے کے لیے اور اسکول
و اسپتال براؤن صاحبوں (جو گورے صاحبوں کے حاشیہ بردار تھے) کے لیے۔ ان میں سے
کوئی بھی چیز ایسی نہیں تھی جس سے برصغیر کا غریب طبقہ خوشحال ہوا بلکہ یہ طبقہ
ہمیشہ انگریزوں اور ان کے دلال وڈیروں سرداروں کے ظلم کی چکی میں پستا رہا اور اب
تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ برطانیہ نے برعظیم پر اپنی فتوحات کا خاتمہ 1849ء میں پنجاب
پر قبضہ کرنے کے بعد مکمل کیا اور شاہی قلعہ لاہور پر برطانیہ نے اپنا جھنڈا
لہرایا۔ اس پورے خطے کے انسانوں کو سیاسی طور پر غلام بنانے کی مہم کا یہ آخری
معرکہ تھا۔ لاہور جو پہلے ہی تہذیب کا مرکز تھا اور مغلیہ سلطنت کا مضبوط سیاسی
قلعہ، اس شہر میں برطانیہ نے نوآبادیاتی مقاصد کے پیش نظر یہاں پر تعلیمی نظام کی
بنیاد رکھنی شروع کی۔ 1864ء میں گورنمنٹ کالج لاہور کے بعد 1886ء میں دو سو ایکٹر
رقبے پر ایچی سن کالج کی بنیاد رکھی گئی۔ دو جنوری 1886ء کو اس لاہور میں چیفس
کالج کی بنیاد رکھی گئی تھی جس کا نام 13 نومبر 1886ء کو تبدیل کر کے ایچی سن کالج
رکھ دیا گیا۔
اس بورڈنگ کالج میں ابتدائی طور پر
پنجاب بھر کے جاگیردار، وڈیرے اور پھر برطانیہ کے لیے بطور سیاسی ایجنڈ کام کرنے
والے خاندانوں کے بچوں کے لیے تعلیم کا بندوبست ہوا۔ ایچی سن کالج میں پہلے دن سے
ہی بھاری فیسوں کی وجہ سے یہاں پر صرف انہی خاندانوں کے بچوں کی ذہنی آبیاری کی
جانے لگی جس کا مقصد مستقبل کے لیے برطانیہ کو اپنے مفادات کے تحفظ کی
خاطروفاداروں کی نئی پود تیار کرنا تھی۔ اس کالج کی خاص بات یہ تھی کہ یہاں پر
نافذ ہونے والے تعلیمی نظام اور نصاب تعلیم کو نوآبادیاتی سانچے میں ڈھالا گیا اس
کے بعد یہ کالج پھلنے پھولنے لگا۔ برطانیہ کے وفادار پنجاب کے خاندان ہی نہیں بلکہ
سندھ کے جاگیرداروں کے بچوں کو بھی اسی کالج میں داخلے دیے گئے۔ جاگیردارخاندانوں
کا یہ وہ ٹولہ تھا جو 1857ءکی جنگ آزادی میں قومی غداری کا مظاہرہ کیا اور
انگریزوں کی وفاداری کے مرتکب ہوکر برطانیہ کی فتوحات کے جھنڈے پنجاب میں بھی بلند
کرائے۔ ایچی سن کالج میں اس نئی وفادارنسل کی تیاری میں بیوروکریسی کا وہ طبقہ بھی
تیار ہوا جو برطانوی سامراج کے ساتھ ملکر اس قوم پر غلامی مسلط کرنے میں انگریزوں
کی وفاداری کرتا رہا۔
ایچی سن کالج کو یہ بھی اعزاز حاصل
ہے کہ 130سالوں سے یہاں پر صرف اشرافیہ کے بچوں کو پڑھایا جاتا ہے اور آزادی کے
بعد بھی خود کو برہمن تصور کرنے والی پاکستانی اشرافیہ کے بچوں کو ہی ایچی سن کالج
میں داخلہ ملتا ہے۔ عوامی ٹیکسوں پر پلنے والے یہ انسان دشمن پاکستانی برہمن باقی
ساری عوام کو شودر سمجھتے ہیں۔ 1947ء سے لیکر آج تک سیاسی اشرافیہ نے بیوروکریسی
کے توسط سے ایچی سن کالج پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ اس کالج میں اشرافیہ کے بچوں کی جدید
نوآبادیاتی دور کے تقاضوں کے مطابق ذہنی آبیاری کی جارہی ہے اور پھر یہاں کے فارغ
التحصیل طلباء بیرونی ممالک اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد پاکستان پر سیاسی اور
بیوروکریسی کی شکل میں مسلط کر دیے جاتے ہیں۔ سابق وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود
قریشی، اکبر بگٹی، چوہدری نثار علی خان،عمران خان، پرویز خٹک، فاروق لغاری، سردار
ایاز صادق،غلام مصطفی کھر سمیت کتنے ایسے نام اوربھی موجود ہیں جو ملکی سیاست پر
چار دہائیوں سے قابض ہیں ۔
آج تک سندھ اور پنجاب کی ستر سے اسی
فیصد زمین پہ یہی سردار، وڈیرے اور جاگیردار قابض ہیں جو اس علاقے میں بسنے والے
غریبوں سے چھین کر برطانیہ کی طرف سے اس علاقے کے غداروں کو تحفے میں دی گئی تھی۔ ان
جاگیرداروں کو نسل در نسل وفادار رکھنے کے لیے ان کی ذہن سازی کے مقاصد کے لیے
ایچی سن کالج لاہور، میو کالج اجمیر اور تعلق دار کالج اودھ قائم کیے گئے جہاں کسی
غریب کا داخلہ لینا بھی محال تھا۔ مسلم لیگ میں قائد اعظم کے سوا اکثر قائدین یہی
وڈیرے، جاگیردار اور سردار تھے جو پاکستان بنتا دیکھ کر اپنی وڈیرا شاہی کی حفاظت
کے لیے مسلم لیگ میں شامل ہوگئے تھے اور ان وڈیروں نے ملک میں چلنے والی ان تمام
زمینی اصلاحات کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیا جس سے ان کی وڈیرا شاہی خطرے میں پڑتی
ہو۔
اب حال یہ ہے کہ پاکستان میں1970ء سے
اب تک597 بااثر خاندان حکومت پر قابض ہیں۔ ان خاندانوں میں سے 379 کا تعلق پنجاب
سے، 110 کا سندھ، 56 کا کے پی کے، 45 کا بلوچستان جبکہ 7 کا تعلق وفاق کے زیر
انتظام قبائلی علاقوں سے ہے۔ جنوبی پنجاب میں اب یہ شرح 64 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ ایک
رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں اب یہ شرح 44 فیصد، سندھ میں41 فیصد، کراچی میں9 فیصد،
کے پی کے میں28 فیصد اور فاٹا میں18 فیصد تک جاپہنچی ہے۔ 1990ء کے نگران وزیراعظم
غلام مصطفیٰ جتوئی کے 11افراد مختلف اسمبلیوں میں رہے۔ 2008ء میں جتوئی کے 4 بیٹے
ملک کے تینوں قانون ساز اداروں میں موجود تھے۔ بااثر سیاسی خاندانوں میں لغاری،
کھوسہ، خان، سید، بگٹی، مرزا، چوہدری، مزاری، زرداری، مروت، شریف، بھٹو اور دیگر
خاندان شامل ہیں، موجودہ وزیراعظم نوازشریف کے خاندان کے کئی افراد حکومت میں ہیں
جن میں اسحاق ڈار، حمزہ شہباز، مریم نواز، کیپٹن(ر)صفدر اور دیگر شامل ہیں، چوہدری
ظہور الٰہی کے خاندان سے چوہدری شجاعت، پرویز الٰہی، مونس الٰہی، شفاعت حسین،
لغاری خاندان میں سے فاروق لغاری، اویس لغاری، سمیرا ملک، عائلہ ملک، مینا لغاری،
جمال خان لغاری، رفیق حیدر لغاری، محمد خان لغاری، محسن لغاری، یوسف لغاری شامل
ہیں۔ کھر خاندان کے بہت سے لوگ حکومت میں رہے ہیں۔ زرداری خاندان سے فریال تالپور
سمیت کئی لوگ حکومت میں آئے ہیں۔ اور ان میں سے اکثر خاندان انگریزوں سے وفاداری
کے صلے میں جاگیریں حاصل کرکے مالی و سیاسی اقتدار حاصل کرنے کے قابل ہوئے۔ انگریز
سے وفاداری کے صلے میں جاگیریں حاصل کرنے والے لغاری خاندان کی رحیم یارخان میں
1920 میں بننے والی رہائش گاہ کی قلعہ نما دیواریں، چھتیں اور کمروں میں پڑا
فرنیچر آج بھی کسی بادشاہ کے دربار کا منظر پیش کرتے ہیں۔
پاکستان جمہوریت اور 22 کروڑ عوام کو
چند ہزار وڈیروں، سرمایہ داروں، کا رخانہ داروں سیاست دانوں نے یرغمال بنا یا ہے
اور 70 سال سے سیاسی حکمران پاکستان کے 22 کروڑ عوام کی قسمت سے کھیل رہے ہیں۔ یہ
گنے چُنے خاندان تقریباً 7 ہزار مُنظم سرمایہ داروں، کا رخانہ داروں، جاگیر داروں،
نوابوں پر مشتمل ہے جو آبادی کا 0.0028 فی صد بھی نہیں بنتا مگر انہوں نے 22 کروڑ
عوام کو یر غمال بنایا ہوا ہے۔ یہ خاندان اور روایتی سیاست دان پاکستان کے عوام کو
اقتدار کے نیٹ میں گھسنے نہیں دیتے۔
ان خاندانوں میں بھٹو خاندان (سر شاہنواز بھٹو، پھر ذوالفقار علی
بھٹو، بے نظیر بھٹو، غنوی بھٹو، بلاول بھٹو زرداری اور فاطمہ بھٹو)،
شریف خاندان (نواز شریف تین دفعہ وزیر اعظم، شہباز شریف وزیر اعلیٰ
پنجاب، نواز شریف کی اہلیہ قومی اسمبلی ممبر، مریم نواز اور اُنکے شریک حیات کیپٹن
صفدر قومی اسمبلی ممبر، حمزہ شریف ممبرصوبائی اسمبلی)
باچا خان فیملی (خان عبدالغفار خان، ڈاکٹر خان، پھر ان کے بیٹے ولی
خان، بہو نسیم ولی خان، فرزند ولی خان اسفند یار ولی اور اب اسفندیار ولی کا بیٹا
ایمل اور بھانجا امیر حیدر ہوتی)
مولانا مُفتی محمود فیملی (مُفتی محمود صاحب وزیر اعلیٰ سرحد، پھر
مولانا فضل الرحمان، بھائی عطاء الرحمان اور اب ان کا بیٹا اور داماد)
شیر پائو فیملی (حیات محمد خان شیر پائو، شہادت کے بعد بھائی آفتاب
شیر پائو، اور اب فرزند آفتاب احمد شیر پائو سکندر شیر پائو، سینئر وزیر)
ارباب فیملی (ارباب نیار سابق وفاقی
وزیر، ارباب جہانگیر سابق زیر اعلیٰ ، بیٹا ارباب عالمگیر سابق وفاقی وزیرمواصلات
اور انکی اہلیہ عا صمہ عالمگیر)،
ہوتی فیملی(محمد علی خان سابق وزیر تعلیم، عبد الغفور ہوتی سابق
ریلوے وزیر)
چوہدری فیملی(چوہدری ظہور الٰہی، چوہدری شجاعت حسین، چوہدری پر ویز
الٰہی، چوہدری وجاہت حسین اور اب چوہدری مونس الٰہی)
سیف اللہ فیملی(بیگم کلثوم سیف اللہ، ایم این اے، سلیم سیف اللہ، ایم
این اے اور ایم پی اے، ہمایوں سیف اللہ، انور سیف اللہ)،
لغاری فیملی (فاروق احمد خان لغاری، سابق صدر، اویس لغاری وفاقی
وزیر، ایم پی اے اور ایم این اے)
مروت فیملی (حبیب اللہ خان جسٹس مغربی پاکستان، شاہ نواز خان، سابق
چیف جسٹس کے پی کے)
مزاری فیملی (بلخ شیر مزاری وزیر اعظم، شیر باز خان مزاری قائد حزب
اختلاف، شوکت مزاری سابق ایم پی اے پنجاب اسمبلی سپیکر، شیریں مزاری ایم این اے)
سومرو خاندان (خان بہادر اللہ بخش سومرو، دو دفعہ سندھ کے وزیر
اعلیٰ، الٰہی بخش سومرو، سپیکر قومی اسمبلی وفاقی وزیر، رحیم بخش سومرو وزیر سندھ،
محمد میاں سومرو وزیر اعظم، صدرپاکستان،سینیٹر و گو رنر سندھ)
زرداری فیملی (حاکم زرداری، آصف
زرداری، بلاول زرداری، فر یال تالپور، عزراء پلیجو)
ترین فیملی(ایوب خان صدر پاکستان فیلڈ مارشل، گوہر ایوب، عمر ایوب ،
یوسف ایوب)
رائو فیملی (رائو محمد ہاشم خان، رائو محمد اجمل خان، رائو سکندر
اقبال، رائو قیصر علی خان، رائو محمد افضال)
قاضی فیملی (قاضی عبدالمجید عابد 4 بار وفاقی وزیر، فہمیدہ مرزا،
سپیکر قومی اسمبلی، تین دفعہ ایم این اے، ذوالفقار مرزا، صوبائی وزیر،
پیر فیملی (پیر مظہرا لحق، کئی بار وزیر، ما روی مظہر ، صوبائی وزیر
سندھ،
پیر زادہ فیملی(شریف ا لدین پیر زادہ، 1973 آئین کے آر کیٹک، وفاقی
وزیر قانون، عبدالحفیظ پیر زادہ، سابق وزیر تعلیم،
نون فیملی (فیروزخان نون وزیر اعظم، وزیر خارجہ اور وزیر اعلیٰ
پنجاب، انور خان نون، سابق ایم این اے، امجد خان نون ، ضلع ناظم، وقارالنساء نون
بھٹو خاندان کی قانونی مشیر،
منہاس فیملی (اکبر خان فورسٹار جنرل، افتخار خان ، پہلے نامزد چیف آف
آرمی سٹاف، عفت لیاقت علی وفاقی وزیر، ریاض احمد صوبائی وزیر پنجاب، میاں فیملی آف
باغبانپورہ جسٹس میاں شاہ دین، سر میاں
محد شفیع، صدرآل انڈیا مسلم لیگ، میاں شاہ نواز، میاں افتخار الدین سابق سیاست دان،
گبول فیملی: اللہ بخش گبول ممبربمبئی اور سندھ قانون ساز اسمبلی، دو
دفعہ کراچی کے میئر، نبیل گبول، سابق وفاقی وزیر جہاز رانی،
جدون فیملی: اقبال جدون وزیر اعلیٰ سرحد، امان اللہ جدون ، وزیر
پٹرولیم،
کھر فیملی: مصطفی کھر، وزیر اعلیٰ پنجاب ، غلام ربانی کھر ایم این
اے، حنا ربانی کھر، سابق وزیر خارجہ،
خٹک فیملی: حبیب اللہ خٹک، علی قلی خان، فوجی جنرل، غلام فاروق خان،
قانون ساز، نصراللہ خٹک وزیر اعلیٰ سر حد، یوسف خٹک، اجمل خٹک، پرویز خٹک ( وزیر
اعلیٰ کے پی کے،
کھوکر خاندان ، بگتی خاندان ، مگسی خاندان ، اچکزئی فیملی، پرنس
اورنگ زیب فیملی، ترہ کئی خاندان، جتوئی خاندان اور اسکے علاوہ دیگر اور بھی
خاندان ہیں جو پاکستان پر 70 سال سے حکومت کر رہے ہیں۔
پاکستان کے سیاسی وڈیرے عقیل عباس جعفری کی اردو تصنیف ہے جس
میں آپ نے پاکستان کے سیاسی خاندانوں کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔ پاکستان کے سیاسی
وڈیرے سیاست کے موضوع پر ان کی پہلی کتاب ہے جس نے شائع ہوتے ہی تہلکہ مچا دیا۔
یہی وہ کتاب تھی جس نے سیاست کی دنیا میں سیاسی وڈیرے کی اصطلاح کو متعارف کروایا۔
صوبہ سرحد کے سیاسی خاندانوں کا تذکرہ شروع ہوتا ہے تو وہ ارباب، رند، بلور، ترین،
تنولی، جدون اور خٹک خاندانوں کا پس منظر بیان کرتے ہوئے راجگان گکھڑ، شیر پاؤ،
کنڈی، گنڈا پور اور محمد زئی تک آتے ہیں اور پھر ہمیں میاں گُل، ناصر، ہوتی اور
یوسف زئی خانوادوں سے متعارف کراتے ہیں۔ بلوچستان کی طرف بڑھتے ہیں تو اسی الفبائی
ترتیب میں ہمیں اچکزئی، بزنجو، بگٹی، جام، جمالی، جوگیزئی، خاندانوں سے ملواتے
ہوئے خان آف قلات، ڈومکی، رند، رئیسانی، زہری، کھوسہ، کھیتران خاندانوں تک لے جاتے
ہیں اور وہاں سے محمد حسنی، مری، مگسی، مینگل اور نوشیروانی خاندان تک ہمیں اپنا
ہم سفر بناتے ہیں۔ صوبہ سندھ کے جن سیاسی خاندانوں پر عقیل عباس جعفری نے خامہ
فرسائی کی ہے ان میں ارباب، انڑ، بجارانی، بھٹو، پٹھان، پگاڑا، پیرزادہ، تالپور،
شاہ (تھرپارکر)، جام، جاموٹ، جتوئی، جونیجو، چانڈیو، شاہ (خیر پور)، زرداری،
سید(سن)، سومرو، پیر (سہیون) شیرازی، عباسی، قاضی، کھوڑو، گبول، لوند، شاہ
(مٹیاری)، مخدوم، مری، ملک، مہر، شاہ (نواب شاہ)، وسان اور ہارون خاندان شامل ہیں۔
خاندانوں کی سب سے بڑی تعداد قابلِ
فہم طور پر پنجاب کے حصّے میں آئی ہے جن میں الپیال، بابر پٹھان، پراچے، ٹوانے، جنجوعے،
چٹھے، چوہدری، چیمے، خلف زئی پٹھان، دریشک، دستی، دولتانے، ڈاہا، روکڑی، رئیس،
سردار، سیّد، عباسی، قریشی، قصوری، نواب آف کالا باغ، کھٹڑ، کھر، کھرل، کھوسہ،
گردیزی، گیلانی، لغاری، مخدوم زادے، مزاری، موکل، نوابزادے، نکئی، نون، وٹو اور
وریو خاندان شامل ہیں۔جمہوری سیاست کا دور آئے یا مارشل لاء کے ڈنڈے کی حکمرانی،
ہر صورت میں قیادت جاگیردار طبقے کی ہوتی ہے۔ کبھی یہ ری پبلِکن کا نام اختیار
کرتے ہیں، کبھی کنونشن لیگ کے پرچم تلے جمع ہوجاتے ہیں، کبھی بھٹو کی اسلامی
سوشلزم میں محفل جماتے ہیں، کبھی ضیاء الحق کی مجلسِ شوریٰ میں نظر آتے ہیں اور
کبھی نواز شریف کا نفسِ ناطقہ بن جاتے ہیں عرض ہر عہد اور ہر اُلٹ پھیر میں انھی
کا سِکہ رواں ہوتا ہے اور حد یہ ہے کہ حزبِ اقتدار ہی نہیں، حزبِ اختلاف بھی انہی
سرداروں، وڈیروں، نوابوں اور خانوں پر مشتمل ہوتا ہے اور سچ یہ ہے کہ آج بھی
برطانیہ ان ملک و مذہب دشمن لوگوں کے ذریعے برصغیر پہ حکومت کر رہا ہے۔ کب تک یہ
قوم سوتی رہے گی۔