Monday, October 11, 2021

Maryam & Safdar wedding

Real Name Mehrunnisa Safdar
Nickname Mehrunnisa
Profession Self- Employed
Famous For Grand-Daughter of Former Prime Minister of Pakistan Nawaz Sharif
Marriage Date 2015
Caste Muslim
Husband Name Raheel Munir
Husband Caste Muslim
Marital Status Married
Son N/A
Physical Status 
Age 28
Height
In centimeters- 167 cm
In meters- 1.67 m
In Feet Inches-5’6”
Weight
In Kilograms- 55 kg
In Pounds- 121 lbs
Eye Colour Black
Hair Colour Light Brown
Shoe Size 4 US
Personal Information
Date of Birth 23 November 1993
Birth Place Lahore, Pakistan
Zodiac sign Leo
Nationality Pakistani
School Name Private School
College Name N/A
Qualifications –
Family Profile
Father Name Muhammad Safdar Awan
Mother Name Maryam Nawaz
Siblings Sister: Mahnoor Safdar
Brother:- Muhammad Junaid Safdar

Career 
Source Of Income N/A
Appeared In N/A
Net Worth, Salary N/A
Mehrunnisa Safdar

https://arealnews.com/mehrunnisa-safdar/?amp

Sunday, September 12, 2021

قائداعظم ‏کی ‏جائداد

"قائد اعظم اپنی وصیت کی رو سے کھرب پتی تھے"

قائداعظم کے اثاثوں کی مالیت کا جائزہ اگر آج کے دور سے کیا جائے تو ان کی حیثیت دو ارب ڈالر سے زائد بنتی ہے۔

تحریر: سجاد اظہر

نوٹ: (ان لوگوں کے لیے جنہیں آج کل کے سیاست دانوں کے چند لاکھ ڈالرز کے فلیٹس سے کرپشن کی خوشبو آتی ہے۔)

قائداعظم جب اپنی علالت کے دن کوئٹہ میں گزار رہے تھے تو یکم ستمبر 1948 کو انہیں برین ہیمبرج ہوا۔ ان کے ڈاکٹر الہٰی بخش نے محترمہ فاطمہ جناح کو کہا کہ انہیں جلد کراچی لے جانا چاہیے کوئٹہ جیسے شہر کی بلندی ان کے لیے موزوں نہیں ہے۔

ان کے خون میں انفیکشن بھی ظاہر ہوا تھا اور انہیں سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی۔ ڈاکٹرز نے بتایا کہ اب امید کی کوئی کرن باقی نہیں ہے اور کوئی معجزہ ہی انہیں بچا سکتا ہے۔ جب ڈاکٹرز نے انہیں کراچی لے جانے کے لیے اجازت مانگی تو انہو ں نے کہا کہ ’ہاں مجھے کراچی لے چلو میں وہیں پیدا ہوا تھا اور وہیں دفن ہونا چاہتا ہوں۔‘

اس کے ساتھ ہی ان کی آنکھیں بند ہو گئیں۔ محترمہ فاطمہ جناح اپنی کتاب ’میرا بھائی‘ میں لکھتی ہیں کہ میں ساتھ کھڑی ہو گئی، نیم بے ہوشی میں ان کے ٹوٹتے الفاظ سن سکتی تھی۔ ’کشمیر۔ ۔ ۔ انہیں۔ ۔ ۔ فیصلہ کرنے کا۔ ۔ ۔ حق دو۔ ۔ ۔ آئین۔ ۔ ۔ میں اسے۔ ۔ جلد ہی۔ ۔ مکمل کروں گا۔ ۔ مہاجرین۔ ۔ ۔ ان کی۔ ۔ ہر ممکن۔ ۔ ۔ امداد۔ ۔ دیجیے۔ ۔ ۔ پاکستان۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘

یہ قائد کا آخری پیغام تھا، اس کے بعد کراچی کے ہسپتال میں 11 ستمبر کو ان کی زبان سے کلمہ طیبہ نکلا اور ان کا سر ایک جانب ڈھلک گیا۔ ہسپتال پہنچنے سے پہلے جب ان کی ایمبولینس راستے میں کھڑی ہو گئی تو فاطمہ جناح لکھتی ہیں کہ دوسری ایمبولینس آنے میں سڑک پر ایک گھنٹہ انتظار کرنا پڑا انہوں نے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو میں نے کہا کہ ’ایمبولینس خراب ہو گئی ہے۔‘

ایمبولینس کیوں خراب ہوئی؟ قائداعظم کے علاج معالجے میں کیا کیا غلطیاں ہوئیں؟ انہیں بیرون ملک کیوں نہیں لے جایا گیا؟ لیاقت علی خان سے ملاقات کے بعد وہ اتنے مایوس کیوں ہو گئے تھے کہ انہوں نے اپنی بہن سے یہ کیوں کہا تھا کہ اب وہ مزید زندہ نہیں رہنا چاہتے؟ اس موضوع پر گذشتہ سالوں میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔

قائداعظم اگر بانیِ پاکستان نہ ہوتے تو بھی مالی لحاظ سے وہ اتنے مستحکم تھے کہ اپنا علاج دنیا میں کہیں بھی کرا سکتے تھے۔ ان کے اثاثوں کی مالیت کا جائزہ اگر آج کے دور سے کیا جائے تو ان کی حیثیت دو ارب ڈالر سے زائد ہو سکتی ہے جو روپوں میں ساڑھے تین کھرب بنتی۔

معروف محقق اور نامور بیوروکریٹ ڈاکٹر سعد خان نے 2020 میں چھپنے والی اپنی کتاب ’محمد علی جناح، دولت، جائیداد، وصیت‘ میں قائداعظم کے اثاثوں کے متعلق بہت تفصیل سے لکھا ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ قائد اعظم نے اپنی وصیت 30 مئی 1939 کو لکھی تھی جو اسماعیلی مروجہ قانون کے تحت تھی۔ یہ قانون انہیں اپنی مرضی سے حصے متعین کرنے کی اجازت دیتا تھا۔

وصیت کے دو حصے تھے پہلا حصہ خاندان کے افراد سے متعلق ہے جبکہ دوسرا پاکستان اور بھارت کے کئی اداروں کے نام اپنی وراثت چھوڑتا ہے۔ اس کے بعد قائداعظم نو سال تک زندہ رہے۔ پاکستان بھی بن گیا مگر انہوں نے اپنے رشتہ داروں اور تعلیمی اداروں کے حصوں میں کوئی کمی بیشی نہیں کی۔

ان میں اسلامیہ کالج پشاور، سندھ مدرستہ الا سلام، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، انجمن ِاسلام سکول بمبئی، عریک کالج نئی دہلی اور یونیورسٹی آف بمبئی شامل تھے۔

محمد علی جناح سے قائد اعظم بننے کا سفر تو تاریخ میں بہت تفصیل سے بیان ہوا ہے مگر ایک عام انسان سے کھرب پتی بننے کی داستان سے کوئی واقف نہیں ہے۔

ڈاکٹر سعد خان اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ 1900 میں بطور پریزیڈنسی مجسٹریٹ ان کی تنخواہ 1500 روپے ماہانہ تھی مگر انہوں نے چھ ماہ کے اندر یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا تھا کہ اتنے پیسے وہ روزانہ کما لیا کریں گے۔

پھر وہ دن آ ہی گیا جب ان کا شمار ہندوستان کے مہنگے ترین وکلا میں کیا جاتا تھا۔ انہوں نے وکالت سے جو پیسے کمائے ان سے سرمایہ کاری کی۔ 1926 میں بمبئی ڈائنگ، ٹاٹا سٹیل اور ٹرام وے کمپنی میں ان کے حصص کی مالیت 14 لاکھ روپے تھی جو آج کی کرنسی کے حساب سے 68 کروڑ روپے بنتی ہے۔
اس عرصے میں قائد اعظم کا شمار ہندوستان کے چوٹی کے 10 سرمایہ کاروں میں ہونے لگا تھا۔ اسی سال جب وہ اپنی بیگم رتی جناح کے ساتھ چھٹیاں منانے سری نگر کی ڈل جھیل گئے تو وہاں بیگم جناح نے ایک ہفتہ گزارنے کے لیے تیرتی کشتی کی تزئین و آرائش پر 50 ہزار روپے خرچ کر دیے۔ اس زمانے میں اس رقم سے کراچی یا لاہور کے پوش ایریا میں چار کنال کا بنگلہ مل جاتا تھا۔

قائداعظم اس زمانے میں کراچی، بمبئی، دہلی اور لاہور میں پرائم لوکیشنز پر انتہائی قیمتی جائیدادوں کے مالک بھی تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے جو جائیداد خریدی وہ بمبئی میں لٹل گبز روڈ پر واقع ایک بنگلہ تھا اس کے ساتھ چار منزلہ عمارت مے فیئر فلیٹ نامی تھی جس میں آٹھ فلیٹس تھے۔ یہ عمارت انہوں نے منو چہر رستم جی سے 33 لاکھ آٹھ ہزار میں خرید کر کرائے پر چڑھا دی جسے انہوں نے 1943 میں 10 لاکھ میں فروخت کر کے کراچی اور لاہور میں جائیدادیں خریدیں۔

 بمبئی میں ساحل سمندر پر 15 ہزار 476 مربع گز پر ایک شاندار بنگلہ جو ساؤتھ کورٹ کہلاتا تھا انہوں نے 1916 میں سر آدم جی سے سوا لاکھ روپے میں خریدا تھا۔ جسے انہوں نے 1918 میں اپنی شادی کے موقع پر اپنی اہلیہ رتی جناح کو تحفہ میں دے دیا تھا۔

1936 میں انہوں نے پرانی عمارت کو گرا کر ایک اطالوی کمپنی کے ذریعے عالیشان بنگلہ بنوایا جس پر اس زمانے میں سوا دو لاکھ روپے لاگت آئی تھی اور یہ سوا تین سال میں مکمل ہوا تھا۔ اس گھر میں 22 ملازمین ان کی خدمات پر معمور تھے۔ مئی 1947 میں عراقی قونصل خانہ نے اسے 18 لاکھ میں خریدنے کی پیشکش کی تاہم قائداعظم اس کے 25 لاکھ مانگ رہے تھے۔

یہ جائیداد جو جناح ہاؤس کہلاتی ہے اُس وقت سے مقفل ہے اور پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک سفارتی تنازعے کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ تین سال پہلے اس کی قیمت کا تخمینہ 40 کروڑ ڈالرز لگایا گیا تھا۔

 جناح منزل دہلی قائداعظم نے 1938 میں ایک لاکھ میں خریدی تھی جہاں ان کے 19 ملازمین بھی رہا کرتے تھے اس زمانے میں اس گھر کا ماہانہ خرچہ 10 ہزار روپے تھا۔ 1947 میں قائداعظم نے جناح ہاؤس بھارت کے چوٹی کے صنعتکار اور ٹائمز آف انڈیا کے مالک کرشنا ڈالمیا کو تین لاکھ میں فروخت کر دیا تھا۔ اب یہ مکان ہالینڈ کے سفیر کی رہائش گاہ ہے جس کی موجودہ مالیت 12 کروڑ ڈالر ہے۔

اڑھائی ایکڑ پر محیط جناح منزل کراچی انہوں نے 1943 میں ایک لاکھ 80 ہزار روپے میں خریدی تھی۔ جو اب عجائب گھر میں تبدیل ہو چکی ہے جہاں قائد اعظم کے ذاتی استعمال کی اشیا رکھی ہوئی ہیں۔ جب قائداعظم نے کراچی کا جناح ہاؤس خریدا اسی دوران انہوں نے جناح ہاؤس لاہور بھی خریدا۔ مال روڈ پر پونے پانچ ایکڑ پر محیط 53 نمبر بنگلہ ایک لاکھ 62 ہزار 500 روپے میں خریدا اور یہ سودا قائداعظم کی جانب سے جسٹس فائز عیسی کے والد قاضی محمد عیسی نے کیا تھا۔ اب یہ کور کمانڈر ہاؤس ہے۔

لاہور میں ہی قائداعظم نے 1945 میں نواب افتخار ممدوٹ سے اچھرہ میں 324 کنال اراضی خریدی تھی۔ اس راضی پر آج کل گلبرگ ٹو اور تھری ہے۔

اس کے علاوہ ان کے پاس لبرٹی مارکیٹ میں ڈیڑھ کنال کا کمرشل پلاٹ، انڈسٹریل ایریا میں 10 کنال کا پلاٹ تھا۔ کراچی میں بھی قائداعظم نے ملیر میں 12 ایکٹر کا باغ نواب آف بہاولپور سے خریدا تھا۔ قائداعظم نے کیماڑی میں ساحل سمندر پر 20 ایکڑ خرید کر اس میں ہٹ بنوایا۔ یہ جگہ محترمہ فاطمہ جناح کی وفات کے بعد ایک کروڑ 11 لاکھ میں فروخت کر کے رقم قائداعظم ٹرسٹ میں جمع کرا دی گئی۔

آئی آئی چندریگر روڈ پر تقریباً چار کنال پر ایک کمرشل پلازہ بھی انہوں نے خریدا تھا جسے بعد میں محترمہ فاطمہ جناح نے دادا بھائی کو فروخت کر دیا تھا۔ اپنی وفات سے 15 دن پہلے بھی انہوں نے میکلوڈ روڈ موجودہ آئی آئی چندریگر روڈ پر ایک کمرشل بلڈنگ 10 لاکھ میں خریدی تھی۔ یہ بلڈنگ ایک سال بعد محترمہ فاطمہ جناح نے ایک بینک کو 16 لاکھ میں فروخت کر دی جس میں آج سٹینڈرڈ چارٹرڈ بنک قائم ہے۔ فریئر ٹاؤن کراچی میں 10 کنال کا ایک بنگلہ بھی قائد کی ممکنہ جائیدادوں میں سے ہے جہاں آج کل پارک ٹاور نامی پلازہ ہے۔ اسی فہرست میں سول لائن نمبر ایک میں 9 کنال کا بنگلہ بھی آتا ہے۔

قائداعظم نے 36 برس کی عمر میں ہی مختلف کمپنیز کے حصص خریدنے شروع کر دیے تھے۔ انہوں نے سمپلیکس مل میں ایک لاکھ 25 ہزار کی سرمایہ کاری کی۔ آپ ا س مل کے تیسرے بڑے شیئر ہولڈر تھے۔

1927 تک آپ 11 بڑی کمپنیز کے حصص کے مالک بن چکے تھے۔ جہاں سے آپ کو سالانہ اچھ خاصی رقم بطور منافع مل رہی تھی۔ 1943 سے 1945 کے درمیان آپ نے مختلف صنعتوں میں 8 لاکھ سے زائد کی سرمایہ کاری کی۔

بمبئی میں واقع قائداعظم کے عظیم الشان بنگلہ ساؤتھ کورٹ کو جب بھارتی حکومت پاکستان کے حوالے کرنے پر تیار نہ ہوئی تو حکومت نے محترمہ فاطمہ جناح کو اس کے بدلے میں متروکہ جائیداد مہٹہ پیلس الاٹ کر دیا۔ 1999 سے اسے عجائب گھر میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔

قائداعظم کے 12 بینک اکاؤنٹ بھی تھے جن میں چار برطانیہ میں تھے۔ تقسیم کے بعد انہوں نے اپنے تمام کھاتے حبیب بینک کراچی میں منتقل کردیے جن کی مالیت اس وقت 62 لاکھ تھی۔

2 فروری 1948 کو آپ نے بینک سے 61 لاکھ قرضہ حاصل کیا جس میں سے 35 لاکھ 35 ہزار مسلم لیگ کے حوالے کر دیے۔

4 اگست کو انہوں نے خرابی صحت کی بنا پر بینک سے قرضے کی منسوخی استدعا کی اور نہ صرف پورے 61 لاکھ واپس کر دیے بلکہ بینک نے ایک لاکھ سات ہزار 658 روپے 12 آنے کا سود بھی وصول کیا۔

قائداعظم کی بطور گورنر جنرل ماہانہ تنخواہ 10 ہزار 476 روپے 10 آنہ مقرر ہوئی تھی جس میں سے چھ ہزار 112 روپے ٹیکس کٹوتی کے بعد آپ کو 4304 روپے 10 آنہ ملتے تھے

Monday, August 9, 2021

لیاقت علی خان کا قاتل کون

لیاقت علی خان کا قاتل کون

گزشتہ دنوں ایبٹ آباد میں ایک تاریخی شخصیت 106 سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔ آپ کو جان کر حیرت ہو گی کہ وہ کون سی شخصیت تھی جو گمنام رہی۔ تو وہ اس سید اکبر کی بیوی تھی جس نے 1951 میں ہمارے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کا لیاقت باغ میں قتل کیا تھا۔

اس سید اکبر کو تو موقع پر ہی پکڑنے کی بجائے قتل کیا گیا تھا۔ مگر اس کے چار بیٹوں اور بیوہ کو ایبٹ آباد کنج قدیم میں ایک گھر الاٹ کیا گیا اور سخت پہرے میں اس وقت کی جدید ترین سہولیات بھی مہیا  کی گئی تھیں۔ اس کا بڑا بیٹا دلاور خان جو اس وقت 8 سال کا تھا آج بھی 85 سال کی عمر میں زندہ سلامت اپنے ذاتی بہت بڑے گھر میں شملہ ہل بانڈہ املوک میں رہائش پزیر ہے کیونکہ جو گھر ان کو اور اس کی ماں کو الاٹ کیا گیا تھا وہ بیوہ کے نام پہ تھا اور ان کا بچپن وہاں گزرا۔

اسی دوران پہرہ دینے والے سپاہی سے ان کی ماں نے شادی کر لی تھی اور اس کے  ہاں 5 بچے یعنی چار بیٹے اور ایک بیٹی  کی مزید پیدائش ہوئی، 8 بھائی اور ایک بہن والا کنبہ نہایت خوشحال زندگی گزارتا رہا۔

بالآخر دلاور خان کی شادی بھی اس کے دوسرے پاکستانی والد بدل زمان خان نے اپنی رشتہ دار سے کروائی جو سات بچوں یعنی چار بیٹوں اور تین بیٹیوں کی ماں ہے، سید اکبر کے باقی تین بیٹے یکے بعد دیگرے امریکہ میں سیٹل کر دیئے گئے۔

دلاور خان شادی کے کچھ عرصہ بعد کابل گیا، بقول اس کےاپنی آبائی زمینیں دیکھنے اور اپنی بیوی اور ایک ہی بیٹا جو اس وقت تھا اس کو ماں کے پاس چھوڑ رکھا تھا۔ 8 سال بعد واپس آیا اور بیوی بچے کو بھی لے گیا۔ مگر کچھ عرصہ آنا جانا کرتا رہا اور بالآخر  پچھلے 50 سال سے مستقل اپنے ذاتی گھر میں مقیم ہے۔ الاٹ شدہ گھر ماں نے فروخت کر دیا تھا اور دوسرے خاوند کے بچوں کے ساتھ نئے بنگلوں میں رہائش پزیر تھی اور بالآخر دنیا سے رخصت ہوگئی۔

 

امید ہے آپ لوگوں کو اس پی ایم کے قتل کے بارے کچھ تو سمجھ آئی ہوگی۔

(قمر اللہ چودھری)

 

‏تلخ حقیقت

لیاقت علی خان کو جس نے شہید کیا اس قاتل کی بیوہ کو وظیفہ، رہائش اور سہولیات دی جاتی رہی جبکہ وزیر اعظم لیاقت علی خان کی بیوہ رعنا لیاقت علی خان کی پینشن حکومت پاکستان کی جانب سے روک دی گئی تھی۔

ہے نہ مزہ کی بات


-:-:-:-:-:-:-:-:-:-:-:-:-:-:-:-:-:-:-:-:-:-:-


ٹھیکیداروں کا ملک

زیروپوائنٹ از جاوید چوہدری

اتوار 8 اگست 2021


مجھے کل ایک دوست نے کراچی کی ایک خاتون کا وزیراعلیٰ سندھ کے نام خط بھجوایا‘ خاتون نے خط میں لکھا‘ میرے خاوند انتہائی علیل ہیں‘ یہ ہفتے میں تین بار ڈائیلیسز کراتے ہیں‘ ان کے ڈائیلیسز‘ ماہانہ ٹیسٹوں‘ ادویات‘ انجیکشنز اور ڈاکٹروں کی فیسوں پر ایک لاکھ 75 ہزار روپے ماہانہ خرچ ہو جاتے ہیں‘ ہماری دونوں بیٹیاں مل کر یہ اخراجات برداشت کرتی ہیں لیکن اب ان کے بس کی بات بھی نہیں۔ لہٰذا میری آپ سے درخواست ہے آپ مہربانی فرما کر میرے خاوند کے میڈیکل اخراجات کا کوئی مستقل بندوبست کر دیں۔ خاتون نے آخر میں لکھا کہ میرے خاوند میرے گھر میں رہتے ہیں اور یہ گھر مجھے میری والدہ نے دیا تھا‘ یہ ایک عام سا خط تھا۔ ملک میں روز ہزاروں لوگ اس قسم کے خط لکھتے ہیں اور حکومت سے امداد مانگتے ہیں۔ یہ کوئی غیرمعمولی بات نہیں لیکن یہ خط اس کے باوجود غیرمعمولی ہے۔

کیوں؟

کیوں کہ یہ درخواست کسی عام شخص نے نہیں کی‘ یہ خط پاکستان کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کی بہو دُر لیاقت علی خان نے لکھا تھا اور جس مریض کے لیے امداد مانگی جا رہی ہے اس کا نام اکبر علی خان ہے اور یہ لیاقت علی خان اور بیگم رعنا لیاقت علی کا بیٹا ہے۔

ہمارے ملک میں شاید بہت کم لوگوں کو علم ہو گا کہ لیاقت علی خان کرنال کے بہت بڑے جاگیردار خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی جاگیر میں ریلوے سٹیشن تھا اور ان کے کھیت اور باغ میلوں تک پھیلے تھے۔ وہ 1918ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں پڑھنے گئے تھے۔ وکالت شروع کی تو وہ چند برسوں میں ہندوستان کے بڑے وکلاء میں شمار ہونے لگے۔ 1923ء میں سیاست میں آئے اور 1926ء میں انگریز دور میں یوپی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے۔ مسلم لیگ جوائن کی تو قائداعظم کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں کے سب سے بڑے لیڈر بن گئے۔ 1947ء میں پاکستان آئے تو اپنی ساری زمین جائیداد‘ روپیہ پیسہ حتیٰ کہ کپڑے تک بھارت چھوڑ آئے اور کراچی میں جائیداد کا کسی قسم کا کلیم نہ کیا۔ اس سرزمین پر ایک انچ زمین نہ لی۔ وہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے۔ وہ اگر چاہتے تو آدھا کراچی‘ لاہور اور راولپنڈی ان کا ہوتا‘ وہ اگر دہلی اور ممبئی کے گھروں کا کلیم ہی لے لیتے تو ان کا خاندان آج ارب پتی ہوتا لیکن اس درویش صفت انسان نے ملک کو اپنا سب کچھ دے دیا، لیکن بدلے میں لیا کچھ نہیں۔

ان کی بیگم اپنے زمانے کی انتہائی خوب صورت‘ مہذب اور پڑھی لکھی خاتون تھیں۔ وہ برٹش آرمی کے انگریز میجر جنرل ڈینیل پینٹ کی بیٹی تھیں۔ والدہ برہمن تھی‘ لکھنو یونیورسٹی سے گریجوایشن کی اور گوکھلے میموریل سکول کلکتہ میں پڑھانا شروع کر دیا۔ 1931ء میں ایم اے کیا اور دہلی میں پروفیسر بن گئیں۔ ان کا نام شیلا آئرن پینٹ تھا۔ 1932ء میں اسلام قبول کیا‘ خان لیاقت علی خان سے شادی کی اور شیلا سے بیگم رعنا لیاقت علی خان بن گئیں۔ ان کے دو بیٹے تھے‘ اکبر علی خان اور اشرف علی خان۔ یہ دونوں سعادت مند بھی تھے اور عزت دار بھی۔

لیاقت علی خان اور رعنا لیاقت علی خان نے جوانی فراوانی میں گزاری تھی۔ دنیا جہاں کی نعمتیں ہاتھ باندھ کر سامنے کھڑی رہتی تھیں لیکن یہ لوگ جب پاکستان آئے تو یہ خالی ہاتھ تھے۔ کراچی میں خان لیاقت علی خان کے نام پر ہزاروں ایکڑ پر لیاقت آباد کا سیکٹر بنا لیکن اس میں بھی خان لیاقت علی خان نے ایک انچ زمین نہیں لی۔

یہ جب 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں سید اکبر کی گولی کا نشانہ بنے اور ان کی اچکن اتاری گئی تو پتا چلا کہ ملک کے پہلے وزیراعظم نے شیروانی کے نیچے کرتہ نہیں پہنا ہوا تھا‘ بنیان تھی اور وہ بھی پھٹی ہوئی تھی۔ گھر میں کپڑوں کے صرف تین جوڑے اور دو جوتے تھے۔ اکائونٹ میں چند سو روپے تھے۔ بیگم اور بچے وزیراعظم ہائوس میں رہتے تھے۔

خواجہ ناظم الدین نئے وزیراعظم بن گئے۔ یہ اس گھر میں آئے تو پتا چلا لیاقت علی خان کی فیملی کے لیے پورے ملک میں کوئی گھر موجود نہیں۔ سوال اٹھا کہ یہ لوگ کہاں جائیں گے؟ لہٰذا خواجہ ناظم الدین نے بیگم رعنا لیاقت علی خان کو ہالینڈ میں سفیر بنا کر بھیج دیا۔ بیگم رعنا ہالینڈ‘ پھر اٹلی اور آخر میں تیونس میں سفیر رہیں۔ یہ واپس آئیں تو ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں گورنر سندھ بنا دیا۔ یہ پاکستان کی پہلی خاتون چانسلر بھی رہیں‘ یہ کراچی یونیورسٹی کی چانسلر تھیں۔ آپ اپوا سے لے کر پاکستان نیشنل وومن گارڈز‘ پاکستان وومن ریزرو‘ پاکستان کاٹیج انڈسٹریز شاپ‘ ماڈل کالونی برائے کرافٹس‘ گل رعنا نصرت انڈسٹریل سنٹر‘ کمیونٹی سنٹر یا پھر فیڈریشن آف یونیورسٹی وومن اور انٹرنیشنل وومن تک ملک میں خواتین کا کوئی ادارہ دیکھ لیں، آپ کو خواتین سے متعلقہ ہر بڑے ادارے کے پیچھے بیگم رعنا لیاقت علی خان ملیں گی۔

یہ جب ہالینڈ میں سفیر تھیں تو ان کے بارے میں ایک واقعہ مشہور ہوا۔ ہالینڈ کی ملکہ جولیانا ان کی دوست بن گئیں۔ یہ دونوں خواتین اس وقت پورے یورپ میں مشہور تھیں۔ بیگم رعنا لیاقت تاش کے کھیل بریج کی بہت بڑی ایکسپرٹ تھیں۔ یہ روزانہ ملکہ کے ساتھ بریج کھیلتی تھیں۔ ایک دن ملکہ جولیانا نے بیگم رعنا کے ساتھ شرط لگائی اگر تم آج کی بازی جیت گئی تو میں تمہیں اپنا ایک محل گفٹ کر دوں گی۔ بازی شروع ہوئی اور بیگم رعنا لیاقت علی جیت گئیں۔ ملکہ نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنا ایک محل رعنا لیاقت علی خان کو دے دیا اور بیگم صاحبہ نے یہ محل حکومت پاکستان کے لیے وقف کر دیا۔ آج بھی ہالینڈ میں پاکستان کا سفارت خانہ اسی محل میں قائم ہے۔

یہ 1990ء میں کراچی میں فوت ہوئیں اور انہیں مزار قائد پر خان لیاقت علی خان کے پہلو میں دفن کر دیا گیا لیکن یہ ہوں یا خان لیاقت علی خان وہ اپنی اولاد کے لیے کوئی زمین یا جائیداد چھوڑ کر نہیں گئے۔ آج ان کے صاحب زادے اکبر علی خان اپنی بیگم دُر لیاقت کے گھرمیں رہتے ہیں اوران کی حالت یہ ہے ان کی بیگم اپنے بیمار خاوند کے علاج کے لیے وزیراعلیٰ سندھ کو خط لکھنے پر مجبور ہیں۔ ملک کے پہلے وزیراعظم کے صاحب زادے اور بہو ہر ماہ ایک لاکھ 75 ہزار روپے افورڈ نہیں کر سکتے۔ یہ خان لیاقت علی خان کے ملک میں اپنے ڈائیلیسز کا خرچ پورا نہیں کر سکتے۔

یہ ملک ان لوگوں کا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو میلوں پر پھیلی جاگیریں چھوڑ کر اس ملک میں آئے اور پھر پھٹی ہوئی بنیان کے ساتھ دفن ہوئے۔

یہ ملک راجہ صاحب محمود آباد جیسے لوگوں کا ملک تھا۔ وہ محمود آباد کی ریاست کے راجہ تھے۔ پوری زندگی اپنی رقم سے مسلم لیگ چلائی۔ پاکستان بنا  تو کراچی آ گئے اور حکومت سے کوئی گھر، کارخانہ یا زمین نہیں لی۔ ملک میں جب سیاسی افراتفری پھیلی‘ مارشل لاء لگا تو یہ مایوس ہو گئے، چپ چاپ اٹھے‘ بیگ اٹھایا اور لندن جا بسے۔ راجہ صاحب محمود آباد کا 1973ء میں لندن میں انتقال ہوا۔ وہ انتقال سے قبل ہر ملنے والے سے کہتے تھے کہ میں پوری زندگی جن انگریزوں سے لڑتا رہا‘ مجھے آخر میں انہی انگریزوں کے گھر میں پناہ لینا پڑ گئی اور میں آج ان کی مہربانی سے اپنا آخری وقت عزت کے ساتھ گزار رہا ہوں۔

یہ سردار عبدالرب نشتر‘ مولوی فضل حق‘ حسین شہید سہروردی اور خواجہ ناظم الدین کا ملک تھا۔ یہ لوگ ملک بننے سے قبل کروڑ بلکہ ارب پتی تھے لیکن وہ اس ملک میں آئے‘ عسرت میں زندگی گزاری اور پھر ان کی اولادیں اکبر علی خان کی طرح علاج اور چھت کو ترستی ہوئی دنیا سے رخصت ہو گئیں جبکہ ان کے اردگرد1700ایکڑ کا رائے ونڈ بھی بن گیا‘ کراچی کا بلاول ہائوس 64 عمارتیں ہضم کرنے کے باوجود بھی نامکمل رہا‘ لندن کے ایک فلیٹ کی برکت سے تین سو کنال کا بنی گالہ بھی بن گیا اور راولپنڈی کی رنگ روڈ میں چند کلومیٹر کا اضافہ کر کے ذلفی بخاری نے اربوں روپے سمیٹ لیے اور غلام سرور خان کے نام پر نواسٹی کے مالکان نے مارکیٹ میں بیس تیس ہزار فائلیں بھی بیچ دیں۔

آپ المیہ دیکھیے آج اس ملک میں قائداعظم کے رشتے دار چھت‘ علاج اور سواری کو ترس رہے ہیں‘ خان لیاقت علی خان کی بہو وزیراعلیٰ کو لیاقت علی خان کے صاحب زادے کے لیے ایک لاکھ 75 ہزار روپے کی امداد کی درخواست کر رہی ہے۔ راجہ صاحب محمود آباد ان انگریزوں کے قبرستان میں مدفون ہیں جن سے لڑ کر انہوں نے پاکستان حاصل کیا تھا۔ حسین شہید سہروردی بیروت میں لیٹے ہیں، خواجہ ناظم الدین کی آل اولاد تاریخ کے صفحات میں گم ہو گئی۔ مولوی فضل حق عبرت کی نشانی بن کر ڈھاکہ میں دفن ہو گئے اور محمد علی بوگرا ملک چھوڑ کر بوگرا گئے اور چپ چاپ وہاں انتقال کر گئے، جب کہ ملک کے ٹھیکے دار آج بھی چینی‘ آٹے اور ایل این جی سے ایک ایک مہینے میں چار چار سو ارب روپے کما لیتے ہیں۔ آج لیاقت علی خان کی بہو اس ملک میں پوچھ رہی ہے کیا یہ ملک ان ٹھیکے داروں کے لیے بنا تھا‘ کیا لیاقت علی خان جیسے لوگوں نے یہ ملک اس لیے بنایا تھا کہ ان کے نواب ابن نواب بچے علاج کو ترستے رہیں، جب کہ ذلفی بخاری اور غلام سرور خان جیسے لوگ رنگ روڈ سے اربوں روپے کما لیں؟

یہ ہے آج کا پاکستان‘ ٹھیکے داروں کا ملک۔ ٹھیکے دار مفادات کے حمام میں ننگے نہا رہے ہیں۔ یہ ایک ایک رات میں وفاداری بدل کر صاف ستھرے ہو جاتے ہیں جب کہ مالک اور ان کی اولادیں علاج اور عزت کو ترستی ترستی دنیا سے رخصت ہو جاتی ہیں۔ ملک کے مالکوں کے بچے ڈائیلیسزکا خرچ برداشت نہیں کر پا رہے جب کہ وزیرصحت ادویات کی قیمت بڑھا کر تین چار ارب روپے جیب میں ڈالتے ہیں اور پارٹی کے سیکرٹری جنرل بن جاتے ہیں۔ کیا بات ہے؟ ہمیں شاید من حیث القوم انہی احسان فراموشیوں کی سزا مل رہی ہے‘ ہم شاید اسی لیے پوری دنیا سے جوتے کھا رہے ہیں۔

Sunday, July 25, 2021

پاکستان ‏کے ‏لیے ‏قربانیاں ‏دینے ‏والے ‏خاندان

پاکستان کے لیے قربانیاں دینے والےخاندان
محمود شام
 25 جولائی ، 2021


 
آج اتوار ہے۔ بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں سے ملنے ملانے کا دن۔ کہئے عید کیسی گزری۔ کووڈ19 میں آنے والی دوسری عیدِ قرباں۔ ﷲ تعالیٰ سے التجا ہے کہ اب اس وبا سے انسانیت کو نجات عطا فرما۔ کتنی جانیں اس کی نذر ہوچکی ہیں۔ ملکوں کی معیشت برباد ہوچکی ۔ ﷲ تعالیٰ کا نائب انسان بہت دل گرفتہ ہے۔ مستقبل کی منصوبہ بندی اطمینان سے نہیں کرپارہا ۔آج اپنے گھر والوں، اولادوں کے ساتھ آنے والے دنوں کی باتیں کریں۔ ہم جس خطّے میں رہتے ہیں یہاں زندگی آسان نہیں ہے۔ بہت مشکلات ہیں۔ ہم بنیادی مسائل بھی حل نہیں کر پائے۔ دنیا والے خلا کا سفر شروع کرچکے ہیں۔ ایک امیر ترین امریکی خلا کو کامیابی سے ہاتھ لگاکر زمین پر واپس آچکے ہیں۔ اب دولت مندوں کی دوڑ لگ جائے گی خلا نوردی کے لئے۔

آپ کو یاد ہے ہم نے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم شہید ملت لیاقت علی خان کے صاحبزادے اکبر لیاقت علی کی علالت کی جانب قوم کی توجہ دلائی تھی۔ ﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ یہ تحریر اس خاندان ، عوام اور حکمرانوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ بنی۔ وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر مرتضیٰ وہاب ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے اور حکومتِ سندھ کی طرف سے مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ بہت سے درد مند پاکستانیوں نے انہیں فون بھی کیے۔ پھول بھی بھجوائے۔ بیگم اکبر لیاقت ان سب خواتین و حضرات کا شکریہ ادا کررہی ہیں۔ صدر مملکت جناب عارف علوی بھی جمعہ کے روز اکبر میاں کی مزاج پرسی کیلئے تشریف لائے۔

14اگست قریب آرہی ہے۔ پاکستان ہماری جان آزادی کے 74سال گزار کر 75ویں سال میں داخل ہوجائے گا۔ہم ان کالموں میں گزارش کرتے آرہے ہیں کہ اپنی تمام مایوسیوں ناکامیوں کے باوجود ہمیں ڈائمنڈ جوبلی منانی چاہئے۔ ہم اپنے 75سال کا تجزیہ کریں۔ یونیورسٹیاں تحقیقی ادارے ان برسوں میں اپنی کامیابیوں۔ ناکامیوں کے اسباب تلاش کریں۔ ہماری محرومیاں، پسماندگی حقیقت ہیں۔ ہم ترقی یافتہ ممالک سے یقیناً کئی سال پیچھے ہیں۔ لیکن اس پسماندگی کو دور بھی ہمیں ہی کرنا ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں اپنے محسنوں کو یاد کرنا چاہئے جنہوں نے ہمیں انگریز سے نجات دلائی اور ایک آزاد خودمختار ملک کا شہری بننے کا شرف دلوایا۔ اس آزاد سر زمین میں ہماری کم از کم 3نسلیں تو ہوچکی ہیں۔ اکبر لیاقت علی خان کی علالت پر تحریر نے پورے ملک میں پاکستان کے اوائل کی یادیں تازہ کردی ہیں۔ بہت سے قارئین کا اصرار ہے کہ ہم بانیان پاکستان کے خاندانوں کو یاد کریں۔ دیکھیں کہ ان پر کیا گزری۔ ان میں سے کتنے معاشی طور پر آسودہ ہیں۔ کتنے نا انصافیوں کا شکار ہیں؟

میں تو اپنی یادداشت کو بنیاد بناکر کچھ شخصیتوں کا حوالہ دوں گا۔ یونیورسٹیاں تو باقاعدہ تحقیق کرسکتی ہیں۔ ابھی کچھ لوگ ہوں گے جو تحریکِ پاکستان میں لڑکپن اور جوانی میں حصّہ لے چکے ہوں گے۔ بانیان پاکستان صرف وہ نہیں ہیں جو ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آئے۔ مشرقی اور مغربی پاکستان میں پہلے سے رہنے والے کئی خاندان بھی تحریک پاکستان میں بہت سرگرم رہے ہیں۔ جب مہاجرین اپنے خوابوں کی سر زمیں پر پہنچے تو ان گھرانوں نے ان کا استقبال کیا۔ اپنے گھروں اور دلوں کے دروازے ان کے لئے کھول دیے۔ 1947 سے 1951 تک اخبارات میں ان کے نام نمایاں ہوتے تھے۔ ان کی خدمات کو اس 75ویں سال میں خراج تحسین پیش کرنا چاہئے۔ ان کے ورثا کو تلاش کرکے ان کو ایوارڈز دیے جائیں۔

اگست 2021سے اگست 2022کے دوران ان سب کو یاد کرنا۔ نئی نسل کو ان سے ان کی قربانیوں سے متعارف کروانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ سندھ میں مجھے پیر الٰہی بخش یاد آتے ہیں۔ جی ایم سید، قاضی محمد اکبر، قاضی عبدالمجید عابد۔ ہجرت کرکے آنے والوں میں مولانا عبدالحامد بدایونی، حسین امام، چوہدری خلیق الزماں، راجہ صاحب محمود آباد، نواب صدیق علی خان، شہزادی عابدہ سلطان، محمود الحق عثمانی، نورا لصباح بیگم، مرزا ابوالحسن اصفہانی، سیٹھ احمد دائود،حسن اے شیخ۔ سندھ سے ہی آغا غلام نبی پٹھان، ایم اے کھوڑو، عبدالستارپیرزادہ،محمد ہاشم گزدر،مولانا حشام الحق تھانوی، پیر محفوظ، سردار امیر اعظم۔پنجاب میں میاں ممتاز دولتانہ،میاں افتخار الدین،صوفی عبدالحمید ،میجر اسحاق، عبدالحمید دستی، مولانا محمد بخش مسلم، مولانا علائو الدین صدیقی۔ پشاور سے عبدالرب نشتر، خان عبدالقیوم ، پیر صاحب مانکی شریف، یوسف خٹک۔ کوئٹہ سے میر جعفر خان جمالی، قاضی محمد عیسیٰ، امان ﷲ گچکی، نواب محمد اکبر بگٹی، خان آف قلات۔

ماہرین تعلیم اشتیاق حسین قریشی، ڈاکٹر محمود حسین، ڈاکٹر رضی الدین صدیقی، علامہ آئی آئی قاضی، پیر حسام الدین راشدی۔ اے ایم قریشی۔ سینکڑوں بلکہ ہزاروں نام تھے۔ جو آپ اپنے اپنے شہر میں جانتے ہوں گے۔ بہت عظیم ہستیاں تھیں۔ جو ایک نئے ملک کے مسائل اور وسائل سے آگاہ تھیں۔ اس آگہی کی روشنی میں اپنے اپنے علاقے میں انہوں نے قیام پاکستان کے لئے کوششیں کیں۔ جمہوریت کی بحالی اپنے حقوق کے حصول۔ محنت کشوں کے تحفظ کے لئے بشیر احمد بختیار یاد آتے ہیں۔ امیر دادا، مرزا ابراہیم، سی آر اسلم، شمیر واسطی، نبی احمد، ایس پی لودھی، عثمان بلوچ، واحد بشیر، علی امجد، منہاج برنا، حبیب جالب۔ مرکزی قیادتوں کی طاقت مختلف صوبوں اور شہروں کی قیادتیں ہوتی تھیں۔ تحریک نظام مصطفیٰ، تحریک بحالی جمہوریت، پروفیسر غفور احمد، مولانا شاہ احمد نورانی، شاہ فرید الحق، نوابزادہ نصر ﷲ خان، خان عبدالولی خان تو مرکزی قیادتیں تھیں۔ زین العابدین، علائو الدین عباسی، مشیر احمد پیش امام، رسول بخش پلیجو، فاضل راہو۔ کیسے بھول سکتے ہیں عابد زبیری کو۔

یہ سب وہ درد مند انسان تھے۔ عظیم پاکستانی جنہوں نے اس ملک کی بنیادیں مستحکم کیں۔ معاشرے کو تعصبات سے آزاد کرنے کی جدو جہد کی۔ آئیے جاننے کی کوشش کریں کہ ان کے ساتھی کون کون تھے۔ مختلف شہروں میں یہی بے لوث خدمات کون انجام دے رہے تھے۔ تاریخ پاکستان ان کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہے۔

Wednesday, July 21, 2021

فوج ‏کے ‏کارنامے

_____________________

فوج ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ۔ !!
ﻓﻮﺝنہیں ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻗﺒﺎﺋﻞ نے ﻟﮍ ﮐﺮ کشمیر ﮐﻮ آزاد ﮐرالیا۔ !!
ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﻠﮏ ﭨﻮﭦ ﮔﯿﺎ ‏( 1971 ‏) ۔ !!
ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﺭﮔﻞ ﺑﮭﺎﺭﺕ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ۔ !!
ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﯿﺎﭼﻦ ﺑﮭﯽ ﺑﮭﺎﺭﺕ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ۔ !!
فوج تھی اور مودی نے مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرلیا اور جرنیل یہاں سینٹ چیئرمین کا الیکشن مینج کرتے رھے۔!!
ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺮیکی فوجیﮔﮭﺲ ﮐﮯ ﺍﺳﺎﻣﮧ ﺑﻦ ﻻﺩﻥ ﮐﻮ مار ﮐﺮ اٹھا لےگیا اور یہ سوتے رہ گئے۔ !!
ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺭیمنڈ ﮈﯾﻮﺱ ﺍﻣﺮﯾﮑﺎ بھجوا دیا ﮔﯿﺎ ﺟﺲ ﻧﮯ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﻋﻮﺍﻡ ﻗﺘﻞ ﮐﺌﮯ ﺗﮭﮯ !!
ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﺮﻧﻞ ﺟﻮﺯﻑ ﻧﮑﻞ ﮔﯿﺎ !!
ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻋﺎﻓﯿﮧ ﺻﺪﯾﻘﯽ ﮐﻮ ﺍﻣﺮﯾﮑﺎ ﺑﯿﭽﺎ ﮔﯿﺎ۔ !!
ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺩﮨﺸﺘﮕﺮﺩﯼ ﻣﯿﮟ 1 ﻻﮐﮫ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻋﻮﺍﻡ ﺷﮩﯿﺪ ﮨﻮﺋﮯ
ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺭﺍﻭ ﺍﻧﻮﺭ ﻧﮯ 444 ﭘﺨﺘﻮﻧﻮ ﮐﻮ ﺟﻌﻠﯽ ﭘﻮﻟﯿﺲ ﻣﻘﺎﺑﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭ ﺩﺋﮯ
ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﻭﯾﺰ ﻣﺸﺮﻑ ﻧﮯ 4000 ﮨﺰﺍﺭ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯿﻮں ﮐﻮ ﺑﺎﮨﺮ کی ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﺑﯿﭻ ﺩیا
ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ APS ﺳﮑﻮﻝ ﭘﺮ ان کی سخت سیکورٹی تھی ﻣﮕﺮ 150 ﺑﭽﮯ ﺍﻧﮑﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭﮮ ﮔﺌﮯ۔
ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺮﯾﮑﮧ بین الاقوامی حدود کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے ﻗﺒﺎﺋﻞ ﭘﺮ ﮈﺭﻭﻥ ﺳﮯ میزائل ﺑﺮﺳﺎتا رھا۔!
ﻓﻮﺝ ﻧﮯ ﮈﺍﻟﺮﻭں ﮐﮯ ﻋﻮﺽ غیرت مند ﻗﺒﺎﺋﻞ ﮐﻮ ﺩﺭﺑﺪﺭ ﮐﺮﮐﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮔﮭﺮﻭں ﺍﻭﺭ ﻣﺎﺭﮐﯿﭩﻮں ﮐﻮ ملیاﻣﯿﭧ ﮐﺮ ﺩیا
ﻓﻮﺝ نے ﺩھﺸﺖ ﮔﺮﺩ بنائے اور ان کی ملک دشمن ﭘﺎﻟﺴﯿﻮں ﮐﯽ ﻭﺟﮧ سے ﭘﺎﮐﺴﺘﺎنی ﻣﻌﯿﺸﺖ کو ناقابل تلافی نقصان ہوا لیکن جرنیل اربوں پتی ھوگئے اور تاحال ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کی طرف سے صرف گزشتہ دھائی میں دی گئی 33ارب ڈالرز یا قریبا ساٹھ کھرب روپے کی فوجی امداد کا حساب مانگ رھا ھے۔
ﻓﻮﺝ ﮐﯽ ﺩھﺸﺖ ﮔﺮﺩ نواز ﭘﺎﻟﺴﯿﻮں ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺳﺎﺭﮮ ھﻤﺴﺎﯾﮧ ﻣﻤﺎﻟﮏ کے ﺴﺎﺗﮫ ھمارے ﺗﻌﻠﻘﺎﺕ ﺧﺮﺍﺏ ھیں
ﻓﻮﺝ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﺎﺗﺤﺖ ﺍﺩﺍﺭﻭں ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺑﻠﻮﭼﺴﺘﺎﻥ ﺍﻭﺭ KPK FATA ﮐﮯ ﮨﺮ ﮔﮭﺮ ﮐﻮ ﻻشیں ملیں ﯾﺎ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﻨﺪﮦ ﻻ ﭘﺘﮧ ھﮯ
ﻓﻮﺝ ﮐﯽ ﻣﺪﺍﺧﻠﺖ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻣﻠﮏ ﮐی ﻋﺪﻟﯿﮧ، ﭘﺎﺭﻟﯿﻤﻨﭧ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺍﺩﺍﺭﮮ ﺻﺮﻑ ﻧﺎﻡ ﮐﮯ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ھیں ﻭﻏﯿﺮﮦ ﻭﻏﯿﺮﮦ

ﺍﺏ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﯾﮧ ﮐﮩﺘﺎ ھﮯ ﮐﮧ ﻓﻮﺝ نہ ﺭﮨﯽ ﺗﻮ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺭھے ﮔﺎ ﺗﻮ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﭼﮭﺘﺮﻭﻝ ﺯﯾﺘﻮﻥ ﮐﮯ ﺗﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﻟﺘﺮ ﺑﮭﮕﻮ ﮐﺮ ﮐﯿﺠﯿﺌﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﺳﮯ ﺑﻮﭦ ﭘﺎﻟﺸﯽ ﮐﺎ ﮐﯿﮍﺍ ﺑﺎﮨﺮ آجائے

نوٹ: اس وقت ملک کے وزیراعظم کی تنخواہ 2لاکھ
اور اس کے اسسٹنٹ عاصم باجوہ کی تنخواہ 45لاکھ
جبکہ عاصم باجوہ کے مشیر کی تنخواہ 15لاکھ ھے
جرنیلوں کو نوازنے کے لیے نئے نئے عہدے تخلیق کئے جا رھے ہیں۔ آپ نے آج تک ڈی جی ریلوے کا عہدہ نہیں دیکھا ہوگا لیکن آج وہ بھی بنا دیا گیا اور ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر کو تعینات بھی کردیا گیا یقینا اسکی تنخواہ شیخ رشید سے زیادہ ہو گی۔ آج تقریباً ھر بڑی اور اتھارٹی والی سول پوسٹ پر کوئی فوجی افسر براجمان ھے۔ یہ جرنیل سارا بجٹ ھڑپ کرکے آڈٹ کروانا بھی مناسب نہیں سمجھتے۔ کیوں؟

لیکن یہاں 70سال سے قوم کو جھوٹ یہ پڑھایا گیا کہ سیاستدان ملک کھا گئے۔۔۔ مرحومہ عاصمہ جہانگیر نے درست کہا تھا کہ جس دن جرنیلوں کی کرپشن بے نقاب ہو گئی یہ بےاختیار سیاستدان بیچارے آپ کو فرشتے لگیں گے😜😜😜 ویسے کوئی ان جرنیلوں سے پوچھے بھلا یہ تغمےکشمیر آزاد کرانےکےھیں یا پاکستان کو فتح کرنےکے؟⁦🇵🇰⁩⁦🇵🇰⁩⁦🇵🇰⁩🤔
(منقول)

اس کا آپکو پتہ تو ہوگا پھر بھی یاداشت تازہ کرنے کے لیئے ۔۔۔۔
پڑھتا جا شرماتا جا😢😷🤔

1955ءمیں کوٹری بیراج کی تکمیل کےبعدگورنرجنرل غلام محمدنےآبپاشی سکیم شروع کی۔4 لاکھ مقامی افراد میں تقسیم کی بجائے یہ افراد زمین کے حقدار پائے:
1:جنرل ایوب خان۔۔500ایکڑ
2:کرنل ضیااللّہ۔۔500ایکڑ
3:کرنل نورالہی۔۔500ایکڑ
4:کرنل اخترحفیظ۔۔500ایکڑ
5:کیپٹن فیروزخان۔۔243ایکڑ
6:میجرعامر۔۔243ایکڑ
7:میجرایوب احمد۔۔500ایکڑ
8:صبح صادق۔۔400ایکڑ
صبح صادق چیف سیکرٹری بھی رھے۔

1962ءمیں دریائےسندھ پرکشمورکےقریب گدوبیراج کی تعمیرمکمل ہوئی۔
اس سےسیراب ہونےوالی زمینیں جن کاریٹ اسوقت5000-10000روپے
ایکڑ تھا۔عسکری حکام نےصرف500روپےایکڑکےحساب سےخریدا۔
گدوبیراج کی زمین اس طرح بٹی:
1:جنرل ایوب خان۔۔247ایکڑ
2:جنرل موسی خان۔۔250ایکڑ
3:جنرل امراؤ خان۔۔246ایکڑ
4:بریگیڈئر سید انور۔۔246ایکڑ
دیگر کئ افسران کو بھی نوازا گیا۔
ایوب خان کےعہدمیں ہی مختلف شخصیات کومختلف بیراجوں پرزمین الاٹ کی گئی۔انکی تفصیل یوں ہے:
1:ملک خدا بخش بچہ 
وزیر زراعت۔۔158ایکڑ
2:خان غلام سرور خان،
وزیرمال۔۔240ایکڑ
3:جنرل حبیب اللّہ
وزیرداخلہ۔۔240ایکڑ
4:این-ایم-عقیلی 
وزیرخزانہ۔۔249ایکڑ
5:بیگم عقیلی۔۔251ایکڑ
6:اخترحسین
گورنر مغربی پاکستان۔۔150ایکڑ
7:ایم-ایم-احمد مشیراقتصادیات۔۔150ایکڑ
8:سیدحسن 
ڈپٹی چیرمین پلاننگ۔۔150ایکڑ
9:نوراللّہ ریلوے انجیئر۔۔150ایکڑ
10:این-اے-قریشی 
چیرمین ریلوے بورڈ۔۔150ایکڑ
11:امیرمحمد خان
سیکرٹری صحت۔۔238ایکڑ
12:ایس-ایم-شریف سیکرٹری تعلیم۔۔239ایکڑ

جن جنرلوں کوزمین الاٹ ہوئی۔انکی تفصیل یوں ہے:
1:جنرل کے-ایم-شیخ۔۔150ایکڑ
2:میجر جنرل اکبرخان۔۔240ایکڑ
3:برئگیڈیر ایف-آر-کلو۔۔240ایکڑ
4:جنرل گل حسن خان۔۔150ایکڑ

گوھر ایوب کےسسرجنرل حبیب اللّہ کوہربیراج پروسیع قطعۂ اراضی الاٹ ہوا۔
جنرل حبیب اللّہ گندھاراکرپشن سکینڈل کےاہم کردارتھے۔

جنرل ایوب نےجن ججزکوزمین الاٹ کی گئ:
1:جسٹس ایس-اے-رحمان 150ایکڑ
2:جسٹس انعام اللّہ خان۔۔240ایکڑ
3:جسٹس محمد داؤد۔۔240ایکڑ
4:جسٹس فیض اللّہ خان۔۔240ایکڑ
5:جسٹس محمد منیر۔۔150ایکڑ
جسٹس منیرکواٹھارہ ہزاری بیراج پربھی زمین الاٹ کی گئی۔اسکےعلاوہ ان پرنوازشات رھیں۔

ایوب خان نےجن پولیس افسران میں زمینیں تقسیم کیں:
1:ملک عطامحمدخان ڈی-آئی-جی 150ایکڑ
2:نجف خان ڈی-آئی-جی۔۔240ایکڑ
3:اللّہ نوازترین۔۔240ایکڑ
نجف خان لیاقت علی قتل کیس کےکردارتھے۔قاتل سیداکبرکوگولی انہوں نےماری تھی۔
اللّہ نوازفاطمہ جناح قتل کیس کی تفتیش کرتےرھے۔

1982میں حکومت پاکستان نےکیٹل فارمنگ سکیم شروع کی۔اسکا مقصد چھوٹے کاشتکاروں کو بھیڑبکریاں پالنےکیلئےزمین الاٹ کرنی تھی۔مگراس سکیم میں گورنرسندھ جنرل صادق عباسی نےسندھ کےجنگلات کی قیمتی زمین240روپےایکڑکےحساب سےمفت بانٹی۔
اس عرصےمیں فوج نےکوٹری،سیھون،ٹھٹھہ،مکلی میں25لاکھ ایکڑزمین خریدی۔

1993میں حکومت نےبہاولپور میں 33866ایکڑزمین فوج کےحوالےکی۔

جون2015میں حکومت سندھ نےجنگلات کی9600ایکڑ قیمتی زمین فوج کےحوالےکی۔24جون2009کوریونیوبورڈ پنجاب کی رپورٹ کےمطابق 62% لیزکی زمین صرف 56 اعلی عسکری افسران میں بانٹی گئی۔ جبکہ انکاحصہ صرف10% تھا۔شایدیہ خبرکہیں شائع نہیں ہوئی۔

2003میں تحصیل صادق آباد کےعلاقےنوازآباد کی2500ایکڑ زمین فوج کےحوالےکی گئی۔یہ زمین مقامی مالکان کی مرضی کےبغیردی گئی۔جس پرسپریم کورٹ میں مقدمہ بھی ہوا۔

اسی طرح پاک نیوی نےکیماڑی ٹاؤن میں واقع مبارک گاؤں کی زمین پرٹریننگ کیمپ کےنام پرحاصل کی۔اس کاکیس چلتارہا۔اب یہ نیول کینٹ کاحصہ ہے۔
2003میں اوکاڑہ فارم کیس شروع ہوا۔
اوکاڑہ فارم کی16627ایکڑ زمین حکومت پنجاب کی ملکیت تھی۔یہ لیزکی جگہ تھی۔1947میں لیزختم ہوئی۔حکومت پنجاب نےاسےکاشتکاروں میں زرعی مقاصدسےتقسیم کیا۔ 2003میں اس پرفوج نےاپناحق ظاھرکیا۔
اسوقت کےڈی۔جیISPRشوکت سلطان کےبقول فوج اپنی ضروریات کیلئےجگہ لےسکتی ہے۔

2003میں سینیٹ میں رپورٹ پیش کی گئی۔جسکےمطابق فوج ملک27ہاؤسنگ سکیمزچلارہی ہے۔ 
اسی عرصےمیں16ایکڑکے 130پلاٹ افسران میں تقسیم کئےگئے۔

فوج کےپاس موجود زمین کی تفصیل:
لاھور۔۔12ہزارایکڑ
کراچی۔۔12ہزارایکڑ
اٹک۔۔3000ایکڑ
ٹیکسلا۔۔2500ایکڑ
پشاور۔۔4000ایکڑ
کوئٹہ۔۔2500ایکڑ
اسکی قیمت 300بلین روپےہے۔
2009میں قومی اسمبلی میں یہ انکشاف ہوا۔

بہاولپورمیں سرحدی علاقےکی زمین380روپےایکڑکےحساب سےجنرلزمیں تقسیم کی گئی۔جنرل سےلیکرکرنل صاحبان تک کل100افسران تھے۔
چندنام یہ ہیں:
پرویزمشرف،جنرل زبیر،جنرل ارشادحسین،جنرل ضرار،جنرل زوالفقارعلی،جنرل سلیم حیدر،جنرل خالدمقبول،ایڈمرل منصورالحق۔

مختلف اعدادوشمارکےمطابق فوج کےپاس ایک کروڑبیس لاکھ ایکڑزمین ہے۔جوملک کےکل رقبےکا12%ہے۔

سترلاکھ ایکڑکی قیمت700ارب روپےہے۔

ایک لاکھ ایکڑکمرشل مقاصدکیلئےاستعمال ہورہی ہے۔جسکو کئی ادارےجن میں فوجی فاؤنڈیشن،بحریہ فاؤنڈیشن،آرمی ویلفیئرٹرسٹ استعمال کررھےہیں۔

نیز بےنظیر بھٹو نے بیک جنبشِ قلم جنرل وحید کاکڑ کو انعام کے طور پر 100مربع زمین الاٹ کی تھی۔

اس کے علاوہ بریگیڈیئر و جرنیل سمیت سبھی آرمی آفیسرز ریٹائرمنٹ کے قریب کچھ زمینیں اور پلاٹ اپنا حق سمجھ کر الاٹ کرا لیتے ھیں۔ مثال کے طور پر ماضی قریب میں ریٹائر ھونے والے جنرل راحیل شریف نے آرمی چیف بننے کے بعد لاھور کینٹ میں868کنال کا نہایت قیمتی قطعہ زمین الاٹ کرانے کے علاؤہ بیدیاں روڈ لاھور پر بارڈر کے ساتھ90ایکڑ اراضی اور چند دیگر پلاٹ بھی (شاید کشمیر آزاد کرانے کے صلہ میں یا پھر دھرنے کرانے کے عوض) الاٹ کروائے جن کی مالیت اربوں میں بنتی ھے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں عام آدمی چند مرلے کے پلاٹ کےلئے ساری زندگی ترستا رھتا ھے کیا یہ نوازشات و مراعات یا قانونی اور حلال کرپشن ھے یا اس جرنیلی مافیا کی بےپناہ لالچ و حرص وحوس؟ کیاعوام کو اس کے خلاف آواز اٹھاکر اس حلال کرپشن کو روکنے کی کوشش نہیں کرنا چاھیئے؟🤔⁦🇵🇰

Sunday, July 18, 2021

نئی نسل کی توجہ درکار ہے

*"نئی نسل کی توجہ درکار ہے"*
*تاریخ کے کچھ حصّے بار بار پڑھئیے* 
اور پھر کچھ یوں ہوا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
پاکستان میں پہلی دھاندلی عسکری، بیوروکریٹ اور پیروں ، وڈیروں  کے گٹھ جوڑ سے ہوئی 

‏تاریخ نے  کئی  چہروں پر ایسا غلاف چڑھا رکھا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کو بے نقاب کرنا ضروری ہو گیا ہے 
کیسے کیسے لوگ تھے جو آج اپنے اپنے علاقوں کے خدا بنے بیٹھے ہیں ، ان کا کردار نئی نسل کے سامنے لانا ضروری ہے ، اگر نئی نسل کو دلچسپی ہو تو
اور کتنے ہی لوگ تھے جنہوں نے پاکستان کے لیے سب کچھ قربان کر دیا لیکن غدار کہلائے 
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صدارتی الیکشن۔۔1965 کے دن ہیں۔۔جن پر اب کوئی بات بھی نہیں کرتا۔۔اور نہ انکے بارے میں کچھ لکھا جاتا ہے۔۔
یہ پہلا الیکشن تھا۔۔جس میں بیورکریسی اور۔۔فوج نے ملکر دھاندلی کی تھی ۔
‏1965 کے صدارتی الیکشن میں پہلی دھاندلی خود فیلڈ مارشل  ایوب خان  نے کی۔۔
پہلےالیکشن۔۔بالغ رائے دہی کی بنیاد پر کروانے کا اعلان کیا گیا 

یہ اعلان۔۔۔۔۔۔9 اکتوبر 1964 کو ہوا۔ مگر مادر ملت فاطمہ جناح کے امیدوار بننے کے  بعد۔۔۔۔۔۔۔یہ اعلان۔۔۔۔۔۔  ایوب خان کا انفرادی اعلان  ٹھہرا۔۔۔۔۔۔۔اور سازش کے تحت یہ ذمہ داری حبیب اللّہ خان پرڈالی گئی ۔یہ پہلی پری پول دھاندلی تھی۔۔

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
‏1964میں کابینہ اجلاس میں
وزراء نے۔۔خوشامد کی انتہا کردی۔ حبیب خان نے۔۔۔۔۔۔۔فاطمہ جناح کو ایبڈو کرنے کی تجویز دی۔۔
وحید خان نے  ۔۔۔۔۔۔جو وزیر اطلاعات۔۔اور۔۔کنویشن لیگ کے جنرل سیکرٹری تھے۔۔۔۔۔۔۔تجویز دی کہ ۔۔۔۔۔ایوب کو تاحیات صدر قرار دینے کیلئے ترمیم کی جائے۔۔۔۔۔ ایوب کے منہ بولے بیٹے ذوالفقار علی بھٹو نے۔۔۔۔۔۔۔مس جناح کو بُڑھیا۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔ضدّی کہا۔۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف جماعت اسلامی کے مولانا سید ابوالاعلی مودودی نے سندھ سے جی ایم سید،  اور صوبہ سرحد سے خان عبدالغفار خان نے جبکہ مشرقی پاکستان سے شیخ مجیب الرحمن نے کھل کر محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کی 
پنجاب کے تمام سجادہ نشینوں نے سوائے پیر مکھڈ صفی الدین  کے فاطمہ جناح کے خلاف فتویٰ دیا
---
‏ایوب خان کی دھاندلی مشینری نے الیکشن تین طریقوں سے لڑنے کا فیصلہ کیا۔۔۔۔
*پہلا مذھبی سطح پر۔۔۔۔۔۔ جس کے انچارج۔۔۔۔۔۔*
پیر آف دیول شریف تھے۔۔جنہوں نے مس جناح کے خلاف فتوے نکلوائے۔۔

*دوسرا انتظامی سطح پر۔۔۔۔۔۔۔* کیونکہ 62 کے آئین کے مطابق ایوب خان کو یہ سہولت میسر تھی کہ وہ تب تک صدر رہ سکتے تھے جب تک ان کا جانشین نہ منتخب ہو لہذا پوری سرکاری مشینری استعمال کی گئی 
 جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج بھی الیکشن سرکاری ملازمین کے دباؤ سے جیتے جاتے ہیں 

*تیسری سطح پر۔۔۔۔۔۔۔*مس جناح کے حامیوں پر۔۔۔۔۔جھوٹے مقدمات درج کئے گئے* ۔۔۔۔۔۔۔عدالتوں سے انکے خلاف فیصلے لئے گئے۔۔۔ ۔۔۔ اور یہی عدلیہ کے تابوت میں پہلی اور آخری کیل ثابت ہوئی جو آج تک ٹھکی ھوئی ہے 

آخر کار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

‏سندھ کے تمام جاگیردار گھرانے ایوب خان کے ساتھ ھوگئے تھے۔۔۔۔۔۔بھٹو فیملی ۔۔جتوئی فیملی ۔۔۔۔۔محمدخان جونیجو فیملی ۔۔  ۔۔۔۔ٹھٹھہ کے شیرازی۔۔۔۔۔۔۔۔خان گڑھ کے مہر۔۔۔۔۔۔۔۔۔نواب شاہ کے سادات ۔۔۔۔۔۔۔۔بھرچونڈی۔۔۔۔۔۔۔۔رانی پور۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہالا۔۔۔۔۔۔۔۔۔کے اکثر پیران کرام، ایوب خان کےساتھی تھے۔۔۔۔۔۔۔ 

سوائے کراچی میں گہری جڑیں رکھنے والی جماعت اسلامی، اندرون سندھ کے جی ایم  سید ۔۔۔۔۔۔۔حیدرآباد کےتالپور برادران۔۔۔۔۔۔۔۔بدین کے فاضل راہو۔۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔ رسول بخش پلیجو ۔۔۔۔مس جناح کےحامی تھے۔۔۔۔۔۔۔یہی لوگ بعد میں پاکستان کے  غدار بھی ٹہرا دئیے گئے 

*پھر کچھ یوں ہوا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*

*‏پنجاب کے تمام گدّی نشین اور صاحبزادگان و سجادہ نشین۔۔۔۔۔۔۔۔۔*   

۔سوائے پیر مکھڈ۔۔۔۔۔۔۔صفی الدین کو چھوڑ کر۔۔
باقی سب ایوب خان کے ساتھی ھوگئےتھے۔۔۔۔۔۔۔۔سیال شریف کے پیروں نے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔فاطمہ جناح کےخلاف فتوی بھی دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔پیر آف دیول نے۔۔۔۔۔۔۔۔داتادربار  پر ۔۔۔۔۔مراقبہ کیا۔۔۔۔۔۔اور کہا کہ۔۔۔۔۔۔داتا صاحب نےحکم دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔کہ ایوب کو کامیاب کیا جائے۔۔۔۔۔۔۔ورنہ خدا۔۔۔۔۔۔۔۔۔پاکستان سےخفا ہوجائے گا۔۔
‏آلو مہارشریف کے۔۔۔۔۔۔ ۔۔صاحبزادہ فیض الحسن نے۔۔۔۔۔۔۔۔عورت کےحاکم ہونے کے خلاف فتوی جاری کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مولانا عبدالحامد بدایونی صدر جمعیت علماء پاکستان نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔فاطمہ جناح کی نامزدگی کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شریعت سے مذاق۔۔۔۔۔۔۔۔اورناجائز قرار دیا۔۔ 
مولانا حامدسعیدکاظمی کے والد۔۔۔۔۔۔۔علامہ احمد سعید کاظمی نے۔۔۔۔۔ایوب کو۔۔۔۔۔۔۔ملت اسلامیہ کی آبرو قرار دیا  ۔   ۔۔یہ لوگ ہیں جو دین کےخادم ہیں۔

‏لاھور کے میاں معراج الدین نے۔۔۔۔۔۔فاطمہ جناح کےخلاف جلسہ منعقد کیا۔۔۔۔۔۔۔۔جس سے مرکزی خطاب عبدالغفار پاشا۔۔۔۔۔۔۔اور وزیر بنیادی جمہوریت نےخطاب کیا۔۔۔۔۔۔۔معراج الدین نے۔۔۔۔۔۔فاطمہ جناح پر۔۔۔۔۔۔۔اخلاقی بددیانتی کا الزام لگایا۔۔۔۔۔۔موصوف موجودہ بیمار وزیر صحت یاسمین راشد کے سسر تھے۔۔۔۔۔۔۔ گجرانوالہ کے غلام دستگیر نے مس جناح کی تصویریں کتیا کے گلے میں ڈال کر پورے گجرانوالہ میں سرکس نکالے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میانوالی۔۔۔۔۔۔کی ضلع کونسل نے۔۔۔۔۔۔فاطمہ جناح کےخلاف قرار داد منظور کی۔۔
‏مولانا غلام غوث ہزاروی سابق ناظم اعلیٰ مجلس احرار اور مرکزی رہنماء جمعیت علمائے اسلام ۔۔۔۔۔۔۔صاحب نے کھل کر ایوب خان کی حمایت کا اعلان کیا۔۔۔۔۔۔اور دعا بھی کی ۔ ۔۔۔۔پیر آف زکوڑی  نے۔۔۔۔۔۔۔فاطمہ جناح کی نامزدگی کو۔۔۔۔۔۔اسلام سے۔۔۔۔۔۔مذاق قرار دیکر۔۔۔۔۔۔۔عوامی لیگ سے استعفی دیا۔۔۔۔۔۔اور ایوب کی حمایت کا اعلان کیا۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف جماعت اسلامی کے امیر ۔۔۔۔۔۔۔ مولانا سید ابوالاعلی مودودی  کا ایک جملہ زبان زد عام ہوگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایوب خان میں اس کے سوا کوئی خوبی نہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مرد ہیں اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فاطمہ جناح میں اس کے سوا کوئی کمی نہیں کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ عورت ہیں

پھر ہوا یہ کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

‏بلوچستان میں۔۔۔۔مری سرداروں۔۔۔۔۔۔اور جعفر جمالی ۔۔۔۔
۔ظفر اللہ  جمالی کے والد صاحب کوچھوڑ کر۔۔۔۔۔
سب فاطمہ جناح کےخلاف تھے۔۔۔۔۔۔۔قاضی محمد عیسی۔۔۔۔۔۔۔ جسٹس فائز عیسیٰ کے والد ۔۔۔ ۔مسلم لیگ کا بڑا نام۔۔۔۔۔بھی فاطمہ جناح کے مخالف تھے ۔۔۔۔۔۔۔اور ایوب کےحامی تھے۔۔۔۔۔۔انہوں نے۔۔۔۔۔۔کوئٹہ میں ایوب کی مہم چلائی۔۔۔۔۔۔حسن محمود نے۔۔۔۔۔۔پنجاب۔۔۔۔۔۔سندھ کے۔۔۔۔۔۔ روحانی خانوادوں کو۔۔۔۔۔۔ایوب کی حمایت پرراضی کیا۔۔۔۔۔۔۔
پورا مشرقی پاکستان غدار تھا وہ سب مس جناح کے ساتھ تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‏خطۂ پوٹھوہار کے۔۔۔۔۔۔۔تمام بڑے گھرانے۔۔۔۔۔۔۔اور سیاسی لوگ ایوب خان کےساتھ تھے۔۔۔۔۔۔۔برئگیڈئر سلطان۔۔۔۔۔والد۔۔۔۔۔۔چودھری نثار۔۔۔۔۔۔۔ملک اکرم۔۔۔۔۔۔۔دادا۔۔۔۔۔۔۔امین اسلم۔۔۔۔۔۔ملکان کھنڈا۔۔۔۔۔۔کوٹ فتح خان۔۔۔۔۔۔پنڈی گھیب۔۔۔۔۔۔تلہ گنگ۔۔۔۔۔۔ایوب  کے ساتھ تھےاس کی وجہ یہاں کے سب لوگ فوج سے وابستہ تھے  ۔۔۔۔۔۔سوائے۔۔۔۔۔۔۔چودھری امیر۔۔۔۔۔۔اور ملک نواب خان کے۔۔۔۔۔۔۔اور جن کو الیکشن کے دو دن بعد قتل کر دیا گیا ۔۔۔۔۔۔
‏شیخ مسعود صادق نے۔۔۔۔۔۔۔۔ایوب خان کی لئے وکلاء کی حمایت کا سلسلہ شروع کیا۔۔۔۔۔۔کئی لوگوں نے۔۔۔۔۔۔انکی۔۔۔۔۔حمایت کی۔۔۔۔۔۔پنڈی سے راجہ ظفرالحق بھی ان میں شامل تھے۔۔۔۔۔۔۔۔اسکے علاوہ میاں اشرف گلزار۔۔۔۔۔۔بھی فاطمہ جناح کے۔۔۔۔ مخالفین میں شامل تھے۔۔
‏صدارتی الیکشن۔۔1965 کے دوران گورنر امیر محمد خان صرف چند لوگوں سےپریشان تھے۔۔۔۔ان میں سرفہرست ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سید ابوالاعلی مودودی ---  شوکت حیات۔۔۔۔۔۔خواجہ صفدر۔۔۔۔۔والد۔۔خواجہ آصف۔۔۔۔۔۔چودھری احسن۔۔۔۔۔والد اعتزاز احسن۔۔۔۔۔۔خواجہ رفیق۔۔۔۔والد سعدرفیق۔۔۔۔۔۔کرنل عابد امام۔۔۔۔۔۔والد ۔۔۔عابدہ حسین۔۔۔۔۔علی احمد تالپور شامل تھے۔۔یہ لوگ آخری وقت تک۔۔۔۔۔فاطمہ جناح کے ساتھ رہے۔۔۔۔۔۔
‏صدارتی الکشن کے دوران فاصمہ جناح پر۔۔۔۔۔پاکسان توڑنےکا الزام  بھی لگا۔۔۔۔۔یہ الزام زیڈ-اے-سلہری نے۔۔۔۔۔اپنی ایک رپورٹ میں لگایا۔۔۔۔۔جس میں مس جناح کی بھارتی سفیر سے ملاقات۔۔۔۔۔۔کا حوالہ ديا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔اور یہ بیان کہ۔۔۔۔۔۔قائد اعظم تقسیم کےخلاف تھے  یہ وہی تقسیم تھی جس کا پھل کھانے کیلئے آج  سب اکٹھے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔یہ اخبار۔۔۔۔۔۔۔ہر جلسے میں لہرایا گیا۔۔۔۔۔۔ایوب اسکو لہرا لہرا کر۔۔مس جناح کو غدار کہتے رہے ۔۔۔۔۔۔
‏پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔۔۔۔۔۔
لاالہ الااللّہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جیسی نظم لکھنے والے۔۔۔۔۔۔۔اصغرسودائی۔۔۔۔۔۔ ایوب خان کے ترانے لکھتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔اوکاڑہ کے ایک شاعر۔۔۔۔۔۔۔ظفراقبال نے۔۔۔۔۔۔چاپلوسی کے ریکارڈ  توڑ ڈالے۔۔۔۔۔۔یہ وہی ظفراقبال ہیں۔۔۔۔۔جو آجکل اپنےکالموں میں سیاسی راہنماؤں کا مذاق اڑاتے ہیں۔۔۔۔۔۔سرورانبالوی۔۔۔۔۔اور دیگر کئی  شعراء  اسی کام میں مصروف تھے۔۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‏حبیب جالب۔۔۔۔۔۔۔ابراھیم جلیس۔۔۔۔۔۔۔۔میاں بشیر ۔۔۔۔۔۔۔۔فاطمہ جناح  کے جلسوں کے۔۔۔۔۔شاعرتھے۔۔۔۔۔۔۔جالب نے اس کام میں شہرت حاصل کی۔۔۔۔۔۔۔میانوالی جلسے کے دوران  جب۔۔۔۔۔۔۔گورنر امیر خان کے۔۔۔۔غنڈوں نے۔۔۔۔۔فائرنگ کی۔۔۔۔۔توفاطمہ جناح ڈٹ کر کھڑی ہوگئیں۔۔۔۔۔اسی حملے
کی یادگار۔۔۔۔۔۔
*بچوں پہ چلی گولی۔۔۔۔۔۔* *ماں دیکھ کے یہ بولی۔۔۔۔۔۔* نظم ہے۔۔۔۔۔فیض صاحب خاموش حمائتی تھے۔۔۔۔۔۔۔۔
‏چاغی ،لورالائی ،سبی ،ژوب، مالاکنڈ ،باجوڑ، دیر، سوات، سیدو، خیرپور، نوشکی، دالبندین، ڈیرہ بگٹی، ہرنائی، مستونگ، چمن،  سبزباغ، سے فاطمہ جناح کو۔۔کوئی ووٹ نہیں ملا۔۔۔۔۔
سارا اردو اسپیکنگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو جماعت اسلامی کا گڑھ تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فاطمہ جناح کی حمایت کرتا رہا ان کو کراچی سے 1046 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایوب خان کو 837 ووٹ ملے  ،مشرقی پاکستان مس جناح کے ساتھ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فاطمہ جناح کو ڈھاکہ سے 353 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ایوب خان کو ۔۔۔۔۔۔۔۔ 199 ووٹ ملے جس کی سزا اسٹیبلشمنٹ نے یہ دی کہ انہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان سے الگ ہونے پر مجبور کر دیا گیا 
ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایوب، فاطمہ کے ووٹ برابر تھے۔۔۔۔۔۔۔مس جناح کےایجنٹ ایم خمزہ تھے۔۔۔۔۔ اور اے-سی جاویدقریشی۔۔۔۔۔ جو بعد میں۔۔چیف سیکرٹری بنے۔۔۔۔۔۔
‏مس جناح کو۔۔۔۔۔کم ووٹوں سے شکست۔۔۔۔ اکیلی عورت فوج ، بیوروکریٹ، پیروں ، وڈیروں، جاگیر داروں سے مقابلہ کر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ایوب کے 82۔۔۔۔۔۔مس جناح کے 67 ووٹ تھے۔۔۔۔۔اس الیکشن میں جہلم کے چودھری الطاف فاطمہ جناح کے حمائتی تھے۔۔۔۔۔۔۔مگر نواب کالاباغ کے ڈرانے کے بعد۔۔۔۔۔پیچھے ہٹ گئے۔۔۔۔۔۔یہاں تک کہ۔۔جہلم  کے نتیجے پر دستخط کیلئے۔۔۔۔۔۔مس جناح  کے پولنگ ایجنٹ گجرات سے آئے۔۔۔۔۔اسطرح کی دھونس اور دھاندلی عام رہی 

*پھر کچھ یوں ہوا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*   
*جمہوریت ہار گئی اور ہمیشہ کیلئے غلام بنالی گئی جو ہنوز اسٹیبلشمنٹ کی داسی ہے* 

اس سارے قصے میں ایک بات کافی اہمیت کی حامل ہے اور وہ یہ ہے کہ آج بھی اسمبلیوں میں انہی سیاسی لیڈروں کی اولادیں موجود ہیں ، پاکستان کی عوام نے کوئی نیا لیڈر پیدا نہیں کیا ۔

*‏حوالے کیلئے دیکھئے*
ڈکٹیٹرکون۔۔ایس-ایم-ظفر۔۔
میرا سیاسی سفر۔۔حسن محمود۔۔
فاطمہ جناح۔۔۔۔۔ابراھیم جلیس  ۔۔مادرملت۔۔۔۔۔ظفرانصاری۔۔
فاطمہ جناح۔۔حیات وخدمات۔۔۔۔۔۔وکیل انجم
.اور کئی پرانی اخبارات۔۔

Saturday, June 26, 2021

نوازشریف ‏کے ‏35 ‏سال

‏نواز شریف کی 35 سال کی حکمرانی کی ایک جھلک اہل یوتھ شرمندہ نہ ہوں 
۔۔۔اسکندر مرزا 
چوتھے گورنر جنرل پاکستان
مدت منصب 
6 اکتوبر 1955 سے 27 اکتوبر 1958 تک 
اقتدار کی مدت معیاد 3 سال 21 دن 
جنرل ایوب خان 
دوسرے صدر پاکستان
مدت منصب
27 اکتوبر 1958 سے 25 مارچ 1969 تک 
مدت اقتدار 10‏سال 4 ماہ اور 28 دن 

یحیی خان
تیسرے صدر پاکستان
مدت منصب
25 مارچ 1969 سے 20 دسمبر 1971 تک 
مدت اقتدار 
2 سال 9 ماہ اور 25 دن 

ضیاالحق 
چھٹے صدر پاکستان
مدت منصب
16 ستمبر 1978 سے 17 اگست 1988 تک
مدت اقتدار 
9 سال 11 ماہ 1 دن 

جنرل پرویز مشرف

12 اکتوبر 1999 سے 18 اگست 2008 تک‏ مدت اقتدار 
9 سال 10 ماہ 6 دن 
یہ تمام کے تمام جمعوریت کے چمپیئن تھے
72 سالوں میں 
جن سب کا ملا کر 
مدت اقتدار
36 سال 6 ماہ اور 7 دن 
بنتا ہے 
اب پیچھے باقی بچے 34 سال 5 ماہ اور 23 دن 
جس میں قائد اعظم کی حکومت بھی نواز شریف نے کی 
لیاقت علی خان کا دور حکومت بھی نواز شریف کا‏المختصر 1947 سے 1955 تک نواز شریف صاحب اقتدار تھا 
1972 سے 5 جولائی 1977 کو بھی نواز شریف کی حکومت تھی
1988 سے 1990 میں بے نظیر کی جگہ بھی نواز شریف کی حکومت تھی 
نگران حکومت کا وزیر اعظم معین قریشی ہو مصطفی جتوئی ہو یا کوئی بھی وہ بھی نوازشریف ہی کی حکومت تھی‏2008 سے 2013 تک زرداری نہیں بلکہ نواز کی حکومت تھی 25 جولائی 2018 سے اب تک نواز ہی کی حکومت ہے 
۔۔۔۔
سچ تو یہ ہے کہ 
نواز شریف کا دور اقتدار 
6 نومبر 1990 سے 18 اپریل 1993 تک
2 سال 6 ماہ اور 12 دن 
دوسرا دور اقتدار 
17 فروری 1997 سے 12 اکتوبر 1999 تک 
2 سال 7 ماہ 29 دن 
اور‏تیسرا دور اقتدار
5 جون 2013 سے 
28 جولائی 2017 تک 
جو کہ 4 سال 1 ماہ اور 23 دن بنتا ہے 
جو کہ سبھی دور اقتدار کو ملا کر 
 9 سال 3 ماہ اور 12 دن بنتے ہیں 
ان 9 سال 3 ماہ اور 12 دن میں ملک بھر میں موٹرویز کا جال۔۔۔ایٹمی دھماکے۔۔۔
جے ایف 17۔۔۔۔ میٹروز ۔۔۔ اورنج ٹرین۔۔
ہاسپٹلز۔۔‏کالجز ۔۔۔یونیورسٹیز۔۔۔ نیو ائیرپورٹس۔۔ چشمہ ایٹمی بجلی گھر۔۔۔ تھر کول پاور پلانٹ 
قائد اعظم سولر پراجیکٹ۔۔۔ نیلم جہلم ہائڈرل پاور پروجیکٹ۔۔معیشت کی بحالی۔۔۔ امن و امان کی بحالئ اور دھشت گردگی کے خلاف جنگ۔۔روشن پاکستان
نجانے کیا کیا پرانے پاکستان کو دے گئے. 

Tuesday, June 15, 2021

سیاستدانوں ‏کے ‏اخراجات

میں اس تحریر سے بالکل بھی متفق نہیں ہوں کیونکہ ایسی پوسٹیں *پاپوشنگر* سے گھڑ گھڑ کر پھیلائی جاتی ہیں تاکہ عوام میں جمہوریت کو بدنام کیا جائے اور آمریت کے حق میں رائے عامہ ہموار کی جاسکے.

ایک طرف تو آپ یہ بھی برداشت نہیں کرتے کہ سیاسی لوگوں کا (خواہ وہ کسی بھی سطح کے ہوں) کوئی ذاتی کاروبار ہو. اگر وہ ملازمت میں ہوں تو وہ سیاست میں نہیں رہ سکتے. اور پھر آپ انہیں اسمبلی میں خدمات انجام دینے کے معاوضے کے بھی مخالف ہیں. پھر ان کا ذریعہ آمدن ہونا کیا چاہیے؟

اگر اینٹائٹلمنٹ (entitlements) بند کرنی ہیں تو ہر بلا تخصیص ہر سطح پہ بند ہونگی، خواہ وہ سیاستدان ہوں، یا *کسی بھی* محکمے کے سرکاری افسران و ملازمین ہوں. 

یاد رکھیں، ہمارے نمائندے یہی سیاستدان ہیں. انہوں نے ہی ہمارے مفادات کا تحفظ کرنا ہے اور انہوں نے ووٹ مانگنے ہمارے پاس ہی آنا ہے. جو لوگ بزور اسلحہ ہم پہ مسلط ہوجائیں، وہ ہمارے نمائندے نہیں بلکہ آقا بن کر آتے ہیں. بزور اسلحہ تو ہمارے گھروں میں ڈاکو بھی گھس جاتے ہیں، ایسے لوگ کسی صورت میں ہمیں قابل قبول نہیں ہیں.

عوامی نمائندوں کے حوالے سے ہمارے پاس یہ آپشن موجود رہتا ہے کہ اگر انہوں نے ایک مدت کے دوران خراب کارگردگی دکھائی ہو، تو اگلی بار انہیں ووٹ نہ دیا جائے (بشرطیکہ کہ انہیں مدت پوری کرنے کا موقع ملے). لیکن بزور اسلحہ آنے والوں کے سامنے عوام مکمل طور پہ بےبس ہوتے ہیں.

ایک بات پتھر پہ لکیر ہے کہ بیرونی ممالک کے بنکوں میں پڑے جس 200 ارب کا ڈھندورا عمران خان کنٹینر پہ کھڑا ہو کر پانچ سال پیٹتا رہا ہے، اگر وہ سیاستدانوں کے ہوتے تو عمران خان کبھی بھی اس کیس کو بند نہ کرتا.

Monday, May 31, 2021

جوائنٹ ‏فیملی ‏سسٹم

پاکستان میں دو قسم کا جوائنٹ فیملی سسٹم رائج ہے. ایک پنجاب والا جو ہم نے ہندو سے وراثت میں لیا ہے. اس نظام کے تحت بیاہ کر آنے والی ایک عورت سارے خاندان کی ملازم، غلام یا خدمتگار ہوتی ہے. اگر اسی سسٹم کی تعریف مرد کے حوالے سے کی جائے تو تعریف مزید مختصر اور جامع ہوجاتی ہے یعنی، ایک کارآمد شخص کے وسائل پہ بہت سے ناکارہ افراد کو پالنے کا نام جوائنٹ فیملی سسٹم ہے۔

جوائنٹ فیملی سسٹم کی دوسری قسم وہ ہے جو ہمارے صوبے خیبر پختونخواہ میں رائج ہے اور میری نظر میں عین اسلام کے مطابق ہے. وہاں جس لڑکے کی شادی کی جاتی ہے، اسے ایک کمرہ، حجرہ یا پورشن، جو بھی دستیاب وسائل ہوں، بنا کر پہلے ہی دن سے علیحدہ کردیا جاتا ہے. یہ وہ صورتحال ہے کہ آنے والی عورت کے لئے دیور، جیٹھ، سسر وغیرہ سے پردہ کرنے میں ہرگز کوئی مشکل پیش نہیں آتی. دیور جیٹھ حضرات چاہے کاغز چن کر گزارہ کریں، وہ بھائی کی آمدنی کے حقدار نہیں ہوتے. جہاں تک ساس سسر کا کھانا پکانا، کپڑے دھونا اور دیگر امور ہوتے ہیں، وہ اسی عورت کے ہاتھوں انجام پاتے ہیں مگر تیار شدہ کھانا کپڑے وغیرہ شوہر یا بچوں کے ہاتھوں پہنچائے جاتے ہیں، اسے کسی مرد کا سامنا نہیں کرنا ہوتا۔

دراصل ہم اپنی غربت کی وجہ سے جوائنٹ فیملی سسٹم کا سہارا لینے پہ مجبور ہوتے ہیں لیکن اسے لبادہ اسلام کا اوڑھاتے ہیں. میرے خیال میں جہاں مجبوری ہو، اسے تسلیم کرنا چاہیے لیکن اسے کیموفلاج ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔

Wednesday, May 26, 2021

برطانیہ ‏کے ‏غریب ‏ترین پیر ‏

برطانیہ کے غریب ترین پیر
==========================

انگلینڈ میں مقیم چند پاکستانی پیر صاحبان کی معلوم دولت کا تخمینہ ( آف شور دولت اور ٹرسٹ اس میں شامل نہیں ) 

نمبر 1۔ صوفی جنید نقشبندی Grandson صوفی عبداللہ نقشبندی ، سجادہ نشین آستانۂ عالیہ گھمکول شریف ، برمنگھم 132 ملین پاؤنڈ۔ پاکستانی 290 ارب تقریباً

نمبر 2۔ پیر سلطان نیاز الحسن باہو ، سجادہ نشین آستانۂ عالیہ سلطان باہو ، برمنگھم۔ 80 ملین پاؤنڈ ، 176 ارب روپے تقریباً 

نمبر 3۔ پیر سلطان فیاض الحسن باہو ، اسسٹنٹ سجادہ نشین آستانۂ عالیہ سلطان باہو ، برمنگھم 83 ملین پاؤنڈ ، 183 ارب روپے تقریباً 

نمبر 4۔ پیر نورالعارفین صدیقی ، سجادہ نشین آستانۂ عالیہ نیریاں شریف ، برمنگھم ، 77 ملین پاؤنڈ ، 170 ارب روپے تقریباً 

نمبر 5۔ پیرزادہ امداد حسین ، مہتمم جامعہ الکرم نوٹنگھم ، 76 ملین پاؤنڈ ، 168 ارب روپے تقریباً 

نمبر 6۔ پیر معروف حسین شاہ نوشاہی ، آستانۂ عالیہ نوشاہیہ بریڈفورڈ ، 68 ملین پاؤنڈ ، 150 ارب روپے تقریباً ( پیر معروف حسین صاحب برطانیہ میں وارد ہونے والے سب سے پہلے پیر ہیں ، موصوف اپریل 1961 میں برطانیہ تشریف لائے ، اور اون کی مل میں مزدوری شروع کی ، چند ماہ بعد بریڈ فورڈ میں تبلیغ الاسلام کے نام سے ایک مکان میں مسجد بنائی ، لیکن مریدین کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے اگلے 18 سال ملوں میں مزدوری ہی کرتے رہے ، اس وقت بریڈفورڈ و گرد و نواح میں تیس سے زائد مکانات میں تبلیغ الاسلام کے نام سے مساجد بنا چکے ہیں ، اور ان تمام پراپرٹیز کے بلاشرکتِ غیرے مالک بھی ہیں ، لیکن ان مکانات کی مالیت 68 ملین پاؤنڈ میں شامل نہیں ، پیر صاحب اس لحاظ سے بھی بدقسمت ہیں کہ پاکستان میں کسی بڑی گدی کے سجادہ نشین نہ ہونے کی وجہ سے برطانیہ میں ان کے مریدین کی تعداد ابھی تک بیس ہزار سے کم ہے ) 

نمبر 7۔ پیر سید عبدالقادر جیلانی سابق خطیب ٹنچ بھاٹہ راولپنڈی ، مہتمم دارالعلوم قادریہ جیلانیہ لندن ، 62 ملین پاؤنڈ ، پاکستانی 139 ارب روپے تقریباً 

نمبر 8۔ پیر منور حسین جماعتی سجادہ نشین آستانۂ علیہ امیرِ ملت پیر جماعت علی شاہ برمنگھم ، 60 ملین پاؤنڈ ، پاکستانی 134 ارب روپے تقریباً 

نمبر 9۔ پیر حبیب الرحمن محبوب ، سجادہ نشین آستانۂ عالیہ ڈھانگری شریف ، بریڈفورڈ ، 32 ملین پاؤنڈ ، پاکستانی 71 ارب روپے تقریباً 

نمبر 10۔ پیرعرفان مشہدی ، سجادہ نشین آستانۂ عالیہ بکھی شریف بریڈفورڈ ، پیر عرفان شاہ صاحب ان پیروں میں سب سے غریب ترین پیر ہیں کیونکہ ان کی دولت 2 ملین پاؤنڈ یعنی پاکستانی صرف 44 کروڑ روپے ہے۔
تلک عشرة کاملة

مندرجہ بالا تمام دس پیر صاحبان کا تعلق پاکستان و آزاد کشمیر سے ہے۔ جو برٹش نیشنیلٹی ہولڈر اور برطانیہ میں مقیم ہیں۔

طاہر القادری سمیت وہ تمام پیر صاحبان جنہوں نے اپنی دولت ٹرسٹ ( این جی اوز ) کے پردے میں چھپائی ہوئی ہے۔ وہ اس لسٹ میں شامل نہیں۔

نیز پاکستان میں مقیم جو پیر صاحبان سالانہ یہاں سے اربوں روپے کے نذرانے بٹورنے کے لیے تشریف لاتے ہیں وہ بھی اس لسٹ میں شامل نہیں۔

مندرجہ بالا دس پیر صاحبان کی اجتماعی دولت سے کئی گنا زیادہ دولت کے مالک “ پیر ہاشم الگیلانی البغدادی “ ہیں ، جو آستانۂ عالیہ شیخ عبدالقادر جیلانی رح بغداد کے گدی نشین ہیں ، یہ پیر صاحب بھی برٹش نیشنلیٹی ہولڈر اور مقیمِ برطانیہ ہیں۔ جیسے پاکستانی نژاد برطانوی پیر کبھی کبھی پاکستان دورہ پہ تشریف لے جاتے ہیں ، اسی طرح یہ بھی کبھی کبھی بغداد کے دورہ پہ تشریف لے جاتے ہیں۔

پسِ نوشت!!
آج ایک بڑے پیر صاحب کی لیٹسٹ ترین کار جس کی پاکستان میں مالیت دس کروڑ کے قریب ہے ، بمپر پہ معمولی سکریچز ختم کروانے میرے پاس تشریف لائی ( پیروں کی گاڑیاں بھی تو مقدس ہوتی ہیں نا 😜 ) تو سوچا ، ذرا غریب ترین پیر صاحبان کی دولت کا امیر مریدین کے سامنے پول کھولا جائے🤐🤐

تحریر و تحقیق ؛ صاحبزادہ ضیاءالرحمٰن ناصر 
سجادہ نشین آستانۂ عالیہ “ کار باڈی ریپئر “ مانچسٹرشریف

Tuesday, May 25, 2021

لیاقت ‏علی ‏خان ‏

👈 مئی 2021 کے اوائل میں ایبٹ آباد میں ایک تاریخی شخصیت 106 سال کی عمر میں وفات پا گئیں ۔ آپ کو جان کر حیرت ہو گی کہ وہ کون سی شخصیت تھی جو گمنام رہی ۔تو وہ اس سید اکبر کی بیوی تھی جس نے 1951 میں ہمارے پہلے پی ایم لیاقت علی خان کا لیاقت باغ میں قتل کیا تھا ۔

اس سید اکبر کو تو موقع پر ہی پکڑنے کی بجائے قتل کیا گیا تھا۔مگر اس کے چار بیٹوں اور بیوہ کو ایبٹ آباد کنج قدیم میں ایک گھر آلاٹ کیا گیا اور سخت پہرے میں اس وقت کی جدید ترین سہولیات  بھی مہیا  کی گئی تھیں۔ اس کا بڑا بیٹا دلاور خان جو اس وقت 8 سال کا تھا آج بھی 85 سال کی عمر میں زندہ سلامت اپنے ذاتی بہت بڑے گھر میں شملہ ہل بانڈہ املوک میں رہائش پزیر ہے ۔کیونکہ جو گھر ان کو اور اس کی ماں کو آلاٹ کیا گیا تھا وہ بیوہ کے نام پہ تھا اور ان کا بچپن وہاں گزرا. 

اسی دوران پہرہ دینے والے سپاہی سے ان کی ماں نے شادی کر لی اور اس کے  ہاں 5 بچے یعنی چار بیٹے اور ایک بیٹی  کی مزید پیدائش ہوئی، 8 بھائی اور ایک بہن والا کنبہ نہایت خوشحال زندگی گزارتا رہا۔ 

بالآخر دلاور خان کی شادی بھی اس کے دوسرے پاکستانی والد بدل زمان خان نے اپنی رشتہ دار سے کروائی جو  سات بچوں یعنی چار بیٹوں اور تین بیٹیوں کی ماں ہے ،سید اکبر کے باقی تین بیٹے یکے بعد دیگرے امریکہ میں سیٹل کر دیئے گئے۔

دلاور خان شادی کے کچھ عرصہ بعد کابل گیا، بقول اس کےاپنی آبائی زمینیں دیکھنے ۔اور اپنی بیوی اور ایک ہی بیٹا جو اس وقت تھا اس کو ماں کے پاس چھوڑ رکھا تھا۔ 8 سال بعد واپس آیا اور بیوی بچے کو بھی لے گیا۔ مگر کچھ عرصہ آنا جانا کرتا رہا اور بالآخر  پچھلے 50 سال سے مستقل اپنے ذاتی گھر میں مقیم ہے۔ الاٹ ہوا گھر ماں نے فروخت کر دیا ۔اور دوسرے خاوند کے بچوں کے ساتھ نئے بنگلوں میں رہائش پزیر تھی اور بالآخر دنیا سے رخصت ہوگئی۔

امید ہے آپ لوگوں کو اس پی ایم کے قتل کے بارے کچھ تو سمجھ آئی ہو گی۔

(قمر اللہ چودھری)


👈 برٹش انڈین آرمی کے میجر جنرل ہیکٹر پینٹ کی بیٹی شیلا آئرن پینٹ ، ایک برطانوی خاتون جنہوں نے  لکھنو یونیورسٹی سے گریجویٹ کیا۔ ان کی والدہ برہمن فیملی سے تھیں جنہوں نے کرسچن مذہب اختیار کیا تھا۔ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز بطور ٹیچر گوکھلے میموریل اسکول کلکتہ سے کیا۔ 1931 میں ماسٹرز کرنے کے بعد وہ اندر پرستھا کالج دہلی میں بطور اکنامک پروفیسر تعینات ھوئیں. کیا آپ جانتے ہیں یہ پاکستانی تاریخ کی کون سی مشہور ترین شخصیت تھیں ؟

شیلہ آئرن پینٹ نے 1932 میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم محترم لیاقت علی خان کے ساتھ شادی کی. مسلمان ہونے کے بعد انہوں نے اپنا نام بیگم رعنا لیاقت علی رکھ لیا.

یوں تو وہ بہت ہی عمدہ اخلاق اور اعلیٰ کردار کی کی مالک تھیں لیکن ایک ایسا سچ جو بہت کم لوگوں کو شاید معلوم ہو وہ یہ کہ جب وہ پاکستان کی سفیر بن کر ہالینڈ گئیں تو ہالینڈ کی ملکہ ان کی بہت گہری دوست بن گئیں. ان دونوں کی شامیں اکثر شطرنج کھیلتے ہوئے گزرتیں. ایک دن ہالینڈ کی ملکہ نے ان سے کہا کہ اگر آج کی بازی تم جیت گئی تو میں اپنا ذاتی شاہی قلعہ تمہارے نام کر دوں گی. بیگم صاحبہ نے اس کی اس بات کو منظور کرلیا اور کچھ دیر بعد بیگم رعنا لیاقت علی شطرنج کی بازی جیت گئیں. ملکہ نے وعدے کے مطابق شاہی قلعہ ان کے نام کر دیا۔

ماضی کے اس سچے واقعے کا ایک حیرت انگیز اور خوشگوار پہلو یہ ہے کہ بطور سفیر ان کی وہاں ملازمت ختم ہوئی تو اپنے اس ذاتی قلعے کو انہوں نے پاکستانی سفارت خانے کو ہدیہ کر دیا. آج بھی پاکستانی سفارتخانہ اسی شاہی قلعے میں واقع ہے۔

الله تعالٰی نے ماضی میں اس ملک کو ایسے زرخیز لوگ دیئے تھے لیکن افسوس کہ آج پاکستانیوں نے ان کی قدر نہیں کی.
اللہ انکے درجات بلند فرمائے آمین


👈 ‏تلخ حقیقت
لیاقت علی خان کو جس نے شہید کیا اس قاتل کی بیوہ کو پاکستان آرمی کی طرف سے وظیفہ دیا جاتا رہا اور وزیر اعظم لیاقت علی خان کی بیوہ رعنا لیاقت علی خان کی پینشن حکومت پاکستان کی جانب سے روک دی گئی تھی 

ہے نہ مزہ کی بات

Saturday, May 8, 2021

پاکستان کے وڈیروں اور جاگیردار خاندانوں کی اصل تاریخ

 

پاکستان کے وڈیروں اور جاگیردار خاندانوں کی اصل تاریخ

 

غلام مرتضیٰ بھٹو۔ شاہ نواز بھٹو (1888 – 1957)۔ ذوالفقار علی بھٹو (1928 – 1979)۔ نصرت اصفہانی بھٹو، شیعہ ایرانی لڑکی جس سے بھٹو نے شادی کی (1929 – 2011)۔ نصرت بھٹو کی شہرت ذولفقار علی بھٹو کی دوسری بیوی کے بطور ہے۔ اس کی اولاد بینظیر بھٹو، مرتضی بھٹو، شاہنواز بھٹو، اور صنم بھٹو ہیں۔ نصرت بھٹو نسلاً ایرانی صوبہ کردستان سے تعلق رکھتی تھی اور 2010ء میں فوت ہوئی۔ 

 میں چارلس نیپیئر کی قیادت میں انگریزوں نے سندھ پہ قبضہ کر لیا اور یہاں سے 1843ء دولت کی لوٹ مار کے لیے ایک خاص طبقہ پیدا کیا جس کے ذمے عوام سے ظالمانہ لگان یعنی ٹیکس کی وصولی اور زمینوں پہ قبضہ تھا۔ اس سے برصغیر اور سندھ میں وہ طبقہ پیدا ہوا جسے آج وڈیرا، سردار اور جاگیردار کہا جاتا ہے۔ انگریزوں کی انہی مہربانیوں سے بھٹو خاندان آج بھی برصغیر کے امیر ترین خاندانوں میں شمار ہوتا ہے۔ برصغیر کے انہی غدار خاندانوں کی مدد سے انگریز اگلے نوے سال میں برصغیر کی ایک ہزار ملین سٹرلنگ پاؤنڈ دولت اور بے پناہ وسائل لوٹ کر برطانیہ منتقل کرنے میں کامیاب ہوئے جس سے اس خطے یعنی پاکستان اور ہندوستان میں غربت اور ثقافتی محرومی کی وہ فضا پیدا ہوئی جو آج بھی قائم ہے۔ خدا بخش خان اور اس کے بیٹے میر مرتضی خان بھٹو نے انگریزوں اور ان کے حامی سندھی وڈیروں کا راستہ روکنے کی کوشش کی لیکن سب باری باری وفات پاگئے۔ اس کے بعد میر مرتضی خان کے بیٹے شاہنواز بھٹو نے انگریزوں سے مفاہمت کی اور سیاسیات میں حصہ لینا شروع کیا جس سے بھٹو خاندان کی سیاسی زندگی کا آغاز ہوا ۔انگریزوں نے اسے بہت نوازا اور وہ کئی اعلی عہدوں پہ فائز رہا۔

 

شاہنواز بھٹو (1888–1957) برطانوی راج میں لاڑکانہ، سندھ، موجودہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک سیاست دان تھے۔ سر شاہ نواز بھٹو مشیر اعلی حکومت بمبئی اور جوناگڑھ کی مسلم ریاست میں دیوان تھے۔ وہ انگریزوں کی بمبئی پریزیڈنسی کا وزیر بھی رہا۔ ان کو برطانیہ سے وفاداری اور ملک و قوم سے غداری کی وجہ سے پہلے سی آئی ای اور بعد ازاں برطانیہ کی طرف سے سر کا خطاب دیا گیا۔ بھٹو خاندان سندھ میں برطانوی غاصبانہ قبضے کو مستحکم رکھنے میں ایک اہم غدار خاندان تھا۔ بھٹو خاندان نے سندھ پہ انگریزوں کا قبضہ مستحکم رکھنے کے لیے اور عوام پہ اپنا اثرو رسوخ قائم رکھنے کے لیے سندھ کے پیروں کا استعمال کیا۔ یہ خاندان سندھ کا ایک جاگیردار خاندان تھا جو راجپوت نسل سے تعلق رکھتا تھا۔ اس خاندان کے ابتدائی افراد جیسا کہ محمد بخش بھٹو نے انگریزوں کے خلاف مزاحمت کی لیکن بعد کی ساری نسلیں غدار ثابت ہوئیں اور اس پہ اس خاندان کے کئی افراد کو برطانیہ کی طرف سے سر، نواب اور بہادر کے خطاب دیے گئے۔ اس خاندان کو ملک و قوم سے غداری کے سلسلے میں بیشمار زمینیں دی گئیں جو سندھ کے غریب مزدوروں سے لوٹی گئی تھیں۔ ایک وقت تھا کہ یہ خاندان اڑھائی لاکھ ایکڑ رقبے کا مالک تھا جو انگریز دور اور اس کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت کی صورت میں ملک و قوم کا استحصال کرتا رہا اور آج تک اس خاندان کا شمار پاکستان کے امیر ترین خاندانوں میں ہوتا ہے جس کی دولت کا اندازہ کئی ملین ڈالرز میں ہے اور سکھر جیکب آباد عملا ان کی ریاست شمار ہوتے ہیں۔ ان کے بڑے ملک و قوم سے غداری کرکے برطانیہ سے انعامات نہ پاتے تو آج اس خاندان کو کوئی نہ جانتا ہوتا۔ یہاں تک کہ یہ خاندان جو حقیقی طور پہ انگریز دور میں تالپوروں کی جگہ برطانیہ کی طرف سے وفاداری کے صلے میں آگے لایا گیا برطانیہ کی مہربانیوں سے اب بھی نہ صرف سندھ بلکہ پاکستان کے امیر ترین خاندانوں میں شمار ہوتا ہے اور یہ دولت وہ تھی جو انگریزوں نے برصغیر کے غریب طبقے کو لوٹ کر اپنے ان غداروں میں تقسیم کی۔

 

حال یہ تھا کہ خود ایک انگریز مصنف ڈیوڈ چیزمین کی کتاب

Landlord power in rural indebtedness in colonial Sindh(1865_1901)

کے مطابق سندھ میں وڈیرے سیاہ و سفید کے مالک تھے اور ان کو برطانیہ کی طرف سے اپنے علاقوں میں بینچ مجسٹریٹ کی حیثیت حاصل تھی کہ وہ جیسے چاہیں غریب عوام کو ظلم کی چکی میں پیس کے رکھیں لیکن برطانیہ کے وفادار رہیں اور اس بدلے میں انہیں برطانیہ سے سر، نواب، خان بہادر کے خطاب اور غریب طبقے سے لوٹی گئی زمینیں ملتی تھیں جس سے نسل در نسل ان کی مالی و سیاسی طاقت میں اضافہ ہوتا گیا اور یہ چند خاندان آج تک برصغیر میں اعلی عہدوں پہ قابض ہیں اور غریب عوام پہ ظلم جو انگریز نے شروع کیا آج تک جاری ہے۔ انگریز کے ان وفاداروں اور ملک و مذہب کے ان غداروں میں وڈیرو غلام قدیر درکھان، میر عبدالحسین خان تالپور (موجودہ سندھ کی سیاستدان فریال تالپور کے اجداد)، غلام رسول جتوئی (جو انگریز کی مہربانی سے آج بھی سندھ میں اعلی حیثیت رکھتا ہے)، بھٹو خاندان کے اللہ بخش بھٹو شامل تھے اور یہ عوامی میٹنگ میں انگریز افسروں کے ساتھ کرسی نشین ہوتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد اس سیاست کے میدان میں بہت سے ایسے افراد بھی آ نکلے جو ان انگریز کے بنائے ہوئے گھرانوں سے تعلق نہیں رکھتے تھے لیکن انھوں نے سیاست کے گر اور چالبازیاں ایسی سیکھیں کہ بڑے بڑے پرانے جغادری سیاسی گھرانوں کو شکست دے کر اس ملک کی سیاست کے مختار بن گئے۔

 

حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی کا خاندان خود کو ”مخدوم“ کہلواتا ہے یعنی وہ خاندان کہ جس کا ہر فرد خدمت کیے جانے کے لائق ہو۔ مگر تاریخ گواہی دیتی ہے کہ یہ خاندان ماضی میں غاصبین ملک کی والہانہ خدمت کیلئے کوشاں و گامزن رہا ہے۔ یہ لوگ ایک طرف اولیاء اکرام کے مزارات مقدسہ کے گدی نشین اور مخدوم بن کر لوگوں کی خدمات و عطیات سمیٹتے رہے اور دوسری طرف گوروں کو اپنا مخدوم بنا کر قتال ملت میں ان کے حلیف بن کر صلے میں جاگیریں لیتے رہے ہیں۔ سیاسی خاندانوں کے بارے حقائق سے پردہ اٹھانے والی مشہور تصنیف سیاست کے فرعون کے مصنف جناب وکیل انجم لکھتے ہیں۔۔۔۔ ”سکھوں کے ابتدائی دور میں موجودہ شاہ محمود قریشی کے ہم نام لکڑ دادا مخدوم شاہ محمود اس خاندان کے سربراہ اور درگاہ کا گدی نشین تھے۔ سکھوں کے نامور حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کے باقاعدہ برسر اقتدار آنے سے پہلے ہی یہ مخدوم کافی زمینوں کے مالک بن چکے تھے اوران کا شمار ملک کے امیرترین خاندانوں میں ہوتا تھا۔ مابعد 1819ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ملتان شہر کو فتح کیا تو انہوں نے مخدوموں کی عزت وتکریم کے پیش نظر انہیں ساڑھے تین ہزار روپے مالیت کی جاگیر عطا کی۔

 

جناب وکیل انجم لکھتے ہیں کہ جب 1847 میں سکھوں کی قوت لڑکھڑانے لگی اور تاجدار برطانیہ کے انگریزوں نے مطلع سیاست پر یونین جیک کا جھنڈا گاڑ دیا تو مخدوم شاہ محمود نے اس زمانے میں انگریز سرکار عالیہ کو جو خفیہ خبریں دیں، وہ ان مخدوموں کے نئے آقا گوروں کیلئے انتہائی مفید و مددگار ثابت ہوئیں۔ جب انگریز نے پنجاب پر پوری طرح قبضہ کر لیا تو انہوں نے مخدوم شاہ محمود کو اعلی خدمات کے معاوضے میں ایک ہزار مالیت کی مستقل جاگیر اور تا زندگی سترہ سو روپے پنشن مقرر کرنے کے علاوہ ایک پورا گاؤں ان کے حوالے کر دیا گیا “۔ وکیل انجم صاحب مذید لکھتے ہیں کہ ” 1857 کی جنگ آزادی کے خونی ہنگاموں میں جب ہندوستان کے کچلے ہوئے عوام نے برطانوی استعمار کے خلاف زندگی اور موت کی حدود کو توڑتے ہوئے آخری جدوجہد کی تو اس نازک مرحلے پر مخدوم شاہ محمود نے انگریز سرکار دولت مدار کی مستحسن خدمت انجام دی – وہ انگریز کمشنر کو ہر ایک قابل ذکر واقعہ کی اطلاع بڑی مستعدی سے دیتے رہے۔ اپنی وفاداری کا مزید ثبوت دینے کیلئے انہوں نے سرکاری فوج میں بیس ہزار سوار اور کافی پیادے بھینٹ چڑھائے۔

 

سرکار کے اس یار وفادار نے اس امداد کے علاوہ پچیس سواروں کی ایک پلٹن بنا کر کرنل ہملٹن کے ہمراہ باغیوں یعنی مجاہدین کی سرکوبی کے لئے روانہ کی اور انگریز آقاؤں کے ساتھ مل کر مجاہدین کے ساتھ خود لڑائیاں لڑیں ۔ مخدوم شاہ محمود کی اس عملی امداد نے انگریزوں کی قوت بڑھانے میں اتنا کام نہیں کیا جتنا کہ ایک مذہبی راہنما کی حیثیت سے ان کے ساتھ تعاون نے اثر کیا- جب مسلمانوں نے دیکھا کہ ایک بڑا مذہبی راہنما انگریزوں کی امداد کررہا ہے تو ان کے جذبات ٹھنڈے پڑ گئے، جس کا جدوجہد آزادی پربہت برا اثر پڑا – ان خدمات جلیلہ کے معاوضے میں تیس ہزار روپے نقد کے علاوہ اٹھارہ سوروپے مالیت کی جاگیر اور آٹھ کنوں پر مشتمل زمین بھی سرکار برطانیہ کی طرف سے عطا گئی ۔ موجودہ شاہ محمود قریشی کے ہمنام ان کے بزرگ لکڑ دادا شاہ محمود قریشی 1869ء میں وفات پا گئے تو ان کے بعد ان کا بیٹا بہاول بخش حضرت شاہ رکن عالم رح اور حضرت بہاء الدین رح کے مزارات کا سجادہ نشین بنا۔

 

دلچسب بات ہے کہ جید اولیا اللہ کے اس گدی نشین بہاول بخش کی دستار بندی ایک انگریز ڈپٹی کمشنر کے ہاتھوں بڑی شان وشوکت سے ہوئی۔ احباب یاد رہے کہ جب انگریزوں اور افغانوں کے مابین جنگ ہوئی تو اس جنگ میں انگریزو ں کوعبرتناک شکست ہوئی۔ اس جنگ میں بھی جہاں ایک طرف مجاہدین اسلام آج پاکستان کے علاقے میں واقع پہاڑوں میں افغانوں کے ہمراہ انگریزوں کیخلاف لڑ رہے تھے۔ تو دوسری طرف جید اولیاءکرام کے گدی نشین انگریزوں کا ساتھ دے کر امت مسلمہ سے وہ غداری کے عوض وہ انگریز سے اپنی خدمات رذیلہ کا صلہ وصول کر رہے تھے۔ اس جنگ میں نقل وحمل کے لئے حضرت بہاول بخش نے اونٹوں کا ایک دستہ بھی افغان جنگ میں انگریز سرکار کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ مابعد انہی خدمات کے صلہ میں 1877ء میں بہاول بخش کو آنریری مجسٹر یٹ مقرر کیا گیا اور کچھ عرصہ بعد وہ ملتان میونسپل کمیٹی کے ممبر بنا دیے گئے اور انہیں صوبائی درباری کی نشست بھی الا ٹ ہوگئی۔ بہاول بخش کی افغان جنگ میں انگریزوں کیلئے پیش کی گئی خدمات کو سراہنے کیلئے 1880 ء میں لاہور میں ایک شاندار شاہی دربار لگایا گیا تھا۔۔

 

احباب قابل غور ہے کہ مخدوم شاہ محمود قریشی کے آبا و اجداد اور مرزا غلام قادیانی کے خاندان کا انگریزوں کی ایجنٹی کا کردار کم و بیش ایک جیسا رہا ہے۔ دونوں نے برصغیر میں انگریزوں کیخلاف مسلم مذاحمت کو کچلنے اور گوروں کا تسلط مضبوط کرنے میں ہر مدد فراہم کر کے، گوروں کے کارندوں کا ایک جیسا کردار بخوبی نبھایا۔ اس مخدوم خاندان کی طرف سے انگریزوں کا ساتھ دینے اور قوم سے غداری کا زمانہ بھی وہی ہے جس دور میں انگریزوں کا ایک اور خود کاشتہ پودا مرزا غلام قادیانی انگریزوں کیخلاف آزادی و اسلامی جہاد کی مخالفت میں مغرب برانڈ دجالی نظریات کی تشہیر کر کے اپنے گورے آقاؤں کی نمک حلالی کا حق ادا کر رہا تھا-

 

درگاہ شاہ رکن الدین عالم رح کے آج کے سجادہ نشین مخدوم شاہ محمود قریشی صاحب بھی گوروں کے دست راست اپنے آبا و اجداد کے نقش قدم پر گامزن ہیں۔ کچھ تعجب نہیں کہ موصوف کبھی شرم و حیا کے پیکر پیر صاحب بن کر اپنی مردنیوں کے سر پر دست شفقت دراز فرماتے نظر آتے ہیں۔ اور کبھی سر سے شرم و حیا اتار کر اسلام اور پاکستان کی دشمن ، شراب کے نشے میں بدمست ھنری کلنٹن کے ساتھ سر سے سر جوڑے عاشقانہ مزاج دکھا کر امت مسلمہ کے سر شرم سے جھکا دیتے ہیں۔ صرف پاکستانی پریس ہی میں نہیں بلکہ مغربی پریس میں بھی بیش شمار ایسی تصاویر شائع ہو چکی ہیں کہ موصوف کو یورپی دوروں میں اکثر شراب کی محفلوں میں جام لہراتے دیکھا جاتا رہا ہے۔ عوام کیسے بھول سکتے ہیں کہ یہی شاہ محمود قریشی کبھی پیپلز پارٹی چھوڑ کر نون لیگ میں بھی شامل ہوئے تھے مگر پنجاب کی وزارت اعلی نہ ملنے پر فوری طور پر پیپلز پارٹی میں واپس لوٹ گئے تھے اور حسب دستورِ سیاہ ست ایک بار پھر ہوسِ اقتدار میں عمران خان صاحب کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے، ایک محفوظ و مقبول پلیٹ فارم کی تلاش میں ایک چڑھتے سورج کے پجاری بنے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ان کے آبا و اجداد اپنے سابقہ آقا و حلیف سکھوں کی طاقت کے دم توڑتے ہی ان کا ساتھ چھوڑ کر انگریزوں کے ساتھ جا ملے تھے۔

 

قوم کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ 1857ء کی جنگ میں غداری کرنے والے بابا شاہ محمود قریشی ہوں یا اکیسویں صدی میں پرویز مشرف اور زرداری مافیہ کا حصہ اور امریکہ کا خادم بن کر ملک و ملت کے سودے کرنے والا موجودہ شاہ محمود قریشی، یہ لوگ نسل در نسل انگریز کے غلام ابن غلام اور غدارین قوم و ملت ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ایسے ناعاقبت اندیش اور ضمیر فروش افراد ملک کی ہر ایک سیاسی جماعت میں بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔۔۔۔

بہاول پور میں آباد عربی نزاد قبیلے عباسی کے نواب‘ نواب آف بہاول پور نے انگریز کے ساتھ  وفاداری نبھائی- لہذا انگریز سرکار نے پاکستان کے قیام تک بہاول پور کی ریاست کا والی عربی نزاد قبیلے عباسی کو بنائے رکھا۔

ملتان میں آباد عربی نزاد قبیلے قریشی کے سربراہ اور گدی نشین مخدوم شاہ محمود نے رائے احمد کھرل کی انگریزوں کے خلاف پنجاب کی آزادی کی تحریک میں انگریز کمشنر کومقامی آبادی کی بے چینی کے متعلق معلومات اور اطلاعات پہنچائیں اور سرکاری فوج کی مدد کے لیے پچیس سو سواروں کی ایک ملتانی پلٹن تیار کر کے دی- لہذا انگریزوں نے اس خدمت کے عوض اسے قیمتی جاگیر’ نقد انعام اور آٹھ کنویں زمین عطاء کی-

ملتان میں آباد عربی نزاد قبیلے گیلانی کے سربراہ اور گدی نشین مخدوم سید نور شاہ نے انگریز سرکار کا ساتھ دیا۔ لہذا انگریز سرکار نے اس خدمت کے عوض خلعت اور سند سے نوازا اور بعد میں کاسہ لیسی کے صلے گیلانی خاندان کو جاگیریں بھی ملیں-

ملتان میں آباد پٹھان قبیلے کے گردیزی خاندان نے انگریز سرکار کا بھرپور ساتھ دیا۔ لہذا انگریز سرکار نے انگریز کی مدد کر نے کے صلے میں جاگیریں عطاء کیں-

خان گڑھ میں آباد پٹھان قبیلے کے نوابزادگان کے جد امجد اللہ داد خان نے انگریزوں کے خلاف تحریک چلانے والوں کو کچلنے میں انگریزوں کا بھرپور ساتھ دیا- لہذا نگریز سرکار نے اس “ خدمت “ کے عوض اسے دو بار خصوصی خلعت دی اور انعام میں جاگیریں عطاء کیں- نوابزادہ نصر اللہ ان کی اولاد سے تھے۔

قصور میں آباد پٹھان قبیلے ممدوٹ نے انگریز کا بھرپور ساتھ دیا چنانچہ اس خاندان کو قیمتی جاگیر، عہدے اور منصب دیئے گئے-

عیسیٰ خیل میں آباد پٹھان قبیلے کے نیازیوں نے انگریز کا بھرپور ساتھ دیا چنانچہ اس خاندان کو قیمتی جاگیر، عہدے اور منصب دیئے گئے-

راجن پور میں آباد بلوچ قبیلے مزاری کے سردار امام بخش مزاری نے کھل کر انگریزوں کا ساتھ دیا- لہذا انگریز سرکار نے انگریز کی مدد کرنے کے صلے میں اسے سر کا خطاب دیا اور جاگیریں عطا کیں-

راجن پور میں آباد بلوچ قبیلے دریشک کے سردار بجاران خان دریشک نے انگریزوں کے خلاف تحریک چلانے والوں کے خلاف لڑنے کے لیے دریشکوں کا ایک خصوصی دستہ انگریزوں کے پاس بھیجا- لہذا انگریز سرکار نے انگریز کی مدد کرنے کے صلے میں دریشکوں کو جاگیریں عطا کیں-

مکھڈ شریف کے عربی نزاد پیروں نے انگریز کا بھرپور ساتھ دیا چنانچہ اس خاندان کو قیمتی جاگیر، عہدے اور منصب دیئے گئے-

لاھور میں آباد اہل تشیع ایرانی نسل قزلباش سردار علی رضا نے ایک گھوڑ سوار دستہ تیار کر کے جنگ آزادی میں لڑنے والے مسلمان اور ھندو سپاھیوں کے خلاف انگریز کو بھیجا۔ اسی دستے کے ساتھ علی رضا کا بھائی محمد تقی خان تھا جو مجاھدوں کے ساتھ لڑائی میں مارا گیا- قزلباشوں کو جنگ کے بعد خطاب ‘ سند ‘ وظیفے اور 147 دیہات کی تعلقہ داری سونپ دی گئی-

لاھور کے کلاًں شیخ خاندان کے سربراہ شیخ امام دین نے جنگ آزادی میں دو دستے خصوصی طور پر دھلی بھجوائے جنھوں نے حریت پسندوں کا خون بہایا۔ انہی خدمات کی بدلے انگریز نے ان کو بہت بڑی جاگیر بخشی-

گجرانوالہ کے چٹھہ خاندان کے جان محمد نے1857 میں انگریز کا بھرپور ساتھ دیا چنانچہ اس خاندان کو قیمتی جاگیر، عہدے اور منصب دیئے گئے-

سرگودھا کے ٹوانوں کے گھڑ سواروں نے دھلی کی تسخیر میں بہادری کے خوب جوھر دکھائے چنانچہ انہیں خطاب، پنشن اور لمبی چوڑی جاگیریں ملیں-

خانیوال کے ڈاھوں نے انگریز کا بھرپور ساتھ دیا چنانچہ اس خاندان کو قیمتی جاگیر، عہدے اور منصب دیئے گئے-

کالاباغ کے نوابوں نے انگریز کا بھرپور ساتھ دیا چنانچہ اس خاندان کو قیمتی جاگیر، عہدے اور منصب دیئے گئے-

ملتان کے مشہور معروف قریشی خاندان کے مخدوم شاہ محمود نے 1857 نے انگریز کمشنر کومقامی آبادی کی بے چینی کے متعلق معلومات اور اطلاعات پہنچایئں اور سرکاری فوج کی مدد کے لیے پچیس سواروں کی ایک ملتانی پلٹن تیار کر کے دہلی پہنچائی- اس کی خدمت کے عوض اسے قیمتی تحفے دیے گئے۔

کھرلوں کا وڈیرا احمد خان انگریز کا جاسوس بنا رہا اور جنگ کے بعد اسے خان بہادر کا خطاب خلعت اور وظیفہ کے علاوہ جاگیر بھی دی گئی-

جھنگ کے سیًال سردار بھی کسی سے پیچھے نہ رہے انہوں نے بھی انگریز فوج کی مدد کے لیے ایک فوج بھیجی جس پر انہیں جاگیریں اور خلعتیں ملیں-

سرگودھا کے ٹوانوں کے گھڑ سواروں نے دہلی کی تسخیر میں بہادری کے خوب جوہر دکھائے چنانچہ انہیں خطاب، پنشن اور لمبی چوڑی جاگیریں ملیں-

اسی قسم کی غدًارانہ خدمات کے لیے انگریز نے نونوں، پند دادن خان کے کھوکھروں، جودھروں، گھیبوں، خانوں، مکھڈ شریف کے پیروں، اعوانوں، کالاباغ کے نوابوں، عیسیٰ خیل کے نیازیوں اور کئی دوسرے سرکردہ خاندانوں کو عزت، خطاب، وظیفے اور وسیع جاگیریں عطا ہویئں- پاکستانیوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ شہیدوں کے ساتھ غداری کی وجہ سے انگریز دور میں سر بلند ہونے والوں کی اولاد آج بھی ممتاز اورمعزز ہے۔

 

برصغیر میں قدم جمانے کےلئے انگریزوں نے یہاں کے وڈیروں‘ جاگیرداروں‘ نوابوں‘ شہزادوں‘ سول‘ پولیس اور آرمی سروس کے ممبران پر مسلسل نوازشات کے ذریعے وفاداری یقینی بنائی۔ نتیجتاً یہ مراعات یافتہ لوگ انگریزوں سے بھی زیادہ انگریزوں کے وفادار ثابت ہوئے۔ پھر ان کے ذریعہ سے انگریزوں نے بقیہ عوام کو قابو میں رکھا۔ اب انگریزوں نے ان لوگوں کو ترغیب دی کہ وہ اپنے بچوں کو پڑھائیں۔ یہ کلاسز طویل عرصہ سے انگریزوں کی سروس میں تھیں اور ان کی مراعات یافتہ بھی تھے لہٰذا وفاداری کے لحاظ سے بھی قابل اعتماد تھے۔ انگریزوں کی سرپرستی انہیں خوب راس آئی اور خوب ترقی کی۔ ان لوگوں کی اولادوں کو فوج میں لانے کا مقصد ان کلاسز کی مسلسل وفاداری یقینی بنانی تھی اس لئے انگریزوں نے انکے بچوں کےلئے خصوصی تعلیم کا بندوبست کیا۔ ان کےلئے چیفس کالج جیسے کئی ایلیٹ تعلیمی ادارے کھولے۔

 

ملٹری اور کیڈٹ کالجز اسی دور میں متعارف کرا ئے گئے تھے۔ ان ایلیٹ تعلیمی اداروں میں سرداروں‘ جاگیرداروں اور نوابوں وغیرہ کے بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی تھی بلکہ انہیں چھوٹی عمر میں ہی ان اداروں کی نرسری برانچز میں داخل کیا جاتا تھا جہاں انگریز آیائیں انکی تربیت کرتیں۔ بلوچ سرداروں میں مری‘ بگٹی‘ مزاری اور دیگر اہم قبائل کے بچوں کو بچپن میں ہی داخل کیا جاتا تھا۔ شیرمحمدمری‘ محمد اکبر خان بگٹی‘ میر بلخ شیرمزاری اورمیر شیر بار خان مزاری وغیرہ کو اسی پالیسی کے تحت تعلیم دی گئی بلکہ اعلیٰ تعلیم کےلئے انہیں انگلینڈ بھی بھیجا گیا۔

ایسے لوگوں کو تعلیم دینے سے انگریزوں کودو اہم فائدے ہوتے۔ ایک تو ان لوگوں نے انگریزی علم اپنے اپنے علاقوں میں بلند رکھا جس سے انگریزوں کو کسی قسم کی بغاوت کا خطرہ نہ رہا۔ دوسرا اس دور میں تحریک آزادی زور پکڑ رہی تھی اور یہ لوگ تحریک آزادی کے سخت مخالف تھے۔ ان انگریزی سکولوں کے تعلیم یافتہ نوابزدگان کی وجہ سے انگریز سامراج کو سہارا ملا۔ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے انگریزوں سے بھی پہلے اپنے دیس کے قوم پرستوں کا مقابلہ کیا۔ اگر ان لوگوں کا بس چلتا تو یہ برصغیر کو کبھی آزاد نہ ہونے دیتے۔.

 

برصغیر میں برطانوی اقتدار کی توسیع کے دوران، بلوچ سرداروں کو نواب کے خطاب کی پیشکش کرتے ہوئے انکی حمایت حاصل کی اور یوں برطانوی اپنی نئی ریاست کی مغربی سرحد میں نوآبادیاتی طاقت کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئے۔ برِصغیر کی تقسیم کے بعد یہی طرزِ عمل پاکستان کے وڈیروں اور جاگیرداروں کو ورثہ میں ملا۔ سادہ الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں حکمرانی چھلانگ لگا کران روایتی جاگیرداروں اور وڈیروں کے ہاتھ آئی۔ اسی صورتحال میں ملٹری اور سول بیوروکریسی جس کی تربیت برطانوی سامراج نے خود کی تھی، کے ساتھ ان جاگیرداروں اور وڈیروں کا تضاد بننا عین فطری تھا۔ یہ وڈیرے اور جاگیردار جو یونینسٹ پارٹی کے پلیٹ فارم سے پاکستان کی تخلیق سے چند سال ہی قبل مسلم لیگ میں شامل ہوئے تھے، اپنی جاگیروں اور زمینوں کے تحفظ کے لئے اور اپنے استحصال کو قائم رکھنے کے لئے ملک کی سیاست میں گھس آئے۔ ایسا کرنا اُنکی مجبوری بھی تھا اور ضرورت بھی۔

 

نہری نظام انگریز نے ریونیو حاصل کرنے کے لیے بنایا۔ ریلوے افغانستان تک فوجی ساز و سامان پہنچانے کے لیے اور اسکول و اسپتال براؤن صاحبوں (جو گورے صاحبوں کے حاشیہ بردار تھے) کے لیے۔ ان میں سے کوئی بھی چیز ایسی نہیں تھی جس سے برصغیر کا غریب طبقہ خوشحال ہوا بلکہ یہ طبقہ ہمیشہ انگریزوں اور ان کے دلال وڈیروں سرداروں کے ظلم کی چکی میں پستا رہا اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ برطانیہ نے برعظیم پر اپنی فتوحات کا خاتمہ 1849ء میں پنجاب پر قبضہ کرنے کے بعد مکمل کیا اور شاہی قلعہ لاہور پر برطانیہ نے اپنا جھنڈا لہرایا۔ اس پورے خطے کے انسانوں کو سیاسی طور پر غلام بنانے کی مہم کا یہ آخری معرکہ تھا۔ لاہور جو پہلے ہی تہذیب کا مرکز تھا اور مغلیہ سلطنت کا مضبوط سیاسی قلعہ، اس شہر میں برطانیہ نے نوآبادیاتی مقاصد کے پیش نظر یہاں پر تعلیمی نظام کی بنیاد رکھنی شروع کی۔ 1864ء میں گورنمنٹ کالج لاہور کے بعد 1886ء میں دو سو ایکٹر رقبے پر ایچی سن کالج کی بنیاد رکھی گئی۔ دو جنوری 1886ء کو اس لاہور میں چیفس کالج کی بنیاد رکھی گئی تھی جس کا نام 13 نومبر 1886ء کو تبدیل کر کے ایچی سن کالج رکھ دیا گیا۔

 

اس بورڈنگ کالج میں ابتدائی طور پر پنجاب بھر کے جاگیردار، وڈیرے اور پھر برطانیہ کے لیے بطور سیاسی ایجنڈ کام کرنے والے خاندانوں کے بچوں کے لیے تعلیم کا بندوبست ہوا۔ ایچی سن کالج میں پہلے دن سے ہی بھاری فیسوں کی وجہ سے یہاں پر صرف انہی خاندانوں کے بچوں کی ذہنی آبیاری کی جانے لگی جس کا مقصد مستقبل کے لیے برطانیہ کو اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطروفاداروں کی نئی پود تیار کرنا تھی۔ اس کالج کی خاص بات یہ تھی کہ یہاں پر نافذ ہونے والے تعلیمی نظام اور نصاب تعلیم کو نوآبادیاتی سانچے میں ڈھالا گیا اس کے بعد یہ کالج پھلنے پھولنے لگا۔ برطانیہ کے وفادار پنجاب کے خاندان ہی نہیں بلکہ سندھ کے جاگیرداروں کے بچوں کو بھی اسی کالج میں داخلے دیے گئے۔ جاگیردارخاندانوں کا یہ وہ ٹولہ تھا جو 1857ءکی جنگ آزادی میں قومی غداری کا مظاہرہ کیا اور انگریزوں کی وفاداری کے مرتکب ہوکر برطانیہ کی فتوحات کے جھنڈے پنجاب میں بھی بلند کرائے۔ ایچی سن کالج میں اس نئی وفادارنسل کی تیاری میں بیوروکریسی کا وہ طبقہ بھی تیار ہوا جو برطانوی سامراج کے ساتھ ملکر اس قوم پر غلامی مسلط کرنے میں انگریزوں کی وفاداری کرتا رہا۔

ایچی سن کالج کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ 130سالوں سے یہاں پر صرف اشرافیہ کے بچوں کو پڑھایا جاتا ہے اور آزادی کے بعد بھی خود کو برہمن تصور کرنے والی پاکستانی اشرافیہ کے بچوں کو ہی ایچی سن کالج میں داخلہ ملتا ہے۔ عوامی ٹیکسوں پر پلنے والے یہ انسان دشمن پاکستانی برہمن باقی ساری عوام کو شودر سمجھتے ہیں۔ 1947ء سے لیکر آج تک سیاسی اشرافیہ نے بیوروکریسی کے توسط سے ایچی سن کالج پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ اس کالج میں اشرافیہ کے بچوں کی جدید نوآبادیاتی دور کے تقاضوں کے مطابق ذہنی آبیاری کی جارہی ہے اور پھر یہاں کے فارغ التحصیل طلباء بیرونی ممالک اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد پاکستان پر سیاسی اور بیوروکریسی کی شکل میں مسلط کر دیے جاتے ہیں۔ سابق وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی، اکبر بگٹی، چوہدری نثار علی خان،عمران خان، پرویز خٹک، فاروق لغاری، سردار ایاز صادق،غلام مصطفی کھر سمیت کتنے ایسے نام اوربھی موجود ہیں جو ملکی سیاست پر چار دہائیوں سے قابض ہیں ۔

 

آج تک سندھ اور پنجاب کی ستر سے اسی فیصد زمین پہ یہی سردار، وڈیرے اور جاگیردار قابض ہیں جو اس علاقے میں بسنے والے غریبوں سے چھین کر برطانیہ کی طرف سے اس علاقے کے غداروں کو تحفے میں دی گئی تھی۔ ان جاگیرداروں کو نسل در نسل وفادار رکھنے کے لیے ان کی ذہن سازی کے مقاصد کے لیے ایچی سن کالج لاہور، میو کالج اجمیر اور تعلق دار کالج اودھ قائم کیے گئے جہاں کسی غریب کا داخلہ لینا بھی محال تھا۔ مسلم لیگ میں قائد اعظم کے سوا اکثر قائدین یہی وڈیرے، جاگیردار اور سردار تھے جو پاکستان بنتا دیکھ کر اپنی وڈیرا شاہی کی حفاظت کے لیے مسلم لیگ میں شامل ہوگئے تھے اور ان وڈیروں نے ملک میں چلنے والی ان تمام زمینی اصلاحات کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیا جس سے ان کی وڈیرا شاہی خطرے میں پڑتی ہو۔

 

اب حال یہ ہے کہ پاکستان میں1970ء سے اب تک597 بااثر خاندان حکومت پر قابض ہیں۔ ان خاندانوں میں سے 379 کا تعلق پنجاب سے، 110 کا سندھ، 56 کا کے پی کے، 45 کا بلوچستان جبکہ 7 کا تعلق وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں سے ہے۔ جنوبی پنجاب میں اب یہ شرح 64 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں اب یہ شرح 44 فیصد، سندھ میں41 فیصد، کراچی میں9 فیصد، کے پی کے میں28 فیصد اور فاٹا میں18 فیصد تک جاپہنچی ہے۔ 1990ء کے نگران وزیراعظم غلام مصطفیٰ جتوئی کے 11افراد مختلف اسمبلیوں میں رہے۔ 2008ء میں جتوئی کے 4 بیٹے ملک کے تینوں قانون ساز اداروں میں موجود تھے۔ بااثر سیاسی خاندانوں میں لغاری، کھوسہ، خان، سید، بگٹی، مرزا، چوہدری، مزاری، زرداری، مروت، شریف، بھٹو اور دیگر خاندان شامل ہیں، موجودہ وزیراعظم نوازشریف کے خاندان کے کئی افراد حکومت میں ہیں جن میں اسحاق ڈار، حمزہ شہباز، مریم نواز، کیپٹن(ر)صفدر اور دیگر شامل ہیں، چوہدری ظہور الٰہی کے خاندان سے چوہدری شجاعت، پرویز الٰہی، مونس الٰہی، شفاعت حسین، لغاری خاندان میں سے فاروق لغاری، اویس لغاری، سمیرا ملک، عائلہ ملک، مینا لغاری، جمال خان لغاری، رفیق حیدر لغاری، محمد خان لغاری، محسن لغاری، یوسف لغاری شامل ہیں۔ کھر خاندان کے بہت سے لوگ حکومت میں رہے ہیں۔ زرداری خاندان سے فریال تالپور سمیت کئی لوگ حکومت میں آئے ہیں۔ اور ان میں سے اکثر خاندان انگریزوں سے وفاداری کے صلے میں جاگیریں حاصل کرکے مالی و سیاسی اقتدار حاصل کرنے کے قابل ہوئے۔ انگریز سے وفاداری کے صلے میں جاگیریں حاصل کرنے والے لغاری خاندان کی رحیم یارخان میں 1920 میں بننے والی رہائش گاہ کی قلعہ نما دیواریں، چھتیں اور کمروں میں پڑا فرنیچر آج بھی کسی بادشاہ کے دربار کا منظر پیش کرتے ہیں۔

 

پاکستان جمہوریت اور 22 کروڑ عوام کو چند ہزار وڈیروں، سرمایہ داروں، کا رخانہ داروں سیاست دانوں نے یرغمال بنا یا ہے اور 70 سال سے سیاسی حکمران پاکستان کے 22 کروڑ عوام کی قسمت سے کھیل رہے ہیں۔ یہ گنے چُنے خاندان تقریباً 7 ہزار مُنظم سرمایہ داروں، کا رخانہ داروں، جاگیر داروں، نوابوں پر مشتمل ہے جو آبادی کا 0.0028 فی صد بھی نہیں بنتا مگر انہوں نے 22 کروڑ عوام کو یر غمال بنایا ہوا ہے۔ یہ خاندان اور روایتی سیاست دان پاکستان کے عوام کو اقتدار کے نیٹ میں گھسنے نہیں دیتے۔

ان خاندانوں میں بھٹو خاندان (سر شاہنواز بھٹو، پھر ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، غنوی بھٹو، بلاول بھٹو زرداری اور فاطمہ بھٹو)،

شریف خاندان (نواز شریف تین دفعہ وزیر اعظم، شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب، نواز شریف کی اہلیہ قومی اسمبلی ممبر، مریم نواز اور اُنکے شریک حیات کیپٹن صفدر قومی اسمبلی ممبر، حمزہ شریف ممبرصوبائی اسمبلی)

باچا خان فیملی (خان عبدالغفار خان، ڈاکٹر خان، پھر ان کے بیٹے ولی خان، بہو نسیم ولی خان، فرزند ولی خان اسفند یار ولی اور اب اسفندیار ولی کا بیٹا ایمل اور بھانجا امیر حیدر ہوتی)

مولانا مُفتی محمود فیملی (مُفتی محمود صاحب وزیر اعلیٰ سرحد، پھر مولانا فضل الرحمان، بھائی عطاء الرحمان اور اب ان کا بیٹا اور داماد)

شیر پائو فیملی (حیات محمد خان شیر پائو، شہادت کے بعد بھائی آفتاب شیر پائو، اور اب فرزند آفتاب احمد شیر پائو سکندر شیر پائو، سینئر وزیر)

ارباب فیملی (ارباب نیار سابق وفاقی وزیر، ارباب جہانگیر سابق زیر اعلیٰ ، بیٹا ارباب عالمگیر سابق وفاقی وزیرمواصلات اور انکی اہلیہ عا صمہ عالمگیر)،

ہوتی فیملی(محمد علی خان سابق وزیر تعلیم، عبد الغفور ہوتی سابق ریلوے وزیر)

چوہدری فیملی(چوہدری ظہور الٰہی، چوہدری شجاعت حسین، چوہدری پر ویز الٰہی، چوہدری وجاہت حسین اور اب چوہدری مونس الٰہی)

سیف اللہ فیملی(بیگم کلثوم سیف اللہ، ایم این اے، سلیم سیف اللہ، ایم این اے اور ایم پی اے، ہمایوں سیف اللہ، انور سیف اللہ)،

لغاری فیملی (فاروق احمد خان لغاری، سابق صدر، اویس لغاری وفاقی وزیر، ایم پی اے اور ایم این اے)

مروت فیملی (حبیب اللہ خان جسٹس مغربی پاکستان، شاہ نواز خان، سابق چیف جسٹس کے پی کے)

مزاری فیملی (بلخ شیر مزاری وزیر اعظم، شیر باز خان مزاری قائد حزب اختلاف، شوکت مزاری سابق ایم پی اے پنجاب اسمبلی سپیکر، شیریں مزاری ایم این اے)

سومرو خاندان (خان بہادر اللہ بخش سومرو، دو دفعہ سندھ کے وزیر اعلیٰ، الٰہی بخش سومرو، سپیکر قومی اسمبلی وفاقی وزیر، رحیم بخش سومرو وزیر سندھ، محمد میاں سومرو وزیر اعظم، صدرپاکستان،سینیٹر و گو رنر سندھ)

زرداری فیملی (حاکم زرداری، آصف زرداری، بلاول زرداری، فر یال تالپور، عزراء پلیجو)

ترین فیملی(ایوب خان صدر پاکستان فیلڈ مارشل، گوہر ایوب، عمر ایوب ، یوسف ایوب)

رائو فیملی (رائو محمد ہاشم خان، رائو محمد اجمل خان، رائو سکندر اقبال، رائو قیصر علی خان، رائو محمد افضال)

قاضی فیملی (قاضی عبدالمجید عابد 4 بار وفاقی وزیر، فہمیدہ مرزا، سپیکر قومی اسمبلی، تین دفعہ ایم این اے، ذوالفقار مرزا، صوبائی وزیر،

پیر فیملی (پیر مظہرا لحق، کئی بار وزیر، ما روی مظہر ، صوبائی وزیر سندھ،

پیر زادہ فیملی(شریف ا لدین پیر زادہ، 1973 آئین کے آر کیٹک، وفاقی وزیر قانون، عبدالحفیظ پیر زادہ، سابق وزیر تعلیم،

نون فیملی (فیروزخان نون وزیر اعظم، وزیر خارجہ اور وزیر اعلیٰ پنجاب، انور خان نون، سابق ایم این اے، امجد خان نون ، ضلع ناظم، وقارالنساء نون بھٹو خاندان کی قانونی مشیر،

منہاس فیملی (اکبر خان فورسٹار جنرل، افتخار خان ، پہلے نامزد چیف آف آرمی سٹاف، عفت لیاقت علی وفاقی وزیر، ریاض احمد صوبائی وزیر پنجاب، میاں فیملی آف باغبانپورہ  جسٹس میاں شاہ دین، سر میاں محد شفیع، صدرآل انڈیا مسلم لیگ، میاں شاہ نواز، میاں افتخار الدین سابق سیاست دان،

گبول فیملی: اللہ بخش گبول ممبربمبئی اور سندھ قانون ساز اسمبلی، دو دفعہ کراچی کے میئر، نبیل گبول، سابق وفاقی وزیر جہاز رانی،

جدون فیملی: اقبال جدون وزیر اعلیٰ سرحد، امان اللہ جدون ، وزیر پٹرولیم،

کھر فیملی: مصطفی کھر، وزیر اعلیٰ پنجاب ، غلام ربانی کھر ایم این اے، حنا ربانی کھر، سابق وزیر خارجہ،

خٹک فیملی: حبیب اللہ خٹک، علی قلی خان، فوجی جنرل، غلام فاروق خان، قانون ساز، نصراللہ خٹک وزیر اعلیٰ سر حد، یوسف خٹک، اجمل خٹک، پرویز خٹک ( وزیر اعلیٰ کے پی کے،

کھوکر خاندان ، بگتی خاندان ، مگسی خاندان ، اچکزئی فیملی، پرنس اورنگ زیب فیملی، ترہ کئی خاندان، جتوئی خاندان اور اسکے علاوہ دیگر اور بھی خاندان ہیں جو پاکستان پر 70 سال سے حکومت کر رہے ہیں۔

 

پاکستان کے سیاسی وڈیرے عقیل عباس جعفری کی اردو تصنیف ہے جس میں آپ نے پاکستان کے سیاسی خاندانوں کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔ پاکستان کے سیاسی وڈیرے سیاست کے موضوع پر ان کی پہلی کتاب ہے جس نے شائع ہوتے ہی تہلکہ مچا دیا۔ یہی وہ کتاب تھی جس نے سیاست کی دنیا میں سیاسی وڈیرے کی اصطلاح کو متعارف کروایا۔ صوبہ سرحد کے سیاسی خاندانوں کا تذکرہ شروع ہوتا ہے تو وہ ارباب، رند، بلور، ترین، تنولی، جدون اور خٹک خاندانوں کا پس منظر بیان کرتے ہوئے راجگان گکھڑ، شیر پاؤ، کنڈی، گنڈا پور اور محمد زئی تک آتے ہیں اور پھر ہمیں میاں گُل، ناصر، ہوتی اور یوسف زئی خانوادوں سے متعارف کراتے ہیں۔ بلوچستان کی طرف بڑھتے ہیں تو اسی الفبائی ترتیب میں ہمیں اچکزئی، بزنجو، بگٹی، جام، جمالی، جوگیزئی، خاندانوں سے ملواتے ہوئے خان آف قلات، ڈومکی، رند، رئیسانی، زہری، کھوسہ، کھیتران خاندانوں تک لے جاتے ہیں اور وہاں سے محمد حسنی، مری، مگسی، مینگل اور نوشیروانی خاندان تک ہمیں اپنا ہم سفر بناتے ہیں۔ صوبہ سندھ کے جن سیاسی خاندانوں پر عقیل عباس جعفری نے خامہ فرسائی کی ہے ان میں ارباب، انڑ، بجارانی، بھٹو، پٹھان، پگاڑا، پیرزادہ، تالپور، شاہ (تھرپارکر)، جام، جاموٹ، جتوئی، جونیجو، چانڈیو، شاہ (خیر پور)، زرداری، سید(سن)، سومرو، پیر (سہیون) شیرازی، عباسی، قاضی، کھوڑو، گبول، لوند، شاہ (مٹیاری)، مخدوم، مری، ملک، مہر، شاہ (نواب شاہ)، وسان اور ہارون خاندان شامل ہیں۔

 

خاندانوں کی سب سے بڑی تعداد قابلِ فہم طور پر پنجاب کے حصّے میں آئی ہے جن میں الپیال، بابر پٹھان، پراچے، ٹوانے، جنجوعے، چٹھے، چوہدری، چیمے، خلف زئی پٹھان، دریشک، دستی، دولتانے، ڈاہا، روکڑی، رئیس، سردار، سیّد، عباسی، قریشی، قصوری، نواب آف کالا باغ، کھٹڑ، کھر، کھرل، کھوسہ، گردیزی، گیلانی، لغاری، مخدوم زادے، مزاری، موکل، نوابزادے، نکئی، نون، وٹو اور وریو خاندان شامل ہیں۔جمہوری سیاست کا دور آئے یا مارشل لاء کے ڈنڈے کی حکمرانی، ہر صورت میں قیادت جاگیردار طبقے کی ہوتی ہے۔ کبھی یہ ری پبلِکن کا نام اختیار کرتے ہیں، کبھی کنونشن لیگ کے پرچم تلے جمع ہوجاتے ہیں، کبھی بھٹو کی اسلامی سوشلزم میں محفل جماتے ہیں، کبھی ضیاء الحق کی مجلسِ شوریٰ میں نظر آتے ہیں اور کبھی نواز شریف کا نفسِ ناطقہ بن جاتے ہیں عرض ہر عہد اور ہر اُلٹ پھیر میں انھی کا سِکہ رواں ہوتا ہے اور حد یہ ہے کہ حزبِ اقتدار ہی نہیں، حزبِ اختلاف بھی انہی سرداروں، وڈیروں، نوابوں اور خانوں پر مشتمل ہوتا ہے اور سچ یہ ہے کہ آج بھی برطانیہ ان ملک و مذہب دشمن لوگوں کے ذریعے برصغیر پہ حکومت کر رہا ہے۔ کب تک یہ قوم سوتی رہے گی۔